میڈیا ، یعنی پرنٹ میں چار اور اسکرین میں دو دہائی سے آواز لگانے کے سبب،وطن ِ عزیز کے کم و بیش سارے ہی قومی سیاسی قائدین سے چاہے وہ اپنے اپنے وقت میں حکمراں ہو ں یا حزب اختلاف میں ، رو بہ رو یا دو بہ دو بھی کہہ لیں ،تواتر سے معروف اصطلاح میں ،’’آف دی ریکارڈ‘‘اور ’’آن دی ریکارڈ‘‘برسہا برس ملاقاتیں رہیں۔مرحومین میں خان عبدالولی خان،نوابزادہ نصراللہ خاں، میر غوث بخش بزنجو، بینظیر بھٹو،قاضی حسین احمد کی یادوں کا ذکر لے بیٹھا تو اصل موضوع یعنی مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ سے دور ہوجاؤںگا۔آگے بڑھنے سے پہلے ہی یہ صدق ِ دل سے اعتراف کرتا چلوں کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں وزیر اعظم عمران خان ہوں ،یا مردِ حُر آصف زرداری، یا پھر اسیر ِ زنداں نواز شریف ہوں،یا ہمہ وقت غصیلے اسفندیا ر ولی،ہمارے جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن ،وہ واحد سیاسی کم اور مذہبی رہنما زیادہ ہیں،جو بد سے بد دشمن کو دوست بنا کر ایک میز پر بٹھانے ،طرم خانی میڈیا سرخیلوں سے چہلیں کرنے اور ہاں،چاہے مدارس کے طلبا کی اکثریت ہی سہی،اس بات کی پوری طاقت رکھتے ہیں کہ ملین نہیں ،تو لاکھ دو لاکھ سروں سے کفن باندھے اپنے حامیوں کو سارے ملک سے لا کر حکومت کو ضرور دہلا سکتے ہیں۔گرانے کی بات نہیں کرسکتاکہ وطن عزیز کی تاریخ میں قوتوں کو بٹھانے اور گرانے میں سیاسی جماعتوں کی اسٹریٹ پاور اور قیادت کے علاوہ بھی بہت سے عوامل اور محرکات ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا ، سارا دوش دو "A"پر دیا جاتا تھا۔ یعنی امریکہ اور آرمی۔کتنی ہی بڑی عوامی لہر ہو ۔سیاسی و صحافتی پنڈت اس میں سے ان دو کامرکزی کردار ٹھہراتے تھے۔عموماً وطن عزیز میں دو طرح کی تحریکیں چلی ہیں۔ایک فوجی ڈکٹیٹروںکے خلاف عوامی تحریکیں ،دوسری سویلین حکمرانوں کے خلاف مذہبی تحریکیں۔یہاں میں ایک دو شہروں اور صوبوں میں چلنے والی مزاحمتی تحریکوں کا ذکر نہیں کرونگا کہ یہ ایک الگ تفصیلی موضوع ہے۔اور اس کا، خاص طور پر بلوچستان کا ،ذکر کرنا چاہئے۔ ۔ ۔ میں جن قومی سطح کی تحریکوں کو موضوع بنانا چاہتا ہوں ،اور جنہوں نے حکمرانوںکو ذلت و رسوائی سے گھر بھیجا۔ ۔ ۔ یا پھر ان بپھری ہوئی تحریکوں نے حکمرانوں کو اتنا ہلایا بلکہ دہلایا کہ پھر فوج ہی نے آکر انہیں سہارا دیا۔اس حوالے سے قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑی اور مضبوط مذہبی تحریک ،فروری سن 1953ء میں قادیانیوں کے خلاف چلی۔ جس میں اس وقت کی جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔سارا پنجاب خاص طور پر لاہور اور کراچی آتش فشاں بنا ہوا تھا۔حال ہی میں سابق صدر مرحوم اسکندر مرزا کی یادداشتوں میں اس تحریک کو کچلنے کا تفصیلی احوال بڑے دلچسپ پیرائے میں لکھا گیا ہے۔مجھے علم ہے کہ میں مولانا فضل الرحمٰن کے 27اکتوبر مارچ کو ایک بار پھر پیچھے چھوڑ آیا۔مگر یوں بھی ،ابھی مولانا کے مارچ میں دو ہفتے رہتے ہیں۔اور کئی خوبصورت یا خطرناک موڑ آسکتے ہیں۔پھر یہ بھی سوچا کہ اس بہانے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک ،مشرقی پاکستان کی آزادی کیلئے سن 1970ء میں شیخ مجیب الرحمٰن کی چھ نکاتی تحریک اورپھر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی نظام مصطفی کی کامیاب تحریک اور پھر جنرل ضیاء الحق کے خلاف اگست 1983ء میں ایم آرڈی کی ناکام موومنٹ۔ ۔ ۔ اور ہاں ،کالے کوٹوں کی ’’مشرف ہٹاؤ‘‘ مہم ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ حال ہی کی تاریخ ہے۔ ۔ ۔ ہمارے خان صاحب کی مشہور زمانہ 2014ء کے دھرنے کو بھی یاد کرلیا جائے۔آج مولانا کے مارچ میں تحریک انصاف کی قیادت کو صرف ’’تھُو تھُو ‘‘نظر آرہا ہے۔مگر جب وہ اسلام آباد میں اسی طرح دھرنے کی تحریک چلا رہے تھے تو محاورے کی زبان میں کیا وہ صرف ’’ہپ ہپ‘‘ تھا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب کے دھرنے کے دوران بھی سارے ملک کی نگا ہیں،مشہور ِ زمانہ ’’امپائر‘‘ پر تھیں۔اور اس کا ذکر بھی وہ خود بیچ دھرنے ،ببانگ دہل کیا کرتے تھے۔مولانا کے مارچ کا میدان ابھی سجا نہیں ہے۔مگر ہمارے صحافتی سرخیلوں کی ساری توجہ اس پر ہے کہ ’’امپائر‘‘ کی انگلی اٹھ چکی ہے ،یا اٹھے گی؟ یہاں تک پہنچا ہوں تو پھر اس کتاب کی طرف آتا ہوں جس پر ہمارے چیختے چلاتے میڈیا نے زیادہ توجہ نہیں دی ۔عوامی تحریکوںکو ، چاہے ان کے مقاصد سے آپ کتنا ہی اختلاف کریں، ہمارے حکمراں انہیں کچلنے کے لئے کس حد تک چلے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ذرا اس کا اقتباس اسکندر مرزا کی یادداشتوں میں دیکھیں۔ ۔ ۔ : ’’مولیوں کی تحریک : دفاع اور خارجہ پالیسی کے سلسلے میں تمام معاملات ٹھیک طریقے سے چل رہے تھے لیکن ملکی صورت ِ حال بد سے بد تر ہوتی جارہی تھی۔مُلاّؤں نے ملک کی قیادت سنبھالنے کے لئے اپنی جد و جہد تیز کردی تھی اور کچھ ممتاز سیاستد ان بھی اپنے مقاصد کے لئے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ان ملاؤں نے مجلس ِ عمل کے نام سے ایک جماعت قائم کر کے اپنی توپوں کا رخ قادیانیوں اور احمدی فرقے کی طرف کردیا۔اس فرقے سے تعلق رکھنے والے سر ظفر اللہ خان خاص طور پر ان کے حملوں کی زد میں تھے ۔ملُّا ان لوگوں کو مسلمان ماننے کے لئے تیار نہیں تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ ظفر اللہ خان کو برطرف کیا جائے۔ ۔ ۔ ’’مارشل لاء : میں ملٹری انٹیلی جنس کے دفتر گیا اور ایک خصوصی ٹیلی فون کے ذریعے لاہور کے آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل اعظم خان سے رابطہ قائم کیا ۔وہ ٹیلی فون پر آئے تو میں نے کہا۔ ’اعظم ایسا لگتا ہے کہ شہری انتظامیہ کا لاہور سے کنٹرول اٹھ گیا ہے۔تمہیں فوری طور پر کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا ہے ،مارشل لاء کا اعلان کرو ۔۔کسی مزید احکامات کاانتظار کرو ۔کاروائی کرو اور تمام چیزیں ختم کردو۔‘ اعظم خان نے جواب دیا۔’سر، بڑی مار دھاڑ کا اندیشہ ہے۔‘ میں نے کہا۔’مجھے اس کا اندازہ ہے ۔ اس کے بغیر تم اپنے فرائض انجام نہ دے سکو گے۔‘ میں وزیر اعظم ہاؤس واپس آیا اور وزیر اعظم کو بتایا کہ میں نے مارشل لاء کے احکامات دے دئیے ہیںاور لاہور ڈویژن کو مزید کمک بھیجنے کے بھی احکامات دیے ہیں۔ میں نے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل موسیٰ کو ہدایت کی تھی کہ وہ جنرل ہیڈ کوارٹر ز سے کہیں کہ اعظم خان کو کمک پہنچانے کے لئے سیالکوٹ ڈویژن کولاہور ڈویژ ن بھیج دیں۔ ’’میجر جنرل اعظم خان نے بڑی ہوشیاری سے کام کیا ،صرف چند گھنٹوں میں کنٹرول بحال ہوگیا ۔بڑے بڑے مُلّا ؤں کو حراست میں لے لیا گیا ۔بہر طور اس کے بعد بھی گڑ بڑ ہوئی ، اور اعظم خان نے مجھے ٹیلی گرام بھیجنے شروع کئے۔ان کی ایک نقل وزیر اعظم کو بھی بھیجی جاتی تھی۔ان میں اطلاع دی جاتی تھی ’آج اتنی تعداد میں مُلّاؤں کو گولی مار دی گئی ۔‘ ’’اس پر وزیر اعظم کا پیمانہ ٔ صبر لبریز ہوگیا ۔انہوں نے مجھے طلب کیا اور گلو گیر لہجے میںکہا۔’’کرنل ۔ ۔ ۔ میں نے سو نہیں سکتا ‘میں نے کہا،’وہ کیوں جناب ،‘’فوج ان اللہ والے لوگوںکاقتل ِ عام کررہی ہے میں سو نہیں سکتا۔‘میں نے کہا۔’بہت بہتر میں اس سلسلے میں کچھ بندوبست کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘ ’’میں نے اعظم خان کو فون کیا۔’بے وقوف تمہیں اگر ان مُلّاؤں کو مارنا ہی ہے تو اس کی تشہیر کیوں کرتے ہو۔‘انہوںنے کہا۔’سر پھر میں انہیں کیا کہہ دیا کروں؟‘۔ میں نے جواب دیا۔’کہو کہ اتنے شر پسند مارے گئے ۔‘اس کے بعد انہوںنے (اعظم خان نے)یہ فارمولا استعمال کیا جس سے سوائے مولویوں کے ہر شخص خوش تھا اور اس طرح ہم کاروبار مملکت چلاتے رہے۔‘‘