برسوں پہلے مولانا فضل الرحمن طائف تشریف لائے تب میں وہیں تھا۔ مولانا کے احباب نے طائف کی بلند ترین چوٹی الھداء کے شیرٹن ہوٹل میں ان کے اعزاز میں عصرانے کا اہتمام کیا۔ عصرانے میں مولانا نے خطاب کیا اور فقیر نے بھی چند گزارشات پیش کیں۔ تب مولانا کی داڑھی کا غالب حصہ ابھی سیاہ تھا۔ مولانا اس وقت ابھی In the makingاور سیاسی رہگزر میں تھے پس از خطاب انہوں نے سرگوشی میں پوچھا کیوں بھئی خطاب کیسا تھا؟ میں نے عرض کیا مولانا! چھوٹے موٹے خطیب تو ہم بھی ہیں اس لئے ولی راولی می شناسد۔ آپ نے خوصورت اور دلنشیں خطاب کیا ہے۔ مولانا یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ یہ تب کی بات تھی اب مولانا ایک زیرک‘ معاملہ فہم سیاستدان بن چکے ہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے ایک بار مولانا جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں بحالی جمہوریت کے قافلہ سالار ہونے کی پاداش میں جیل جا چکے ہیں۔ مگر ان کا عمومی تاثر معاملہ فہمی اور موقع شناسی کا ہے۔ تاہم اس بار صورت حال مختلف ہے: پر کچھ اب کے سر گرانی اور ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا مولانا کو ایک ’’فائٹر‘‘ کے روپ میں پہلی بار دیکھ رہی ہے۔ تاہم مولانا ہمیشہ کی طرح کمپوزڈ ہیں۔ تندو تلخ سوالوں کے وہ اب بھی جوابات اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ دیتے ہیں۔ مولانا کی بدن بولی سے سکون و اطمینان جھلکتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنے آزادی مارچ کی کامیابی کا پورا یقین ہے۔ شاید کالم تحریر کرنے کے دوران مولانا سے رابطہ ہو جائے تو میں ان سے یہی سوال کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے حق الیقین کا راز کیا ہے؟ حکومت کا رویہ جوں جوں لچکدار ہوتا جا رہا ہے توں توں مولانا کا رویہ غیر لچکدار ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ مدت پہلے کی مولانا سے گفتگو اور مولانا عبدالغفور حیدری سے تازہ ترین مکالمے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نہ صرف مولانا بلکہ ان کے ساتھیوں کو اپنے مقصد کی سچائی کا روز روشن کی طرح یقین ہے۔ حصول مقصد کے لئے وہ اپنے راستے کا یقین کر چکے ہیں اور انہیں راستے کے نشیب و فراز کا پوری طرح اندازہ ہے ۔وہ راستے میں پیش آنے والی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لئے حکمت عملی بھی ترتیب دے چکے ہیں۔ کوئی مولانا کی جرأت رندانہ اور سیاسی مہارت کا زباں سے اقرار کرے یا نہ کرے مگر درون دل ہر کوئی تسلیم کرتا ہے قومی اسمبلی کی 342میں سے صرف 4سیٹیں لے کر مولانا اس وقت صرف آزادی مارچ کی نہیں بلکہ سیاسی مارچ کی قیادت بھی کر رہے ہیں اور مولانا سے کئی کئی گنا زیادہ سیٹیں رکھنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مولانا کی امامت میں پیچھے ہاتھ باندھے کھڑی ہیں۔ مفتی محمود صاحب کے قیام پاکستان سے پہلے کے سیاسی کردار کے بارے میں ہمیں زیادہ معلومات نہیں۔ البتہ پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما کی حیثیت سے ہمیشہ ایک سچے پاکستانی کے طور پر نہ صرف اپوزیشن کے ساتھ وابستہ رہے بلکہ وہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ رہے اور بلوچستان کی حکومت بھی ان کے پاس تھی اور جب جمہوریت کو خطرات لاحق ہوئے تو انہوں نے دونوں صوبوں کی حکومتوں کی قربانی دے دی۔ اگر مولانا مفتی محمود یا مولانا فضل الرحمن کے اجداد میں سے کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوئی یا ان کا سیاسی کردار قابل گرفت تھا تو کیا بیٹا اپنے باپ کی غلطیوں کا ذمہ دار اور جوابدہ ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں واضح ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ خود قائد اعظم محمد علی جناحؒ 1920ء تک کانگریس میں رہے اور جب ناگپور اجلاس میں مہاتما گاندھی کے ساتھ شدید اختلافات ہوئے تو انہوں نے کانگریس چھوڑ دی۔اب ہمارے دانشوروں کو ماضی کی بھول بھلیوں سے باہر آ جانا چاہیے اور تمام تر توجہ پاکستان کے مستقبل کو تاباں و درخشاں بنانے پر مرکوز کرنی چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے مقاصد کیا ہیں؟ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں کہ مولانا کے بقول وہ ’’سیلیکٹڈ‘‘ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور نہ صرف آئینی و جمہوری حکومت کا قیام چاہتے ہیں بلکہ ایک جمہوری کلچر کی مستقل ترویج بھی ان کے پیش نظر ہے۔ مولانا نے بارہا وضاحت کی ہے کہ ان کی تحریک کسی ایک فرد کے خلاف نہیں بلکہ پورے انتظام کے خلاف ہے۔ لاہور میں بائیں بازو کے کچھ دانشوروں اور صحافیوں نے مولانا کی خدمت میں ’’سول سوسائٹی‘‘ کا ایک اعلان نامہ بھی پیش کیا ہے۔ اس اعلان نامے میں صحت ‘ روزگار ‘ خوشگوار زندگی وغیرہ کی ضمانت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس اعلان نامے کی پہلی شق ہی خلاف آئین ہے۔ اس اعلان نامے میں عوام کے اقتدار اعلیٰ کی ضمانت مانگی گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق اقتدار اعلیٰ کا مالک رب ذوالجلال ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اس کے نائبین کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے یہ شق حذف کرے باقی مطالبات آئینی و جمہوری ہیں۔جس کسی نے حکومتی کیمپ میں مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کرنے کی تجویز دی ہے وہ یقینا کوئی صاحب فہم و فراست ہے۔ مولانا پہلے تو وزیر اعظم جناب عمران خان کے استعفیٰ کے بغیر مذاکرات پر آمادہ نہ تھے تاہم 20اکتوبر بروز اتوار کو حکومت اور جمعیت علمائے اسلام کے مذاکرات کا پہلا دور طے ہوا تھا مگر دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے شدید اعتراضات پر یہ مذاکرات ملتوی ہو گئے ہیں۔ اب مذاکرات کا فیصلہ اپوزیشن رہبر کمیٹی کرے گی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مذاکرات کے آپشن کو نہ صرف دل و جان سے قبول کرنا چاہئے بلکہ اسے کامیاب بنانے کے لئے سر توڑ کوشش بھی کرنی چاہیے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی حملوں میں ایک جوان سمیت 11شہری شہید ہوئے۔ اور کشمیر کے 80لاکھ مسلمانوں کو گھروں میں بھوکا پیاسا مقید و محصور رکھا جا رہا ہے۔ نیز عالمی کمیونٹی کی بے حسی اور اسلامی کمیونٹی کی لاتعلقی و بیچارگی دیکھ کر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیں اپنے خدا اور اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ اپنے زور بازو پربھروسہ کرنے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہماری صفوں میں مکمل اتحاد و اتفاق ہونا چاہیے اگر ہم غیروں کے ساتھ افہام و تفہیم سے کام لے سکتے ہیں اور عالمی سطح پر اقوام عالم کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے تگ ودو کر رہے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے داخلی مذاکرات کامیاب بنانے چاہئیں۔ البتہ مولانا فضل الرحمن کی یہ شکایت جائز ہے کہ بدکلامی‘ کردار کشی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کیمپوں کو فی الفور عام میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف گولہ باری بند کر کے سیز فائر کر لینا چاہیے اور مذاکرات کے لئے فضا کو سازگار بنانا چاہیے۔ حکومت کے طے شدہ ایک دو ترجمانوں کے علاوہ باقی ہر حکومتی کارندے کو مولانا اور اپوزیشن کے خلاف دھمکیاں بند کر دینی چاہئیں۔ عربی کی ایک مشہور مثل ہے کہ جب طغیانی منہ زور ہو‘ جب غلام کا چہرہ سرخ ہو جائے اور جب اونٹ بلبلانے لگے تو سامنے سے ہٹ جائو۔ حکومت حکمت‘ دانائی اور سمجھ داری وذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اور اپنے 2014ء والے دھرنے کی مثال سامنے رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے دے اور انہیں اپنا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے دے۔ اگر اس احتجاج کو طاقت کے بل بوتے پر روکا گیا تو یہ ملک و قوم کے لئے نیک شگون نہ ہو گا۔