امریکی تال پر رقص کرنے والے دنیا بھر کے تجزیہ نگار گزشتہ پندرہ سالوں سے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج کی ناکامی کا ذمہ دار ایک تنظیم کو گردانتے بلکہ اس کی مسلسل گردان کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یوں تو بذات خود یہ کوئی تنظیم، گروہ یا جتھہ نہیں ہے بلکہ افغانستان میں گزشتہ چالیس سالوں سے جاری معرکۂ حق و باطل میں سرفروشوں کا ایک گروہ ہے جو گیارہ نومبر1994ء کو ملا محمد عمر کی قیادت میں اماراتِ اسلامی افغانستان کے قیام کے لیے طالبان کا حصہ بن گیا تھا۔ اسے مغربی دنیا اور اس کے مرعوب سیاست دان دانشور ’’حقانی نیٹ ورک ‘‘کہتے ہیں۔ آج اس حقانی نیٹ ورک کا اہم ترین فرد، ’’انس حقانی‘‘ قطر میں طالبان امریکہ مذاکرات میں طالبان کے نمائندہ وفد میں شامل ہو چکا ہے۔ امریکی استعمار کے برابر میز کی دوسری جانب بیٹھنے والے ان سرفروشوں میں ایک اور ایسے شخص کا اضافہ ہوا ہے جو ان لوگوں کی قید میں تھے۔ کیا کسی کو یقین آ سکتا تھا کہ اکتوبر 2001ء میں جب ہر دوسرے شخص پر جہادی ہونے کا شبہ کیا جاتا تھا اور پرندوں کی طرح پکڑ پکڑ کر لوگوں کو امریکہ کے حوالے کیا جا رہا تھا، تو ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ یہ مجبور و مقہور لوگ، بدنام زمانہ گوانتاناموبے اور بگرام جیسی جیلوں سے چھوٹ کر عزت و تکریم کی اس منزل پر جا کھڑے ہوں گے، جب امریکی ہی نہیں اردگرد کے وہ تمام ممالک بھی جو کل تک ان کے دشمن تھے، ان کے خلاف امریکہ اور اتحادی افواج کی مدد کر رہے تھے جیسے روس، چین، ایران، پاکستان، متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب، سب کے سب ان درویشانِ خدامست اور فقیرانِ منبر و محراب کی میزبانی کا شرف حاصل کریں گے۔ تاریخ نے اس معجزے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور مسلسل کرتی چلی جا رہی ہے۔ کل کے موسٹ وانٹڈ (Most Wanted)آج کے چیف نیگوشیٹرز(Cheif negotiators)ہیں۔ میں ان دونوں انگریزی الفاظ کی جگہ ’’اہم ترین مطلوب افراد‘‘ اور ’’اہم مفاہمت کار‘‘ استعمال کر سکتا تھا لیکن میں ان دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی زبان بولنا چاہتا تھا جنہیں آج بھی یقین نہیں آ رہا کہ ایسا سب کچھ کیسے ہو گیا۔ اللہ کیسے دنوں کو انسانوں کے درمیان بدلتا ہے۔ مشرف کا وہ پاکستان جو تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھ کر طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو امریکہ کے حوالے کرتا ہے، آج وہی پاکستان، بحرین سے گرفتار ہونے والے انس حقانی کو رہا کرواتا ہے اور طالبان عمران خان کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک اہم افغان کمانڈر سے گفتگو ہو رہی تھی تو اس نے دو لوگوں کے حسنِ سلوک اور مہربانیوں کا خصوصی تذکرہ کیا۔ ایک عمران خان کا جس نے ایسے وقت افغان حکومت سے طالبان کے تین قیدیوں کو رہا کروایا، جب امریکی انتظامیہ مذاکرات ختم کرنے کے بعد مکمل طور پر جنگ کے ماحول میں آ گئی تھی، دوسری شخصیت قمر جاوید باجوہ کی ہے جس سے ملاقات کے قصے اب افغانستان میں سنائے جاتے ہیں کہ اس نے کس طرح طالبان کے وفد کی پذیرائی اور آئو بھگت کی۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ ستمبر میں مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر چکا تھا۔ وہ تمام قوتیں جن کی شدید خواہش ہے کہ امریکہ ابھی کچھ دیر افغانستان میں رہے، ان کی خوشی دیدنی تھی۔ یہ قوتیں کون ہیں، بھارت، افغان حکومت اور پاکستان کے سیکولر، لبرل امریکہ نواز دانشور ۔لیکن کمال دیکھئے کہ طالبان نے مذاکرات کے خاتمے کے بعد خطے کے ممالک کے ساتھ ایک بھرپور سفارتی مہم کا آغاز کر دیا جسے جارحانہ سفارت کاری (Aggressive diplomacy)کہتے ہیں۔ 17ستمبر کو طالبان کا وفد ایران گیا اور وہ ایران جو کل تک طالبان حکومت کے مخالف تھا اس نے طالبان کے مؤقف کی تائید کی۔ اس کے بعد روس کا دورہ کیا گیا۔ ان دونوں کامیاب دوروں کے بعد افغان حکومت کی بوکھلاہٹ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ 22ستمبر کو ملا برادر اور ان کے وفد نے چین میں افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ڈین شیجو سے ملاقات کی اور اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ طالبان کا وفد بیجنگ کے بعد شنگھائی بھی گیا۔ ان علاقائی ممالک کے بعد ان کا اہم ترین دورہ 3اکتوبر کو پاکستان کا دورہ تھا۔ ملا فاضل، مولوی محمد نبی عمری، عبدالحق وثیق، مولوی خیراللہ خیر خواہ، مولوی امیر خان متقی، مولوی مطیع الحق خالص،ملا عبدالسلام حنفی، ضیاء الرحمان مدنی، شیخ شہاب الدین دلاور، شیخ سید رسول، نبراس الحق عزیز اور ان بارہ افراد کا سربراہ ملا عبدالغنی برادر۔ افغان طالبان کا ترجمان رسالہ’’الشریعہ‘‘ لکھتا ہے کہ پاکستان میں ملا عبدالغنی برادر کو صدارتی پروٹوکول دیا گیا۔ ’’اللہ رے تیری شان کے قربان جائیے‘‘ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے کھانے پر ملاقات کی۔ یاد یں اس وفد کے ارکان جس محبت سے اپنے ساتھیوں میں بیان کرتے ہیں وہ مورخ وقت آنے پر ہی تحریر کرے گا تو لوگ حیرت میں گم رہ جائیں گے۔ وہ رات بھی عجب تھی جب مذاکرات ختم ہونے کا اعلان ہوا تھا۔ جب طالبان کو اندازہ ہوا تھا کہ امریکہ خاموشی سے بلیک واٹر اپنی جگہ چھائونیوں میں آباد کر رہا ہے۔ انہوں نے جنگ تیز کر دی تھی اور کابل کی جانب پیش قدمی شروع کر دی تھی، رات ایک بجے زلمے خلیل زاد بیچ میں کودا، پیش قدمی رک گئی۔ لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ کابل شہر میں طالبان کی اس قدر طاقت موجود ہے کہ حملہ کر کے بلیک واٹر کا ہیڈ کوارٹر تباہ بھی کر سکتے ہیں اور اس کے سربراہ کو موت کے گھاٹ بھی اتار سکتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے دبائو میں ٹوئیٹ پر اعلان کر دیا کہ مذاکرات ختم ،لیکن ان دو مہینوں میں طالبان کی سفارتی جارحیت اور میدان جنگ کی کامیابیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو راتوں رات افغانستان کا خفیہ سفر کرنے پر مجبور کر دیا۔ افغان عوام کا الیکشنوں کا تقریباً بائیکاٹ، افغان حکومت کے اثر نفوز کا خاتمہ، طالبان کی پیش قدمی اور بقول طالبان پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کی جانب سے افغان حکومت پر دبائو نے مل کر ان تمام قوتوں کے ارادے خاک میں ملا دیئے جو چاہتے تھے کہ امریکہ افغانستان میں مزید کئی سال تک رہے۔ افغان بھی لڑتے رہیں اور خطے کے دوسرے ممالک بھی امن سے محروم رہیں۔ یہ مذاکرات کہاں تک جاتے ہیں، ان سے کیا نکلتا ہے، یہ کامیاب یا ناکام ہوتے ہیں، کسی کو کچھ خبر نہیں، لیکن ایک بات ثابت ہے کہ کامیابی صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور فراست صرف مومن کا خاصہ ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو، کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے‘‘(ترمذی) آج مومن کی فراست کامیاب ہوئی ہے اور ماتم انہی تین طاقتوں کے ہاں برپا ہے۔ بھارت، افغان حکومت اور پاکستان کا سیکولر، لبرل دانشور۔