ایک طرف تو حضرت مولانا کا لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہے اور جس نے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی تمام تر دھمکیوں ، تمام تر مذاکرات کی دعوتوں اور رکاوٹوں کے باوجود آگے ہی کی جانب رواں دواں ہے۔ تو دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کی صحت کے بارے میں جوتشویشناک خبریں آرہی ہیں،وہ بھی حکومت کے لئے کم پریشانی کا باعث نہیں۔مسائل تو معاشی حوالے سے بھی ہیں اور خارجہ،خاص طور پر کشمیر کے حوالے سے ۔ لیکن اس وقت وزیر اعظم عمران خان کی حکومت، خاص طور پر میاں نواز شریف کی صحت کے حوالے سے سخت دباؤ میں آچکی ہے۔میاں نوازشریف کی بیگم کلثوم نواز جب لندن کے ایک اسپتال میں داخل تھیں تو اس وقت بھی ان کی صحت کے حوالے سے جو تشویشناک خبریں آرہی تھیں ،ایک حد تک تحریک انصاف کی قیاد ت نے اس کے بارے میںبڑے سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔اور اس حد تک آگے چلے گئے تھے کہ ان کی بیماری کو ڈرامہ تک قرار دے دیا گیا ۔خود میاں نواز شریف شدید بیمار رہے لندن میں،اس کے بارے میں بھی تحریک انصاف کی قیادت کارویہ انتہائی نامناسب تھا۔اور اب میاں نواز شریف کے بار ے میں تواتر سے پچھلے ایک ہفتے سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ ان کی حالت اس حد تک تشویشناک ہوگئی ہے کہ اب حکومت بھی اس بات پر مجبور ہوگئی ہے کہ لاہور ایئرپورٹ پر جہاز کھڑا کردے تاکہ اگر میاں صاحب کا علاج یہاں ممکن نہ ہوسکے تو وہ ایئرپورٹ روانہ ہوسکیں۔سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کے بانیان جیل میں ہوں یا حکومت میںکوئی نئی بات نہیں۔اور خاص طور پر اگر میں بہت دور نہ جاؤں تو ضیا ء الحق کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اس وقت کی سربراہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو بھی جب نظر بندی میں تھیں ، اور پھر جب وہ اس دوران شدید بیمار پڑیںتو یقینااس میں بین الاقوامی دباؤ بھی تھا، کہ جنرل ضیاء الحق جیسے فوجی ڈکٹیٹر کو یہ انتظام کرنا پڑا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹواور بیگم نصرت بھٹو کو علاج کے لئے ملک سے باہر بھجوائیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی یہی صورتحال تھی ۔اور اس وقت خاص طور پر آصف علی زرداری کے بار ے میں کہا گیا تھا کہ وہ شدید بیمار ہیں۔اس حد تک کہ جب اکتوبر 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی سے واپسی ہورہی تھی تو یہ کہا گیا کہ اُن کے شوہر آصف علی زرداری کے لئے وہ واپس آئیں۔جہاں تک میاں نواز شریف کی بیماری کا تعلق ہے اور ایک حد تک آصف علی زرداری کی طبیعت اور صحت جو اسکرینوں پربھی نظرآتی ہے،دونوں کے بارے میں کہا جاسکتاہے کہ اس وقت شدید سیاسی دباؤ کے سبب بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مایوسی کے سبب وہ عملی طور پر ایک حد تک عملی سیاست سے الگ تھلگ ہی نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان صاحب مئی 2013ئکے الیکشن سے پہلے جب ایک حادثے اور سانحے کا شکار ہوئے تھے اور الیکشن کے دن ، کہا یہ جاتا ہے کہ،وہ اپنے ہوش و حواس تک میں نہ تھے تو بہر حال اُس وقت یہ بات رکھنا چاہئے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے نہ صرف یہ کہ اپنی انتخابی مہم ملتوی کردی تھی بلکہ خود ان کی عیادت کے لئے شوکت خانم اسپتال بھی گئے تھے۔ یوں وزیر اعظم عمران خان کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ وہ اپنے کَٹّر سیاسی مخالفین کے خلاف چاہے وہ سابق صدر آصف علی زرداری ہوں یا میاں نواز شریف ،اس حد تک نہ جائیں کہ ،خدا نہ کرے ،خدا نہ کرے ،اگر وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تو پھریہ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ایک ایساشدید صدمہ اور جھٹکا ہوگا جس سے اس کامستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جتنی بھی طبی ،میڈیکل رپورٹس آرہی ہیںاور جو خود ان کی فیملی کے لوگ جس تشویش کا اظہار کررہے ہیں،اُس سے ایسا لگتا ہے کہ میاں نواز شریف واقعی شدید بیمار ہیں اور سیاسی زبان کے مطابق،اس میں کوئی ’’ڈرامے ‘‘ کا عنصر نہیں ہے۔ اسی لئے ان کی پارٹی کا اصرار ہے کہ بیگم کلثوم نواز کے لئے بھی اس ہی رد عمل کا اظہار کیا جارہا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان جس طرح کہا کرتے تھے کہ سیاستدانوں کا وہ سیاسی میدان میں ہی مقابلہ کریںگے ۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں میں گھِر گئے ہیں اوربد قسمتی سے اس میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ماضی میں میاں نواز شریف کے وزیر ، مشیر ہوتے تھے ،یا سابق صدر آصف علی زرداری کے اِردگرد ہوتے تھے ۔ اب ان میں سے بیشتر مشیروں،وزیروں ،معاونین کی فوج ظفر موج عمران خان کے ساتھ بیٹھی ہے۔اور یہی زیادہ جو ش وخروش سے ’’شاہ‘‘ سے زیادہ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے میاں نواز شریف کی اس تشویشناک صورتحال میں بھی تواتر سے ایسے بیانات بلکہ کچوکے یا زخم لگارہے ہیںجس سے انہیں گُریز کرنا چاہئے۔ چلتے چلتے،حضرت مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ کے بارے میں بھی گفتگو کرلی جائے ۔اس وقت بھی جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں ،تو تحریک انصاف کی حکومت اُن کے مارچ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔پہلے تو یہ کہا گیا کہ ہم اسلام آباد آنے والے تمام راستے بند کردیں گے۔بھاری تعدادمیں وہاں مسلح دستے بھجوادئیے گئے،کنٹینر لگادئیے گئے۔لیکن جب اسلام آباد ہائی کورٹ کایہ فیصلہ آیا کہ جمعیت علمائے اسلام کا یہ مارچ اُن کا جمہوری حق ہے تو حکومت نے ایسے اقدامات کرنے شروع کردئیے ہیں اب بیان کی حد تک تو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جمعیت علمائے اسلام کے مارچ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے ۔ بہر حال حضرت مولانا فضل الرحمٰن کو اس بات کی داد دینی پڑے گی کہ انہوںنے اس لانگ مارچ کے سفر کا آغازکا جب اعلان سے کیا تھا ،تو وہ تنہا ہی تھے۔اور پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ عملی طور پر اس میں شرکت سے گُریز کررہے تھے ۔لیکن جیسے جیسے 27اکتوبر کی تاریخ قریب آرہی ہے،تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی آواز بھی وزیر اعظم عمران خان کے مستعفی ہونے کے بارے میں اور اس لانگ مارچ میں ساتھ دینے کے بارے میںان کی آواز اتنی ہی بلند ہوتی جارہی ہے۔اب جبکہ 27اکتوبر قریب آن پہنچی ہے تومولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ 27اکتوبر کو وہ صرف احتجاجی ریلی نکالیں گے کیونکہ اس دن یوم یکجہتیِ کشمیر منایا جارہا ہے۔لیکن اس کے چار دن بعد یعنی 31اکتوبر کو وہ خود سکھر سے اپنے مارچ کا آغاز کررہے ہیں ۔اور اس کے ساتھ ہی جہاں جہاں ان کے مضبوط گڑھ ہیں،خاص طو ر پر ڈیرہ اسماعیل خان ،پشاور،پنڈی اور بہر حال بلوچستان کا شہر کوئٹہ ،وہاں سے بھی ریلیاں نکالے جانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔مولانا تو اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے کہاکہ اگر ہمیں بسوں ،ٹرینوں ،گاڑیوں میں نہیں آنے دیا جائے گا تو ہم گھوڑوں ،اونٹوں پر سوار ہوکر اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔تواتر سے گئے گئے بیانات اور اس کے ساتھ پی پی پی اور ن لیگ حتیٰ کہ اے این پی بھی ہمنوا ہیں،کہا جاسکتا ہے کہ اب اسلام آباد کی حکومت کے ہاتھ پیر پھولنے شروع ہوگئے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان کہ وہ مستعفی نہیں ہونگے،اور فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے،خود بڑا معنی خیز ہے۔جب کوئی منتخب وزیر اعظم یہ دعویٰ کرنے لگے کہ اُس کے پیچھے فوج کھڑی ہے تواس سے عام زبان میں یہ کہا جائے گا کہ دال میں یقیناکچھ کالاضرور ہے۔(ختم شد)