بڑے شاعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کے افکار و نظریات زمانی و مکانی حدود سے ماورا ہوتے ہیں۔ ہر زمانے میں اس کے اشعار سے مفہوم و معانی کی نئی نئی پرتیں اور جہتیں نمایاں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔اُردو میں یہ مقام حضرتِ علّامہ اقبال ( کل جن کا ۱۴۳ واں یومِ ولادت ہے)کو حاصل ہے کہ ہم زندگی کے کسی بھی موضوع و مسئلے پہ بات کرنے لگیں، بات کرنے والے کا تعلق چاہے کسی بھی شعبے سے ہو، علّامہ کے کسی شعر، مصرعے یا نظم کا سہارا لیے یا حوالہ دیے بغیر تحریر و تقریر میں معیار و استناد کی کیفیت ہی پیدا نہیں ہونے پاتی۔ شاعرِ مشرق کی بڑی اور عظیم شاعری کی تو بات ہی مختلف ہے کہ اس میں قدم قدم افکار کی نئی سے نئی دنیا آباد ہے، گزشتہ دنوں اقبال کی بچوں کے لیے لکھی نظموں کا نئے سِرے سے مطالعہ شروع کیا توہر نظم میں ایک نیا ہی جہانِ معنی وا ہوتا چلا گیا۔ آئیے آج ذرا اُن کی عام سی نظم ’مکڑا اور مکھی‘ پہ نئے زاویے سے نظر ڈالیں: سَو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ یہ سوچ کے مکھی سے کہا اُس نے بڑی بی! اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رُتبہ آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا یہ حُسن ، یہ پوشاک ، یہ خوبی ، یہ صفائی پھر اس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا یہ بات سنی اور اُڑی اپنی جگہ سے پاس آئی تو مکڑے نے اُچھل کر اسے پکڑا اب اگر آپ ان اشعار کی روشنی میں اپنے ارد گِرد سرسری سی نظر بھی دوڑائیں تو آپ کو سرکاری، درباری، کاروباری، ذاتی اور اجتماعی کے ساتھ ساتھ مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی بے شمار مکڑے نظر آنا شروع ہو جائیں گے جو دن رات اپنے اپنے اسلوب اور طریقۂ واردات کے مطابق بھولی بھالی اور ستائش کی بھوکی مکھیوں کو پھانسنے اور زیرِ دام لانے کی تگ و دَو میں لگے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر سب سے بڑا مکڑا امریکا ہے جو اپنی روایتی خوشامد اور دھونس، دھاندلی سے بے شمار مکھیوں کو ہڑپ کر چکا ہے۔بعض ناتواں مکھیوں کو اس نے اپنے بُنے ہوئے جال میں مستقلاً جکڑ رکھا ہے جو اس کے جال یا جالے کی حدود کے اندر خود کو آزاد، خود مختار اور جمہوری سمجھتی ہیں لیکن اُن میں اس جال یا جالے سے باہر نکلنے کی ہمت ہے نہ مزاج … ان میں سے کوئی مکھی اگر مَنے کی موج میں آ کر کسی دوسرے مکڑے کے جالے کی سیاحت کا قصد باندھے بھی تو زمانہ ساز مکڑے کی دھمکی آمیز خوشامد کے ایک دو بول ہی اس کے پر بھگو دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض مکھیوں کو وہ ہڑپ اس لیے نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ شکار کی تلملاہٹ، تڑپ اور نزع میں جو مزہ ہے، وہ اس کو نگل لینے میں کہاں؟ پھر اگر آپ اپنے قُرب و جوار کا بغور جائزہ لیں تو جگہ جگہ رنگا رنگ مکڑے آپ کو قطار اندر قطار کھڑے دکھائی دینے لگیں گے۔ زیادہ دور نہ جائیں تھوڑی دیر کے لیے اپنے کمرے میں پڑا ٹی وی آن کر کے دیکھ لیں۔ مختلف مقامی، ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہاری مکڑے آپ کو اپنی طرف رینگتے نظر آنے لگیں گے۔ وہ آپ کو اشتہا انگیز دلائل و براہین اور منطق و منافقت سے اس طرح ورغلاتے ہوئے ملیں گے کہ آپ ان کے دام میں پھنسنے کو اپنی خوش قسمتی اور ان کا احسانِ عظیم خیال کرنے لگیںگے، بالکل اسی مکھی کی طرح: مکھی نے سُنی جب یہ خوشامد تو پسیجی بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا آپ خود ہی انصاف کیجیے کہ اپنے دلہن کی طرح سجے بنے پرائیویٹ کلینک یا کروڑوں کی لاگت سے تیار کردہ ہسپتالوں میں، مکھیوں جیسے مصیبت کے مارے مریضوں بلکہ گاہکوں سے بھاری فیسوں، من پسند لیبارٹریوں کے ٹسٹوںاور مہنگی ادویات کی زبان بولتا ڈاکٹر آپ کو کس چیز کے مشابہ لگتا ہے؟ اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں باہر سے نظر آتا ہے یہ چھوٹی سی کُٹیا لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے دیواروں کو آئینوں سے ہے مَیں نے سجایا سرکاری تعلیمی اداروں سے طلبہ و طالبات کو اپنی استادی کے زور سے پھانس کر ذاتی اکیڈمی یا ٹیوشن سنٹر پہ کھینچ لانے والا استاد تو مکڑے کا بھی بڑا بھائی لگتا ہے جو اپنے نوٹس زدہ نام نہاد علم کو مکھی ہی کی طرح مروت اور ضرورت کے مارے طلبہ و طالبات کو پُڑیوں میںفروخت کرتا ہے، اور طلبہ بے چارے: انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں بُرا مَیں سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا پھر آپ دکانوں، بازاروں اور مارکیٹوں میں اشیائے ضروریہ سے نکونک بھری دکانوں میں چمکیلے، سجیلے برانڈوں کی اوٹ سے گاہکوں کو تاڑتے دکان داروں کو غور سے دیکھیںگے تو آپ کو ان کے چہروں پہ بھی ’م سے مکڑا‘ لکھا صاف دکھائی دینے لگے گا۔دُکان کے اندر چلے جائیں گے تو آداب بھی ویسے ہی ملیں گے، بقول داناے راز: مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا اس کے علاوہ اپنے تھانہ کچہری کلچر پہ بھی نظر ڈال لیجیے، کسٹم اور انکم ٹیکس کے دفاتر کا مشاہدہ کر لیجیے، پٹواری اور تحصیل دار کو دیکھ لیجیے۔ ہر جگہ آپ کو اقبال کی اسی فرضی نظم کا حقیقی ٹیبلو دیکھنے کو ملے گا۔ ہر جگہ گھاگ قسم کے مکڑے، نادان و معصوم مکھیوں کو یہی باور کراتے ملیں گے: منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ کچھ فائدہ اپنا تو مِرا اس میں نہیں تھا ان سب سے بڑھ کے تجربہ کار اور خاندانی مکڑے آپ کو حکومتی ایوانوں اور سیاسی دُکانوں پہ ملیں گے۔ یہ ایسے گھاگ اور اپنے فن میں طاق مکڑے ہیں، جنھیں مکھیوں کو دام میں لانے کے لیے خوشامد کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ رنگ برنگی مکھیاں اپنے ماتھے پہ’ آ مجھے شکار کر‘ کا دعوتی و شہوتی لیبل سجائے خود ان کے در پہ حاضری دینے کے لیے بے چَین ہوتی ہیں، مکڑے کا تو صرف اتنا سا کام باقی رہ جاتا ہے کہ: آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا