’’6تاریخ سے آپ کے لئے حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا‘6تاریخ کو میں لاہور جائوں گا اور اسے بند کروں گا۔8تاریخ کو فیصل آباد جائوں گا اسے بند کروں گا۔12تاریخ کو کراچی پہنچوں گا اور اسے بند کروں گا اور 16تاریخ کو پورا پاکستان بند کروں گا‘‘ یہ 2014ء ہے اور یہ تقریر عمران خان نے اسلام آباد میں کی تھی۔سیاست و حکمت اور فہم و فراست کی بات تو بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے ذرا مکافات عمل کا تذکرہ ہو جائے۔ اس دھرنے کے دوران عمران خان نے جو دھمکیاں دیں ذرا ان کی کچھ اخباری جھلکیاں بھی ملاحظہ فرما لیں۔’’میرا دل چاہتا ہے کہ وزیر اعظم کو گریبان سے پکڑ کر پھینک دوں۔ پارلیمنٹ بھی جعلی ہے‘‘۔ ’’پولیس روک سکتی ہے نہ فوج‘‘ آج وزیر اعظم ہائوس جائوں گا۔ ایک اور جھلک بھی دیکھیے’’سونامی وزیر اعظم ہائوس اور پارلیمنٹ بھی جا سکتا ہے‘‘ آج کا اہم سوال یہ ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمن وہی کچھ کریں گے جو جناب عمران خان 2014ء کے دھرنے میں کرتے رہے ہیں؟ کیا مولانا فضل الرحمن رہیں گے یا عمران خان بن جائیں گے۔ کیا مولانا شائستگی اور نرم مزاجی کو تج کر تنک مزاجی اور الزام تراشی کا سہارا لیں گے۔ کیا وہ طنزو مزاح کے ہلکے پھلکے ہتھیار کو خیر باد کہہ کر جناب عمران خان کی گرم گفتاری والا لب و لہجہ اختیار کر لیں گے۔ کیا مولانا فضل الرحمن معاہدے کی پاسداری کریں گے یا اس کی کوئی مصلحت آمیز توجیہہ پیش کریں گے۔ کیا وہ اسلام آباد کی انتظامیہ سے کئے گئے وعدے کو نبھائیں گے یا بہت بڑا لیڈر کہلانے کے لئے یوٹرن لے لیں گے؟میں چاہتا تھا کہ ان تمام سوالوں کے جواب براہ راست مولانا فضل الرحمن سے لوں تاکہ کوئی ابہام نہ رہے مگر آج صبح انہیں فون کیا تو وہ بند ملا۔ بعد میں مولانا کے بہت مقرب اور جمعیت علمائے اسلام راولپنڈی کے اہم لیڈر زبیر عباسی سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا۔ عباسی صاحب کے بقول قائدین کرام شب بھر ایچ نائن کے پنڈال میں کارکنوں کی خبرگیری اور بعدازاں صلاح مشورے میں مصروف رہتے ہیں اور نماز فجر کے بعد دو چار گھنٹوں کے لئے آرام کرتے ہیں۔ عباسی صاحب نے میرے سب سوالوں کا نہایت مختصر مگر جامع جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ خدانخواستہ مولانا فضل الرحمن بھی عمران خان بن جائیں۔ یہاں عمران خان بننے سے مراد ان کا 2014ء کے دھرنے والا رویہ ہے۔ مجھے خود عباسی صاحب کے جواب سے اتفاق ہے مولانا نے جمعتہ المبارک کو جو تقریر کی اور اس میں عمران خان سے دو روز میں مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مولانا مزید حدت اور شدت پیدا کریں گے اور ڈی چوک بھی جائیں گے اور اس سے آگے بھی جانے کی باتیں کریں گے مگر فقیر نے ایک ٹی وی چینل پر عرض کیا تھا کہ مولانا ڈی چوک جائیں گے اور نہ اسلام آباد انتظامیہ سے اپنی مقامی قیادت کے معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے۔ اتوار کی شب مولانا نے جو تقریر کی اس نے بہت سے خدشے دور کر دیے۔ مولانا نے کمال ذہانت و فراست سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک کھلی جگہ کو چھوڑ کر ڈی چوک کی تنگ جگہ پر اپنے بحر بیکراں کو نہیں لے جائیں گے۔ مولانا نے جمعتہ المبارک کو وزیر اعظم ہائوس کی طرف کارکنوں کے جانے کی جو بات کی تھی اس کی بھی حکمت کے ساتھ وضاحت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم وزیر اعظم ہائوس جانے کا فیصلہ کر لیں تو کوئی ہمیں وہاں جانے سے روک نہیں سکتا مگر ہم پرامن لوگ ہیں ہم ایسا نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ انہوں نے دو روزہ الٹی میٹم کو بھی مبہم رکھا۔ مولانا کی طبیعت کی اعتدال پسندی اور ان کی حکمت عملی کا یہ کرشمہ ہے کہ انہوں نے ڈھلمل یقین مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اپنے ساتھ شامل رہنے کا تاثر دے رکھا ہے۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ راجدھانی لاہور میں انہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے جس سردمہری کا سامنا کرنا پڑا وہ اسے بھی پی گئے اور ان کی مجبوریوں کو سمجھنے کی بات کر کے آگے بڑھ گئے۔بلاول بھٹو ان کے دیرینہ سیاسی ساتھی آصف علی زرداری کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے بلاول کو بھی اپنے سایہ شفقت میں لے رکھا ہے۔ یہ اس شفقت کا نتیجہ ہے کہ بلاول بھٹو مولانا کے دھرنے میں شمولیت کے آپشن پر غور کرنے پر آمادہ ہو گئے ۔ یہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئے نہ جانے مولانا فضل الرحمن نے اپنی ’’ہمدم دیرینہ‘‘ جماعت اسلامی پر زیادہ کام کیوں نہیں کیا۔ اگر جماعت اسلامی بھی مولانا کے آزادی مارچ میں شامل ہو جاتی تو کراچی ‘لاہور ‘ملتان ‘اسلام آباد وغیرہ کے لاکھوں جماعتی کارکنان کی شمولیت سے یہ تاثر دور ہو جاتا کہ آزادی مارچ میں شہری شمولیت کم ہے۔ کراچی سے اسلام آباد تک جس پرامن طریقے سے لاکھوں لوگ آزادی مارچ کے پرچم تلے پہنچے ہیں وہ مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ چار پانچ روز سے لاکھوں کا مجمع نہایت نظم و ضبط اور امن پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہے جے یو آئی کے رہنما زبیر عباسی کا کہنا ہے کہ رائے ونڈ کے تبلیغی جماعت کے اجتماع سے واپس آنے والے لوگ ہزاروں کی تعداد میں اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ میں نے عباسی صاحب سے عرض کیا کہ تبلیغی جماعت والے تو ’’غیر سیاسی‘‘ لوگ ہیں وہ اس دھرنے میں کیونکر شامل ہوں گے۔ عباسی صاحب نے کہا کہ دین و دنیا کی یہ تقسیم پنجاب میں کسی حد تک ہے، کے پی کے سے تعلق رکھنے والے لوگ سیاست کو ہرگز شجر ممنوعہ نہیں سمجھتے۔ عباسی صاحب نے بتایا کہ پشاور موڑ کے اتوار بازار کے ساتھ اڑھائی سو ایکڑ پر پھیلے ہوئے وسیع و عریض میدان میں بھی یہ مجمع بمشکل سماتا ہے اور تین چار ماہ قبل ہی کارکنوں کو بتا دیا گیا تھا کہ تحصیل کی سطح پر ہر علاقے کے لوگ اپنے کھانے پینے کا انتظام خود کریں گے۔ ’’مذہبی کارڈ مذہبی کارڈ‘‘ کا طعنہ دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مذہبی لوگ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور لیڈروں کے برعکس انتہائی منظم ہیں۔ کہیں کوئی چھینا جھپٹی نہیں اور کہیں کارکنوں میں کوئی سر پٹھول نہیں۔ ایک طرف حکومت نے اپنی مذاکراتی ٹیم میں پرویز خٹک‘ شفقت محمود‘ اسد عمر جیسی سنجیدہ اور پرویز الٰہی جیسی جہاندیدہ شخصیات کو شامل کر کے معاملات کو افہام و تفہیم اور مذاکرات سے حل کرنے کا بھر پور تاثر دیا اور دوسری طرف خود جناب وزیر اعظم گلگت بلتستان جا کر اپنی تندیٔ طبع پر قابو نہ رکھ سکے اور مولانا فضل الرحمن کے خلاف اپنی روایتی جارحانہ یلغار کو نہ روک پائے۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب کے وزیر اطلاعات اسلم اقبال نے کہا کہ یہ وہی مولانا ہیں جن کے والد نے کہا تھا کہ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہ تھے۔ کنٹینر پر محمود اچکزئی بھی موجود ہیں جو ایک ہمسایہ ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک لیڈر اسفند یار ولی کے والد نے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہ کیا‘ کیا مذاکرات کے لئے جتن کرنے والی پارٹی کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اطلاعات کو یہ باتیں زیب دیتی ہیں۔ اس سے زیادہ حیرت تو ان دانشوروں پر ہے جو خواب و خیال کی باتوں کی بنیاد پر گڑھے مردے اکھاڑتے ہیں اور بزرگوں کی خطائوں کا طعنہ ان کی اولادوں کو دیتے ہیں۔ کالم کی تنگ دامانی مجھے تاریخی حقیقت اور افسانے کے درمیان تحقیقی حد فاصل کھینچنے کی اجازت نہیں دیتی۔ تاہم وزیروں اور دانشوروں سے پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ مولانا مفتی محمود کی کسی خطا پر مولانا فضل الرحمن کو کیسے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ خان عبدالغفار کے اقوال و افعال کی ذمہ داری اسفند یار ولی پر کیسے عائد ہوتی ہے یا محمود اچکزئی کے والد مرحوم عبدالصمد اچکزئی کے کسی سیاسی موقف کی نفی کرتے ہوئے محمود اچکزئی کو کیسے نشانہ تنقید بنایا جا سکتا ہے۔ یہ باتیں دلوں کو جوڑنے والی نہیں دلوں کو توڑنے والی ہیں ۔ مولانا کی اگلی منزل کیا ہو گی؟ سیاست کے ایک طالب علم اور خاندانی طور پر علمائے کرام سے رشتہ احترام رکھنے کی بنا پر میں نہایت وثوق سے کہوں گا کہ مولانا کی اگلی منزل جو بھی ہو وہ ماورائے قانون و آئین ہرگزنہیں ہو گی۔