صرف آٹھ سال کے عرصے میں پاکستان کی چار جاندار تحریکیں ایسی ہیں، جن میں مجھے عملی طور پر ایک کارکن کی حیثیت سے حصہ لینے کا موقع ملا۔ بارہ سال کی عمر میں ایوب خان کے خلاف جلوسوں میں حصہ لینا شروع کیا تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی پر نظریاتی کیمونسٹوں کا غلبہ تھا۔اکبرعلی ایم اے ،کارل مارکس کی مشکل ترین کتابوں کو آسان لفظوں میں ڈھال کر چھوٹے چھوٹے پمفلٹ بنا کر تقسیم کرتے تھے اور پھر بہت ہی سادہ زبان میں سمجھاتے۔ عثمان فتح گجرات پیپلز پارٹی کے سربراہ تھے اور صاحبِ علم کیمونسٹ بھی۔ ان کے گھر کے سامنے میرا گورنمنٹ جامع ہائی سکول تھا۔ راحت ملک، مفتی آفتاب شعلہ، شوکت کمال، سمعیہ عثمان، کیا کیا لوگ تھے کہ اس محفل میں جا نکلو تو ایسے لگتا تھا جیسے دنیا کی کسی بڑی یونیورسٹی میں عالمی انقلابی صورتِ حال پر بحث ہو رہی ہے اور اس میں پاکستان میں ممکنہ انقلاب کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اسی گھر میں ایک دن ذوالفقار علی بھٹو کی محفل بھی سجی ہوئی تھی کہ میں سکول سے فارغ ہو کر وہاں جا نکلا۔ بھٹو صاحب نیچے قالین پر بیٹھے ہوئے تھے اور صوفے سے ٹیک لگا رکھی تھی۔ عثمان فتح صاحب نے مجھے دیکھ کر کہا یہ بہت جوشیلا سپاہی ہے۔ شاید مجھ سے پہلے محفل میں کوئی نظریاتی بحث چل رہی تھی کہ بھٹو صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’Tiny Communist‘‘ (ننھا کیمونسٹ)۔ اس طنز کا عقدہ شام کو کھلا جب ذوالفقار علی بھٹو نے گجرات کے مشہور ترین ٹرانسپورٹرمشتاق پگانوالہ کو پیپلز پارٹی میں شامل کر کے ضلعی صدر مقرر کردیا ، جس پر عثمان فتح صاحب سمیت تمام نظریاتی کارکن احتجاجاً مستعفی ہو گئے تھے۔ بھٹو صاحب فیصلہ کر کے چلے گئے، لیکن گجرات میں پیپلز پارٹی کی نظریاتی سیاست ہمیشہ کے لیئے دفن ہو گئی۔ اسی شام رام تلائی کے سامنے زمیندار بینک کے ہال میں غلام احمد پرویز کی تقریرتھی اور پیپلز پارٹی کی ساری نظریاتی قیادت پرویز کے ’’جدید‘‘ اسلامی خیالات میں اپنا غم غلط اور غصہ ٹھنڈا کر رہی تھی۔ مجھے آج بھی ان کے چہروں پر غصہ، ملال، شکست اور بھٹو کی سیاسی چالبازی کا دکھ یاد ہے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ تک میری زندگی کے تین سال کیمونزم اور الحاد میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کیمونسٹ اور سوشلسٹ نظریاتی لوگ میرے جیسے نووارد کو کیمونزم بعد میں پڑھاتے تھے، لیکن تین کتابوں پر پہلے لیکچر دیتے اور پھر وہ کتابیں پڑھنے کو تھما تے۔ ایک کتاب فریڈرک اینجلز کی ’’خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘ اور دوسری روسی مصنفین میخائل ایلین اور ایلینا سیگال کی کتاب ’’انسان بڑا کیسے بنا‘‘ تھی۔ ان دونوں کتابوں میں ڈارون کے ’’بندر سے انسان‘‘ بننے کی کہانی سے لے کر انسانی تہذیب کی غاروں سے شہروں تک ارتقا کی داستان ہے۔ جب کوئی اس ترتیب سے دنیاکی تاریخ پڑھ لیتا تواس کے ذہن سے خدا کا تصور محوہو جاتا، پھر اس کے ہاتھ میں علامہ نیاز فتح پوری کی ’’من و یزداں‘‘ تھما دی جاتی، جس کے پڑھنے کے بعد تشکیک کی بھول بھلیوں سے ایک پورا ملحد برآمد ہوتا ۔ ان تینوں کتابوں کے مرحلہ وار مطالعے سے میرا بھی یہی عالم تھا، کہ اچانک سانحہ مشرقی پاکستان نے میرے دل و دماغ پر ایک حیران کن اثر کیا۔ میرے لیے یہ بڑی حیرت کی بات تھی میرا ملک ٹوٹنے پر کیمونسٹ اور ملحد اندر ہی اندر اتنے خوش بھی ہو سکتے ہیں۔ ہدایت مقدر ہو تو تقدیر سامان خود بخود فراہم کرتی ہے۔ میرے لیے یہ سب صرف میرے والد کی دعاوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ جب کبھی میں ابا جی سے الحاد اور لامذہبیت پر گفتگو کرتا تو وہ خاموشی سے سنتے ، آنسو ان کی سفید داڑھی پر گرتے اور صرف اتنا کہتے ’’تم واپس ضرور آؤ گے، کیونکہ میں نے تمہیں درود شریف کی لوریاں دے کر پالا ہے‘‘۔ میرے والد کی دعائیں میرے لیے ہدایت کا راستہ بنائے جا رہی تھیں۔ جس طرح آج کے ملحدوں، کیمونسٹوں، سیکولروں اور وومن مارچ کے متوالوں کی نجی محفلوں میں آپ چلے جائیں توان محفلوں میں اللہ ، رسول اللہ ﷺ، مذہب مولوی اور اسلام کے بارے میں ایسی مضحکہ خیز اور غلیظ گفتگو سننے کو ملے گی کہ اگر وہ منظر عام پر آجائے تو فساد برپا ہوجائیں۔ اسی طرح اس دور میں بھی ایسا ہوتا تھا مگر غلاظت اسقدر نہیں تھی لیکن مذہبی تصورات کا تمسخر ضرور تھا۔ مجھے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے پر ان کیمونسٹوں کی خوشی کا دکھ تھا اور ان سے ایک لمبی بحث اور لڑائی کے بعد میں شدید غصے کے عالم میں سرکلر روڈ پر ٹہل رہا تھا کہ کالری دروزے میں واقع ’’جماعت اسلامی‘‘ کے دفتر کی چھت پرچند درجن افراد ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ تحریک کے تحت ایک جلسہ کر رہے تھے۔ بھٹو برسرِ اقتدار تھا اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی بن چکا تھا۔ بھٹو آمریت کا خوف اسقدر تھا کہ جلسہ دفتر تک محدود تھا۔ میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر جا رہا تھا اور میرے کانوں میں ایک گرجدار آواز سحر کی طرح اثر کرتی چلی جا رہی تھی۔چھت کے صحن میںداخل ہوا تو ایک ادھیڑ عمر کا شخص، کالی شیروانی پہنے سر پر قراقلی ٹوپی سجائے لفظوں سے کھیل رہا تھا۔ ایک عینک اس کے ہاتھ میں تھی جسے وہ ہاتھ میں گھماتا جاتا۔ میں پچھلی قطار میں جا بیٹھا۔ میرا دوست مشتاق فاروقی مرحوم وہاں بیٹھا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے، کہنے لگا مولانا گلزار احمد مظاہری، میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ تو پورا ’’مظاہرہ‘‘ ہیں۔ وہ چھوٹا سا جلسہ، جماعتِ اسلامی کے دفتر کی خم دار سیڑھیاں، دفتر میں روزنامہ الحدید کا کمرہ اور سید محمود ضیغم مرحوم کی دلوں میں جذب کرنے والی شخصیت، شیخ ظہور احمد کے چہرے کا نور اور گفتگو کا حسن، سب یاد کروں تو ایسے لگتا ہے جیسے اللہ نے مجھ تک ہدایت پہنچانے کے لیئے خوبصورت جال پھیلا رکھا تھااور اس جال میں داخلہ ’’مولانا گلزار احمد مظاہری‘‘کی گرجدار، سحر انگیز آواز کاپیچھا کرتے ہوئے ہوا۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو عرب کے وہ ہدی خوان یاد آجاتے ہیں جو ایسی ہدی گایا کرتے تھے کہ صحرا میں بکھرے ہوئے اونٹ ان کے اردگرد جمع ہوجایا کرتے تھے۔ کارواں سے بچھڑے ہوئے اس اونٹ کا ہدی خوان مولانا گلزار احمد مظاہری تھے۔ میری الحاد کی دنیا کو بدلنے میں تو کچھ وقت لگا، لیکن میں ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ مہم کا سرگرم کارکن ضرور بنا گیا۔ تقریر اچھی کر لیتا تھا اس لیے ہر شہر قریے میں جماعت اسلامی اور جمیعت کے جلوس میں مجھے ضرور بلوایا جاتا ۔ اس کے بعد کی دو تحریکیں میں نے ان لوگوں کی معیت میں گزاری ہیں جن میں مولانا مظاہری واقعی ایک جیتا جاگتا ’’مظاہرہ‘‘ تھے۔ مولانا کے برخوردار ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے ان کے جیل کے زمانے کی کہانی مرتب کر کے میرے جیسے لوگوں پر ایک احسان یہ کیا ہے کہ مجھے اس درد میں کھو جانے کا ایک سحر انگیز موقع فراہم کیا ہے۔ مولانا کی یہ ڈائری میرے ان سے تعلق سے پہلے کی ہے۔ مجھے ان کی ہمرکابی کا اصل شرف 1974ء کی ختمِ نبوت تحریک میںحاصل ہوا۔ ایک ولولہ انگیز مقرر جو گاؤں گاؤں ہونے والے جلسوں میں شعلہ بیانی کرتاہوا، سید الانبیاء ﷺ کی ختمِ نبوت کا پہرے دار تھا۔ مجھے آج بھی منڈی بہاؤالدین کے جلسے میں رات گئے ان کی تقریر اس لیے یاد ہے کہ اس کے ساتھ میرا بھی ایک فخر جڑا ہوا ہے کہ اس جلسے میں جن مقررین پر نقصِ امن کا پرچہ درج ہوا تھا، ان میں مولانا مظاہری کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ ان کے ساتھ آخری تحریک 1977ء کی بھٹو آمریت کے خلاف ’’نظامِ مصطفیٰ تحریک‘‘ﷺتحریک تھی۔ اس زمانے کی جماعت اسلامی کا یہ کمال تھا کہ وہ ایک روایتی مولوی کو بھی انقلابی سانچے میں ڈھال دیتی تھی۔ میں نے مولانا کو بارہا دیکھا، ملا، ساتھ جلوسوںمیں شرکت کی ،ریلیوں میں تقریریں کیں لیکن ان میں نہ تو جبّہ و دستار کی عظمت کا فخر تھا اور نہ ہی مذہبی علم میں اسنادِ فضیلت کا غرور۔ ایک بوریہ نشین کہ جسے میں نے مسجد کی چٹائیوں سے لے کر عام بسوں پر سفر کرنے تک اور ٹوٹی پھوٹی کرسیوں پر بیٹھے چند درجن لوگوں کے سامنے بھی پورے اہتمام سے تقریر کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے اردگرد نہ ہٹو بچو کہتے ہوئے مریدوں کا ہجوم ہوتااور نہ ہی بطلِ حریت جیسے القابات کا شوق ان کے مزاج میں تھا۔اقبال ؒ نے شکوہ میں ایسے ہی لوگوں کے اٹھ جانے کانوحہ لکھا ہے منزل دہر سے اونٹوں کے ہدی خوان گئے اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے