ڈاکٹر طاہرالقادری نے 72دن کے دھرنے میں کسی ایک لمحہ بھی آئین کی بساط لپیٹ دینے یا آئین کو تسلیم نہ کرنے یا اسے ردی کا ٹکڑا قرار دینے کی کوئی ایک سٹیٹمنٹ بھی نہیں دی تھی جبکہ دوسری طرف عمران خان کا مطالبہ تھا کہ چار انتخابی حلقے کھولے جائیں اور دھاندلی کے خلاف اعلیٰ ادارے اپنا فیصلہ کن آئینی کردار ادا کریں، یعنی ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنے اور احتجاج کا ایجنڈا بڑا کلیئر تھا، ڈاکٹر طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے اور عمران خان دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ اسی لیے وہ حلقے بھی اس احتجاج کو بلاجواز قرار نہیں دے رہے تھے جن کی ہمدردیاں حکمرانوں کے ساتھ تھیں۔ میڈیا اور عام آدمی بھی ان مطالبات کو درست سمجھتا تھا اور اس احتجاج کی قانونی، اخلاقی اور سیاسی حیثیت مسلمہ ہونے کی وجہ سے شریف برادران اور ان کے حواری بھاگتے پھررہے تھے اوران کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے تو وزیراعظم ہاؤس میں سونا چھوڑ دیا تھااورانہوں نے اپنی نقل و حمل کو محدود اور خفیہ رکھا ہوا تھا۔نواز شریف کے وزیر داخلہ چودھری نثار نے تو یہاں تک کہا کہ میں جب ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقریریں سنتا ہوں تو میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں رات کو دھرنے کا حصہ بن جاؤں۔ ڈاکٹرطاہرالقادری کے دھرنے میں ہزاروں کارکنان جن میں خواتین،بچے،بزرگ،جوان ہر طبقہ فکر کے افراد شامل تھے۔ احتجاج میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد کی شرکت اس بات کا ثبوت تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پرامن رہتے ہوئے انصاف مانگنا چاہتے ہیں۔ وہ حکومت سے دست و گریباں ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اگر ان کا مقصد پارلیمنٹ پر یا کسی بھی ریاستی ادارے پر چڑھائی ہوتا تو خواتین اور بچے ہر گز احتجاجی مارچ کا حصہ نہ ہوتے۔ سازشوں میں ید طولیٰ رکھنے والے شریف برادران نے سپریم کورٹ کی تحقیر اور پی ٹی وی حملہ کے ڈرامے بھی رچائے مگر پی ٹی وی حملے کا الزام اتنا بودا تھا کہ آج کے دن تک اس کیس کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا کیونکہ جن پر الزام لگایا گیا ہے ان کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے ۔ 2014 ء کے دھرنے کے موقع پر دوسری طرف پارلیمنٹ کے اندر اس وقت کی حکمران جماعت ن لیگ، پیپلز پارٹی، اچکزئی، مولانا فضل الرحمن کی جماعتوں کے اراکین اسمبلی شعلہ بیانی میں مصروف رہے۔ کسی جماعت کے رہنما کوپارلیمنٹ کے فلور پر کھڑا ہو کریہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ آخر ڈاکٹر طاہرالقادری چاہتے کیا ہیں؟ جو وہ چاہتے ہیں ان کی بات سنی جائے اورآئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے مگر اس وقت کی اپوزیشن کا کوئی پارلیمنٹرین ڈاکٹر طاہرالقادری کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے حوالے سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش ہو گئی تو نواز شریف، شہباز شریف اور حواری پھانسی کے پھندے سے کسی طور نہیں بچ سکیں گے۔ اس لیے انہوں نے انصاف کا ساتھ دینے کی بجائے نواز شریف کی ناجائز ذرائع سے جمع کی ہوئی دولت پر ہاتھ صاف کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ ترقیاتی فنڈز کے نام پر، نوکریوں کے نام پر، پلاٹ، پرمٹ، ٹھیکوں کے نام پر اپنے اپنے اضلاع میں زیادہ سے زیادہ مالی اور سیاسی فوائد سمیٹے گئے اور دل کھول کر پسند کے تقرر و تبادلہ کی سہولیات حاصل کیں۔ حالت نزع کو پہنچی ہوئی شریف حکومت خزاں رسیدہ پتے کی طرح لڑکھڑاتی پھررہی تھی اور مولانا فضل الرحمن جیسے گھاگ پیسے،اقتدار اورسرکاری مراعات سے عشق کرنے والے شریف حکومت کی بے بسی کا جی بھر کر فائدہ اٹھاتے رہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں کہا جاتا تھا جب پارلیمنٹ موجود ہے تو پھر فیصلے سڑکوں پر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی جمہوریت کا مستقبل کسی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی کسی جتھے کا احتجاج قبول کیا جائیگا۔مولانا فضل الرحمن تو یہاں تک کہتے تھے حکومت طاقت کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتی؟ اور بزدلی کیوں دکھارہی ہے؟وہ بار بار اس بات پر زور دیتے تھے کہ بے رحم طاقت کا استعمال کر کے ڈی چوک کو خالی کروالیا جائے۔ کسی ایک موقع پر بھی مولانا فضل الرحمن کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ہمدردی کی توفیق نہ ہوئی۔ ابھی تک حکومت کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی کال کی قانونی، اخلاقی اور سیاسی حیثیت پر بات نہیں کی گئی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مولانا فضل الرحمن سے پوچھے کہ آپ کے لاک ڈاؤن اور اسلام آباد کے گھیراؤ کے اعلان کی اخلاقی اور قانونی حیثیت کیا ہے۔آئین کے اندر رہتے ہوئے ہرشخص کو پرامن طریقے سے احتجاج کاحق حاصل ہے مگر احتجاج کس بات پر یہ جاننا اور پوچھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کے گھر سے لاشیں اٹھیں جن کی ایف آئی آر درج نہیں ہورہی اور آپ احتجاج پر مجبور ہیں؟ کیا آپ اپنی انتخابی شکست کو دھاندلی سے تعبیر کرتے ہیں اور ری کاؤنٹنگ چاہتے ہیں اور اپنا کوئی حلقہ کھلوانا چاہتے ہیں اور حکومت مان نہیں رہی؟ اور اگر اس کے علاوہ کوئی مطالبہ ہے تو اس کا کھل کر اظہار کریں اور وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر پارلیمانی کمیٹی بنائیں جو مولانا فضل الرحمن کے مطالبات سنے اور اگر مولانا نہ کوئی مطالبہ پیش کرتے ہیں اور نہ ہی احتجاج سے باز آتے ہیں تو پھر محض سیاست بازی اور مسلح تربیت یافتہ مدرسوں کے بچوں کی طاقت کے زعم میں کسی کو لاء اینڈ آرڈر خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے اور حکومت مولانا فضل الرحمن کے مدرسوں کے بچوں کے اسلام آباد پہنچنے کا انتظار نہ کرے۔ انہیں ان کے گھروں کے اندر ہی روک لیا جائے اور اس حوالے سے حکومت اپنی رٹ قائم کرے اس کے لیے ہر قانونی فورم اور اقدام بروئے کار لایا جانا چاہیے۔سابق وزیرداخلہ چودھری نثار نے نواز شریف کے حکم پر اٹک روڈ پر خیبرپختونخوا کے منتخب وزیراعلیٰ کے قافلے کو رات بھر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا اور منتخب وزیراعلیٰ کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ موجودہ حکومت بھی لاء اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے لیے اس ماڈل سے استفادہ کر سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن سمجھتے ہیں کہ اس وقت کھرب پتی قیادت جیلوں میں ہے بقیہ پر تلوار لٹک رہی ہے اور ان کی جماعتوں کے نمبر 2 لیڈر اور کارکنان مصلحتوں کے دبیز پردے اوڑھے ہوئے ہیں۔ لہٰذاحکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اچھا خاصا خرچہ بھی مل جائے گا اور حکومت کو بند گلی میں دھکیلنے کے نتیجے میں ان کے لیے کوئی نہ کوئی سیاسی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے مولانا اسٹیبلشمنٹ کو بھی آنکھیں دکھانا چاہ رہے ہوں کہ مجھے اقتدار کی راہداری سے نکالنے کے بعد نظام کو چلا سکتے ہو تو چلا کر دکھالیں۔ آخر میں یہی گزارش ہے کہ حکومت مولانا فضل الرحمن کے اصل ایجنڈے کو میڈیا اور عوامی حلقوں کے سامنے بے نقاب کرے۔ اگرچہ مہنگائی اور بیڈگورننس کی وجہ سے عوام پریشان حال ہیں اور حکومت شاید براہ راست کسی عوامی انٹرایکشن کے حوالے سے مضبوط اخلاقی بنیادوں سے محروم ہے لیکن سچ کی بنیاد پر اسے آگے بڑھنا چاہیے۔ مہنگائی کو بھی کنٹرول کرنا چاہیے اور گورننس پر بھی توجہ دینی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ مولانا کے بلیک میلنگ پر مبنی احتجاجی پلان کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن اسی سسٹم کی پیداوار ہیں اسی سسٹم میں ہی ان کی بقاء ہے اور اسی سسٹم کے وہ محافظ ہیں۔ اسی لیے وہ اس سسٹم کے خلاف کوئی بات نہیں کررہے اور اسی لیے انہیں آج کے پڑھے لکھے نوجوان کی ہمددردیاں حاصل نہیں ہیں۔ عام آدمی سمجھتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ خواہ وہ مشرف کا دور حکومت ہو۔ خواہ وہ آصف علی زرداری یا ن لیگ کا عہد اقتدارہو۔ پہلی دفعہ انہیں اقتدار کے بغیر رہنا پڑ رہا ہے اور ان کی حالت پانی سے باہر رہنے والی اس مچھلی جیسی ہے جو پانی کے بغیر تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے۔