مولانا وحید الدین خان22 اپریل 2021 کو96 برس کی عمرمیں انتقال کر گئے ہیں،اناللہ وانا الیہ راجعون۔انھیں کووڈ 19کی تشخیص کے بعد 12 اپریل 2021ء کو دلی کے اپولو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا لیکن وہ اس وبائی مرض کے سامنے زندگی کی جنگ ہارگئے، ان کی دلی کے نظام الدین قبرستان میں کورونا سے موت واقع ہونے کی وجہ سے کورونا ایس او پیز کے تحت تدفین کی گئی ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ان کی وفات پر ٹوئٹر پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ روحانیت کے امور میں اپنی بصیرت افروز معلومات کیلئے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ جبکہ بھارتی صدر رام ناتھ کوونڈ نے ٹویٹر پر اپنے تعزیتی پیغام میں لکھاکہ پدم وبھوشن ملک کا دوسرا بلند ترین شہری اعزاز وصول کرنے والے مولانا وحید الدین نے بھارتی معاشرے میں امن، ہم آہنگی اور اصلاحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ 1988ء کاذکرہے کہ خان صاحب سری نگر کے دورے پرآئے تھے اورٹیگورہال میں وہ نوجوانان کشمیرکے ایک مجمع سے گویا ہوئے راقم السطور بھی اس محفل میں اپنے چنددوستوں کے ساتھ موجود تھا اور میں اس وقت کشمیر یونیورسٹی میں عربک سبجیکٹ کا امتحان دے رہا تھا ۔ خان صاحب گھنٹہ بھر لگاتار نوجوانان کشمیرکو پرامن رہنے کا سبق پڑھاتے رہے اور باطل کے خلاف جرات دکھانے کے واقعات کے بجائے عہد نبویﷺ میں مسجد نبوی میں پیش آیا ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دیہاتی نے مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا، لوگ اس کی طرف مارنے کو بڑھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے اس جگہ پر پانی کا ایک ڈول بھرا ہوا بہا دو، کیونکہ تم آسانی کرنیوالے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگی کرنیوالے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ اس واقعہ کے تذکرہ سے دراصل نوجوانان کشمیرکویہ تلبیس پڑھا رہے تھے کہ چاہئے تمہارے ساتھ کچھ بھی ہوجائے تم نے صبر سے کام لینا ہے ۔ہم نے خان صاحب کے اس دورے اوراس درس کو کشمیر میں ہوئے 1987 ء کے الیکشن کے پس منظر میں دیکھا اور درست بھی یہی تھا۔ 1987ء میں ہند مخالف کشمیری لیڈر شپ (جنہوںنے پھر 1992 ء میں حریت کانفرنس تشکیل دی ) مسلم متحدہ محاذ یامسلم یونائیڈ فرنٹ کے پلیٹ فارم پرمجتمع ہوئی تھی اورالیکشن میں حصہ لیا تھا ۔ مسلم متحدہ محاذ کایہ اتحاد اسلامیان کشمیرکی ہندومخالف ایک مشترکہ اورزوردارآوازبن کرسامنے آیا اور الیکشن میں یہ اتحاد واضح طورپرجیت رہا تھا لیکن بھارت نے کھلم کھلا مداخلت کرکے انتخابی نتیجے کو بھارت نواز نیشنل کانفرنس کے حق میں موڑ کراس کی کامیابی کا جھوٹا اعلان کردیا۔ انتخابات میں بھارت کی طرف سے کی گئی اس دھاندلی نے کشمیرکے مسلمانوں کو چکرا کر رکھ دیاکہ یہ کیسے ہواہم نے تومسلم متحدہ محاذ کے بکس ووٹوں سے بھردیئے تھے مگرجیت کااعلان ہند نواز تنظیم کاکیاگیا۔ کشمیرکے نوجوان طبقے کو بالخصوص اس سے بڑادھچکہ لگاکیونکہ وہ مسلم متحدہ محاذ کے پرچم بردارتھے بھارت کے اس غاصبانہ رویے سے نوجوانان کشمیر کے دلوں میں بھارت کے تئیں پائے جانیوالی نفرت میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا تھا اوریہ اسی نفرت کاشاخسانہ تھاکہ جب 1988ء کو کشمیر میں نظریہ الحاق پاکستان کے بانی ہلال احمد میر المعروف ناصرالاسلام شہید نے حزب المجاہدین اور خود مختار نظریے کے بانی امان اللہ خان مرحوم نے لبریشن فرنٹ کے ناموں سے مسلح جدوجہدکی بنیاد رکھی تو نوجوانان کشمیر جوق درجوق اس جدوجہد میں شامل ہوئے ۔ انہی ایام کی بات ہے کہ میرے ایک برادر نے اپنے ایک دوست کے ہمراہ دہلی میں خان صاحب کی قیام گاہ پر ملاقات کی۔ توانہوں نے خان صاحب کے سامنے کشمیرکا تذکرہ چھیڑاجس پرخان صاحب برجستہ فرمایا کہ کشمیرکا تو بھارت کے ساتھ نکاح ہوچکاہے ۔انہوںنے ان سے کہااگرآپ کے بقول کشمیرکا بھارت کے ساتھ نکاح ہوچکا ہے تویہ نکاح باطل ہے اسے فسخ کرنے کا ہمیں بھرپور حق حاصل ہے خان صاحب نے جب ان سے پوچھاکہ یہ نکاح باطل کیسے ہے تووہ بولے کیونکہ اگر یہ نکاح ہوچکا ہے تو یہ ہم کشمیریوں سے پوچھے بغیراورہماری اجازت ، آمادگی، مرضی اورہماری منشاء کے خلاف ہوا ہے جس کا خان صاحب کوئی جواب نہ دے سکے۔ عصرحاضرمیں بھارت کے دومسلمان داعین میں سے ایک داعی اسلام جناب ڈاکٹرذاکرنائیک کو مودی کے دورحکومت میں ملک بدر ہونا پڑا جبکہ دوسرے داعی خان صاحب کومودی کے ہی بھارت میں اورمودی عہد میں ہی سول اعزازسے نوازاگیا اور26 جنوری 2021ء کوانہیں یہ ایوارڈ دیاگیا۔ پدم و بھوشن ایوارڈ، بھارت رتن کے بعد دوسرا بڑا شہری اعزاز ہے ۔ اس خطے میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن مودی کی جانب سے خان صاحب کو اس لئے یہ ایوارڈ دیا گیا کہ ان کی تحاریرمیں مسلمانوں کونصیحت کی گئی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ظلم وجبر کو سہتے رہیں اوراس پر صبر کریں ، ہرگز اور قطعاً واپس ہاتھ نہ اٹھائیں اور نہ ہی اپنے دفاع کا سوچیں۔ دونوں داعین کے معیار حق کوجانچنے کیلئے ایک کی ملک بدری اور دوسرے کو اعزاز سے نوازے جاناکافی ہے ۔ ضخان صاحب تقریباً دو سو کتب کے مصنف ہیں جو اردو ،عربی، اورانگریزی زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی تحریروں میں بالعموم مسلمان کوسبق دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموںکی ایذا وتکلیف پر یک طرفہ طور پر صبرکریں اور انہیں سہنے کامادہ پیداکریں ۔ یعنی غیرمسلموں کے ہاتھوںایک گال پرتھپڑکھانے کے بعد دوسراتھپڑ کھانے کے لئے اپنا دوسرا گال پیش کریں ۔ انہوں نے1976ء میں ماہنامہ الرسالہ اجرا کیا جسے جدیدعلوم کے حاملین میں مقبولیت حاصل ہوئی ۔ خان صاحب کی پیدائش ریاست اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں 1925ء میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی زیادہ تر تعلیم ایک روایتی مدرسے سے حاصل کی۔ وہ تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی انڈیا میں شامل ہو گئے اور 10 سال تک اس کے رکن رہے۔ وہ جماعت کے مرکزی مجلس شوری کے بھی رکن رہے لیکن نظریاتی اختلافات کی وجہ سے 1963ء میں جماعت سے دور ہو گئے اور’’ تعبیر کی غلطی ‘‘کے نام سے اپنی تنقید شائع کی۔خان صاحب نے 2004ء میں وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حمایت کے لیے بنائی گئی واجپائی حمایت کمیٹی کے ایک اہم رکن تھے۔یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ وہ بی جے پی سے کیسے امن کے لئے پرامید تھے کہ جس کے مسلم دشمن نظریا ت مبرہن تھے اورجس کاعملی کردار مسلمان کشی پردوٹوک تھا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔