ابر اترا ہے چار سو دیکھو اب وہ نکھرے گا خوب رو دیکھو سرخ اینٹوں پہ ناچتی بارش اور یادیں ہیں روبرو دیکھو اس وقت مون سون شروع ہے اور پاکستان میں زبردست بارشوں کا امکان ہے اور ان بارشوں کے نتیجہ میں جو کچھ ہو گا وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ حکومت کے مون سون سے نمٹنے کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ مگر آج میں روٹین سے ہٹ کر کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے قارئین مون سون کے حوالے سے کچھ نہ کچھ جان سکیں کہ موسموں کا یہ سائکل نہایت دلچسپ ہے۔ ہوا یوں کہ میرا سب سے چھوا بیٹا عزیز بن سعد آ کر میرے پاس بیٹھ گیا کہ میں اسے مون سون کے بارے میں کچھ بتائوں کہ اسے مضمون لکھنا ہے۔ وہ آٹھویں کلاس کے آن لائن لیکچر دے رہا ہے۔ اس آن لائن سسٹم میں بچے پڑھتے کم ہیں والدین کو مشکل میں زیادہ ڈالتے ہیں۔ ویسے خوشی بھی ہوتی ہے کہ اگر آپ بچوں کے ساتھ مکالمہ کریں‘ ان کی تعلیم و تربیت میں حصہ لیں تو وائس ورسا آپ بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اب لامحالہ مجھے اسے مون سون کے بارے میں کچھ تو بتانا تھا کہ آخر یہ ہے کیا۔ پتہ چلا کہ یہ لفظ مون سون غربی لفظ موسم سے لیا گیا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ ہوائیں ہیں جو سمندر سے خشکی اور خشکی سے سمندر کی طرف چلتی ہیں اور یوں قدرت نے کمال کا ایک انتظام کر رکھا ہے کہ بارشیں مردہ زمینوں کو زندہ کرتی ہیں کہ وہ بادلوں کے مشکیزے اٹھا کر زمینوں کو سیراب کرنے آتی ہیں۔ آپ ذرا توجہ سے میری بات پر کان دھریں تو آپ لطف اندوز ہونگے۔ایک بات ذہن میں رکھیں کہ ہمیشہ یہ ہوائیں ہوا کے کم درجہ پریشر کی طرف چلتی ہیں یعنی زیادہ دبائو سے کم دبائو کی طرف۔ گرمیوں میں جب میدانی علاقہ گرم ہوتا ہے تو ہوا کا دبائو کم ہو جاتا ہے ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے تو اس خلا کو پر کرنے کے لئے سمندر سے ہوائیں چلتی ہیں کہ وہاں ہوا کا دبائو زیادہ ہوتا ہے کہ زمین پانی کے مقابلے میں جلد گرم ہو جاتی ہے سمندر سے چلنے والی ہوائیں بخارات سے لدھی ہوتی ہیں۔ یہ کم دبائو کی طرف آتی ہیں اور آ کر اوپر اٹھ جاتی ہیں جہاں نسبتاً ٹھنڈک ہوتی ہے کہ وہ بخارات جو ہوا میں ہوتے ہیں بادلوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں پھر یہ اس حجم اور وزن کو سنبھال نہیں پاتے تو بارش کی صورت پانی نیچے گراتے ہیں اس کو پریس پی ٹیشن کہتے ہیں۔ سمندر سے خشکی کی طرف چلنے والی ہوائوں کو ایڈوانس مون سون کہتے ہیں۔ اب یہی عمل جو جون جولائی کی گرمی میں شروع ہوتا وہ سردیوں میں جب زمین سرد ہوتی ہے تو یہ ریورس ہو جاتا ہے۔یہاں ایک شعر پڑھ کر آگے چلتے ہیں: لب پر ہے انکار کسی کے اور دل میں خواہش بھی ان کی آنکھوں میں دیکھو تو دھوپ بھی ہے اور بارش بھی تو معزز قارئین ! سردیوں میں ریورس ونڈز revere wingsیعنی ریورس مون سون شروع ہوتا ہے اس کلیے کے تحت اب کے ہوا کا کم دبائو سمندر میں پیدا ہوتا ہے کہ سمندر خشکی کی نسبت گرم دیر سے ہوتا اور ٹھنڈا بھی دیر سے ہوتا ہے۔ سردیوں میں زمین یخ ہو جاتی ہے اور سمندر نسبتاً گرم رہتا ہے تو اب ہوائیں خشکی سے سمندر کا رخ کرتی ہیں اور جتنی بھی نمی زمین سے اسے دستیاب ہوتی ہے لے کر کر سمندر کی طرف چلتی ہیں یہاں تو سچ لگتا ہے کہ الٹا بانس بریلی کو۔ نمی دار ہوائیں سمندر میں پہنچتی ہیں اور اسی طرح اوپر اٹھ کر بادل بناتی ہیں سمندر میں برستی ہیں ہائے ہائے میں نے ایک مرتبہ کیماڑی سے منوڑا جاتے ہوئے سمندر میں منظر کا دور تک سمندر کا پانی اوپر سے بارش۔ ہر طرف وہی پریس پی ٹیشن آپ اس منظر میں گم ہو جاتے ہیں اور اس منظر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ خوشی کے آنسو بھی اس بارش میں شامل ہو جاتے ہیں اور دل بھی بھر سا آتا ہے: دل کی دنیا ہے دوسری دنیا ایسی دنیا کو باوضو دیکھو اچھا میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ یہ ہوائیں جنوب مغرب سے سمندر سے خشکی کی طرف چلتی ہیں اور شمال مشرق سے خشکی سے سمندر کی طرف چلتی ہیں۔ جہاں ان بخارات سے بھری ہوائوں کو راستہ نہیں ملتا خلا پر ہمالیاز سے ٹکراتی ہیں تو وہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اس میں اور بھی تفصیل ہے مگر یہ تو ایک لیکچر ہی ہو جائے گا۔ بہرحال ہمارے ملک کے لئے جو کہ باقاعدہ ایک زرعی ملک ہے یہ بارشیں بہت مفید ہیں کہ فصلیں کھل اٹھتی ہیں۔ کسان خوشحال ہو جاتا ہے معیشت اچھی ہو جاتی ہے اگر یہ بارشیں یعنی مون سون شدید ہوجائے تو سیلاب بھی آ جاتے ہیں‘ نقصان بھی ہو جاتا ہے۔ ویسے ان بارشوں کے باعث زیر زمین پانی جو کہ نیچے جا رہا ہے کچھ اوپر اٹھ آتا ہے۔بس یہ قدرت کا نظام جسے دیکھ اور سمجھ کر انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ وہی خدا ہے۔اچھا بعض اوقات پری مون سون بھی ہوتی ہے کہ وقت سے پہلے بارشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو اس کی نشانی بھی یہی رہے ہے کہ جل تھل میں شہباز شریف لانگ شوز پہن کر اور سر پر ہیٹ لئے نظر آتے تھے۔اندرون شہر میں تو آدھے آدھے گھوڑے بھی ڈوب جاتے تھے۔ مون سون کا وہاں زیادہ فائدہ ہے جو بارش کے پانی کو سٹور کر لیتے ہیں اور کام میں لاتے ہیں۔ ہمارا کیا اور ہماری کہانی کیا کہ ایوب خان نے ہمارے تین دریا بیچ دیے اور اس کے بعد بھی ہم سوتے رہے۔ ہمارے دریا دشت بن گئے ہندوستان نے کتنے ہی ڈیم بنا لئے اور ہمارا لے دے کے بھاشا ڈیم جس کا تیسری یا چوتھی مرتبہ افتتاح ہو رہا ہے۔ پانی کے حوالے سے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی نے بھارت کو شہ دی اور وہ ہمارا پانی روک کر ڈیموں میں استعمال کرتا رہا۔ ہم ہر سطح پر ہندو کو سمجھنے سے قاصر رہے ایک مرتبہ میں نے ایک نظم لکھی تھی اس کی دو لائنیں یہ ہیں: نہیں ہے امن کی آشا سے زخم بھرنے کا بغیر جنگ کے پانی نہیں ہے ملنے کا پانی پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے کسی نے درست کہا تھا کہ اب جنگ پانی کے لئے ہوگی۔ بات بھی درست ہے کہ پانی میں زندگی ہے۔ پانی کی قدر کرنا ازبس ضروری ہے۔ ہمیں عام زندگی میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کو ضائع نہ ہونے دیں۔ بے مقصد ہی فرش دھو دھو کر محلوں میں نکال کر چھپر نہ بنائیں۔ مون سون کا لطف اٹھائیں۔