مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا اہم ترین رائونڈ اب چل رہا ہے۔ اسی پر ان کی کامیابی، ناکامی کا دارومدار ہے۔ حکومت کی کامیابی اور ناکامی بھی اسی سے منسلک ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مولانا کی کامیابی شائد حکومت کی ناکامی ہوگی اور حکومت کی کامیابی مولانا کے لئے پریشان کن نتیجہ لا سکتی ہے۔ ایک تیسری وِن وِن صورتحال(win win Situation)بھی ہوسکتی ہے، جس میں دونوں فریقوںکا بھرم رہ جائے اور کسی کے حصے میں شکست کا داغ نہ آئے۔ افسوس کہ پاکستانی سیاست میں ایسی نوبت کم ہی آتی ہے۔ ہرفریق دوسرے کو مکمل ناک آئوٹ کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ مولانا نے اپنی سیاسی جنگ کے پہلے دونوں رائونڈز اچھے طریقے سے لڑے ہیں، ان کے سکور کئے گئے پوائنٹ مخالف سے کم ہرگز نہیں، ایک آدھ اوپر ہی ہوگا۔ دو تین ماہ قبل جب انہوں نے اپنے مارچ کا اعلان کیا تھا تو ان کے پرجوش حامیوں کے سوا کم ہی لوگوں کو امید ہوگی کہ وہ اسلام آباد میں اتنے لوگوں کے ساتھ پہنچ جائیں گے ۔ حکومتی سطح پر شائد زیادہ تر لوگ یہی سوچ رہے تھے کہ مولانا کو کسی نہ کسی طرح روک لیا جائے گا ۔ اس مقصد کے لئے مگر انہوں نے ہاتھ پیر ہلانے بلکہ اپنے ذہنوں کو بھی معمولی سی زحمت دینے سے گریز کیا۔ کسی بھی منصوبہ بندی کو ناکام بنایا جا سکتا ہے، مگر اس کے لئے جوابی طور پر زیادہ سمارٹ، زیادہ اچھا کھیلنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ایسا نہ کر پائی اور نہ ہی عمران خان نے جوابی طور پر ایسے کارڈز کھیلے جو مولانا کو سیاسی طور پر تنہا کر سکیں یا کم از کم ان کے اتحادیوں کی تعداد میں کمی کریں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، محموداچکزئی کی پختون خواہ میپ، حاصل بزنجو کے بلوچ قوم پرست ،مذہبی جماعتیں، دینی مدارس، دیوبندی مذہبی دھڑے،کوما میں پڑی ایم ایم اے کے چھوٹے دھڑے جیسے جے یوپی وغیرہ… ان میں سے کسی کو مولانا فضل الرحمن سے الگ کرنے کی معمولی سی کوشش کی گئی؟ ہرگز نہیں۔ وزیراعظم عمران خان لگتا ہے اس پورے معاملے سے لاتعلق رہے۔ ممکن ہے وہ یہ سوچتے ہوں کہ یہ میری نہیں ، کسی اور کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ غیر سیاسی اور ناپختہ سوچ کا غماز ہے۔ ایسا بہت کچھ کیا جا سکتا تھا جو مولانا کے اتحادیوں کو اگر الگ نہیں تو کسی حد تک ہچکچاہٹ کا شکار کر سکتا۔پرویز خٹک جب کے پی کے وزیراعلیٰ تھے تو وہ اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ براہ راست رابطے رکھتے اور ان کے جوڑتوڑ کی وجہ سے ہی اپوزیشن صوبائی حکومت کے خلاف جارحانہ پالیسیاں نہیں بنا سکی تھی۔ اس مارچ اور دھرنے میں سب سے زیادہ حصہ خیبر پختون خوا کے سیاسی کارکنوں کا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کے پی اور خاص کر جنوبی اضلاع سے لوگ اکٹھے کئے۔ کے پی ہی سے اے این پی کے کارکنوں کی معقول تعداد شریک ہوئی ۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے کسی ایک فیکٹر کو بھی نیوٹرلائز کرنے کی کوشش نہیں کی۔ عمران خان نے کے پی کی پچھلی حکومت کے دنوں میں ایک اعلان کیا تھا، جس نے مذہبی حلقوں خاص کر دیوبندی مدارس کے طلبہ اور فارغ التحصیل فضلا میں اچھا خاصا ڈینٹ ڈال دیا تھا۔ عمران خان نے مساجد کے لئے تنخواہ دار مولوی صاحبان مقرر کرنے کی بات کی تھی۔ اگر اس پر عمل کیا جاتا، دو چار ہزار ملازمتیں ہی دے دی جاتیں تو آج شائد مولانا فضل الرحمن کو اپنے روایتی حلقہ اثر کو متحرک کرنے میں اچھی خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔ اب تو عمران خان وزیراعظم ہیں، ان کے پاس زیادہ وسائل ، زیادہ مواقع ہیں بلکہ مذہبی حلقوں کو مین سٹریم میں لانے کے لئے تو نہایت آسانی سے فارن فنڈنگ بھی حاصل ہوجاتی۔اسی بہانے مدارس کے حلقوں کے لئے باعزت ملازمت کا انتظام ہوجاتا۔ مولانا فضل الرحمن کا تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ تب کتنا کمزور رہ جاتا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد عمران خان نے اس خلا کا اندازہ نہیں لگایا۔ مولانا مرحوم کے صاحبزادوں اور خاص کر انکے حلقہ اثر کے علما، طلبہ کو اپنے ساتھ جوڑنے کی سعی کرنی چاہیے تھی۔ خیر یہ تو حکومتی کیمپ کی ناکامیاں ہیں۔ ایک اچھا کام بہرحال انہوں نے کیا، مارچ کی اجازت دی۔ اگر اسی پر قائم رہیں، اپنے اعصاب قابو میں رکھیں تو پچھلی غلطیوں کی تلافی ہوسکتی ہے۔ حکومت کو کسی بھی صورت میں تشدد یا آپریشن کی طرف نہیں جانا چاہیے ۔ صبر، سکون سے بیٹھے رہیں،سیاسی ٹمپریچر نہ بڑھائیںاور اپنے معتدل لوگوں کو فرنٹ پر رکھیں۔ مولانا فضل الرحمن نے بڑی عمدگی سے اپنے کارڈز کھیلے،اتحادیوں کو انگیج رکھا، کسی نہ کسی طریقے سے ہر ایک کو ساتھ لے آئے۔ لاہور میں مسلم لیگ ن کا رویہ افسوسناک رہا، شہباز شریف نے بھی دھوکہ دیا، پیپلزپارٹی نے بھی فاصلہ رکھا۔ مولانا اس پر مضطرب اور شاکی تھے۔ اپنی تقریر میں مگر صرف یہ کہا کہ ہمیں ان کی مجبوریوں کا احساس ہے اور وہ گھر بیٹھے ہی ہمارے مارچ میں شامل ہیں۔ اس معتدل رویے کی وجہ ہی سے اسلام آباد جلسہ میں شہباز شریف، بلاول بھٹو اور دیگر اہم رہنمائوں کی شمولیت ممکن ہو پائی۔ مولانا کو اس کا کریڈٹ دینا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا ناقد ہونے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ہماری دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو مولانا کی جماعت اور کارکنوں سے تنظیمی سبق سیکھنے چاہئیں۔ جس احتیاط ، اعلیٰ تنظیمی صلاحیت اور پرامن طریقے سے مارچ نے اتنا طویل سفر طے کیا، وہ قابل تحسین ہے۔ ان کے لاہور جلسہ میں جس طرح میٹرو بس چلتی رہنے دی گئی، ایمبولینس کو جس خوش دلی سے راستہ دیا گیا، اس کی ویڈیوز نے ہر ایک کو متاثر کیا۔ دینی جماعتوں کے کارکنوں سے ایسے تحمل، ٹھیرائو اور میچورٹی کی توقع کم ہی کی جاتی ہے ۔ہم نے تو بیشتر مذہبی احتجاج خوفناک اورپرتشدد دیکھے۔ مولانا کے مارچ نے روایتی مذہبی حلقوں اور رائٹ ونگ کے حوالے سے ایک سافٹ ، نیا تاثر قائم کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے مارچ بھی پرامن ہوتے ہیں،مگرمولانا کا مارچ زیادہ طویل اور بڑا تھا۔ کئی دنوں پر محیط سفر میں تمام وقت اعصاب اور مزاج پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ اہم ترین سوال اب یہ ہے کہ مولانا آگے کیا کریں گے؟ اس سوال کا جواب مولانا نے ابھی تک کسی کو نہیں دیا۔ یہ کارڈ اپنے سینے کے ساتھ لگائے رکھا۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ سطح پر شکوک بھی پیدا ہوئے، کسی حد تک موجود بھی ہیں ۔اب وہ وقت آ چکا ہے۔ مولانا نے حکومت کو دو دنوں کی مہلت دی، وہ آج ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد وہ کیا کریں گے اور کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ دو آپشنز ہیں۔ وہ اپنی مہلت میں ایک آدھ دن کا اضافہ کر سکتے ہیں ۔ ایسی صورت میں دبائو بڑھانے کے لئے مقتدر شخصیات کوٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کی جا سکتی ہے۔دیکھنا یہ ہوگا کہ ایسا کرتے ہوئے کہاں تک جاتے ہیں؟دوسری اور زیادہ خطرناک آپشن ڈی چوک جانا ہے۔اس کا اشارہ وہ اپنی تقریر میں دے چکے ہیں۔مولانا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسا کرنا معاہدہ توڑنے کے مترادف ہے۔ معاہدہ کے تحت وہ پشاور موڑ تک محدود رہنے کے پابند ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں معاہدے توڑنا بری بات نہیں سمجھی جاتی، ایسا کرنے والے شرمندہ ہونے کے بجائے اس پر فخر کرتے ہیں۔یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر مولانا نے ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تو ان کے کارکن یہ سوال نہیں پوچھیں گے کہ ہم نے تو لکھ کر دیا تھا پشاور موڑ جلسہ کریں گے، آگے نہیں جائیں گے تومعاہدہ توڑ دینا غلط ہوگا۔اس کے بجائے سب لوگ نعرے مارتے ساتھ چل پڑیں گے۔ یہاں پر حکومت کا امتحان شروع ہوگا۔ یقینی طور پر اس مارچ کو روکنے کی کوشش ہوگی۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے ہیں کہ ریڈ زون میں کسی کو نہ آنے دیا جائے ، ویسے بھی ڈی چوک جانے سے پورا شہر مفلوج ہوجائے گا، شہری تنگ ہوں گے۔ حکومت نے اگر روکنے کی کوشش کی تو خون خرابا ہوگا۔ ہزاروں لوگ مولانا کے ساتھ ہیں، ان پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کا استعمال کیا گیا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ فرض کریں حکومت کچھ نہیں کرتی، انہیںڈی چوک آنے دیتی ہے ۔ تب بھی مولانا استعفے کے بغیر تو نہیں مانیں گے۔جیسے مزید وقت گزرے گا،سردی کی شدت بڑھے گی، مزید رہنا مشکل ہوتاجائے گا، ان کے اعصاب چٹخیں گے، پھر وہ مزید آگے بڑھ سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ٹکرائو یقینی ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا توممکنہ طور پر وزیراعظم قوم سے خطاب کر کے تمام صورتحال سامنے رکھیں گے اور پھر آپریشن کی آپشن بروئے کار لائی جائے گی۔ ایک تیسری آپشن یہ ہوسکتی ہے کہ بچ بچائو کی کوئی صورت نکالی جائے۔ دو دنوں کی مہلت میں پس پردہ اسی کیلئے کوششیں ہو رہی ہوں گی۔ کئی حلقے ٹکرائو سے بچانے کے لئے متحرک ہیں۔دوست ممالک کے چینلز بھی بروئے کار لائے جا رہے ہوں گے۔ اب یہ مولانا پر بھی ہے کہ وہ کسے اپنی ’’فیس سیونگ‘‘ قرار دیتے ہیں؟ بہت سے اگر، مگر ا بھی راستے میں پڑے ہیں۔ اس وقت کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ دعا کرنی چاہیے کہ ٹکرائو کی نوبت نہ آئے، خون نہ بہے اور سیاسی کشیدگی میں کمی آئے۔ اس کے لئے مگر دونوں فریقوں کو کوشش کرنا ہوگی، کسی ایک کے لئے پیچھے ہٹنا آسان نہیں۔