دلچسپ اتفاق دیکھیے کہ مکہ کے پہاڑوں کا تذکرہ ہونے لگا کہ ایک زمانے میں ‘میں نے ایک کالم تحریر کیا تھا’’مکہ کے پہاڑبنجر کیوں ہیں‘‘ اس حوالے سے بہت عرصہ تک لوگوں کا فیڈ بیک آتا رہا۔ تب میں عمرہ کرنے آیا تھا اور یہ راز مجھے ڈاکٹر اشرف علوی نے بتایا تھا آج جب میں حج کے دنوںمیں ریستوران کی میز پر بیٹھ کر اس واقعہ کاذکر کر رہا تھا تو ڈاکٹر اشرف علوی کا نام سنتے ہی ایک خوبرو باریش مسکراتے ہوئے چونک کر بولا ’’حضور!آپ یہ کس کا ذکر کر رہے ہیں۔ پھر وہ فرط جذبات میں فرمانے لگے‘ جناب وہ میرے خالو ہیں اور اب بھی وہ مکہ میں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور کچھ علیل بھی ہیں۔ یہ تھے ہمارے ساتھ پاکستان سے آئے ہوئے محمد نعیم صاحب ان کے ساتھ ہم مدینہ اور مکہ میں نمازیں بھی اکٹھے پڑھتے رہے بہت پیار کرنے والے۔ یقینا جن لوگوں نے میرا وہ کالم نہیں پڑھا وہ جاننے کی خواہش کریں گے کہ مکہ کے پہاڑ بنجر کیوں ہیں؟ واقعتاً مکہ کے پہاڑوں پر ہریالی نہیں ہے بلکہ اردگرد بھی نہیں ہے جہاں تک شہر و مضافات کا تعلق ہے اب انہوں نے کسی طریقے سے پودے اور پیڑ لگائے ہیں‘ باڑ وغیرہ بھی نظر آتی ہے مگر ان میں ایک قسم کا روکھا پن یا خشکی محسوس ہوتی ہے شاید انہیں مناسب انداز میں پانی نہیں ملتا۔ تاہم کھجور تو یہاں کا پیڑ ہے مدینہ سے مکہ آتے ہوئے بھی ہم نے مشاہدہ کیا کہ لق و دق صحرا اور پہاڑی سلسلے ہیں۔ روئیدگی نہیں ہے۔ دھوپ بھی خوب چمکتی ہیں۔ کہیں کہیں خود رو گھاس وغیرہ شاید ہو کہ ہم نے دو تین جگہ اونٹ گھومتے ہوئے دیکھے آبادی سڑک سے دور کہیں ہو گی۔ چلیے آتا ہوں میں موضوع کی طرف کہ جب میں کچھ برس پہلے عمرہ کے لئے آیا تو معروف شاعر آصف شفیع اور اس کے دوستوں نے میری بڑی آئو بھگت کی۔ وہ تب سلاٹر ہائوس میں انجینئر تھا۔ وہاں اس کے پاس اصغر علوی صاحب تھے۔ ایک دن پتہ چلا کہ یہ لوگ اصغر علوی کے بڑے بھائی ڈاکٹر اشرف علوی کو سعودیہ کی شہریت ملنے پر مبارکباد دینے جا رہے ہیں۔ لامحالہ انہوں نے مجھے بھی ساتھ لے لیا اور اس طرح ہم ان کے گھر پہنچے۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں سعودیہ کی شہریت سب سے مشکل ہے ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ اب کے ذاکر نائیک کو بھی سعودیہ نے شہریت دے دی ہے اور یہ بات اہمیت رکھتی ہے۔ جب ہم لوگ ڈاکٹر اشرف علوی کو مبارکباد دے رہے تھے تو میرا تعارف کروایا تو انہوں نے کہا’’آپ چھوٹی بحر میں بہت اچھی غزل کہتے ہیں‘‘ میرے لئے ایک ڈاکٹر کا کومنٹ تعجب کا باعث تھا۔ پھر کہنے لگے آپ لوگ اس کے بعد کہاں جائیں گے؟ ہم نے کہا جدہ ایک مشاہرہ کا اہتمام ہے کہنے لگے آپ میرے ساتھ جدہ جائیں گے ہم کیا جواب دیتے کہ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔ ان کے ساتھ میں اور آصف شفیع تھے دونوں پچھلی سیٹوں پر۔ ڈرائیور کے ساتھ خود ڈاکٹر صاحب تھے کچھ سفر گزرا تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئے ’’شاہ صاحب! بتائیے کہ یہ مکہ کے پہاڑ اتنے بنجر کیوں ہیں؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔کہنے لگے پھر بھی سوچیں تو سہی۔ میں نے دنیا بھر کے پہاڑ دیکھے ہیں مگروہ اس طرح بنجر نہیں ہیں۔ میں نے کہاآپ ہی کچھ بتائیے۔ فرمانے لگے کہ اللہ کی منشا یہ ہے کہ تم یہاں میرے گھر کی زیارت کے لئے آئو۔ یہ کوئی پکنک پوائنٹ یا سیر گاہ نہیں ہے۔ یہاں مرکزی حیثیت صرف اللہ کے گھر کو حاصل ہے۔ یہیں عاجزی اور انکساری کے ساتھ طواف کرو صفا مروا کی سعی کرو اور دعا کرو۔ ان کی باتیں بہت اچھی تھیں۔ راستے میں نماز کا وقت ہوا تو ہم نے اتر کر نماز پڑھی۔ مجھے ہی انہوں نے آگے کھڑا کر دیا۔ وہاں جماعت کی پابندی اکثر کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اشرف کے بارے میں میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے محمد نعیم صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر اشرف علوی عمران خان کے کینسر ہسپتال میں بھی لیکچر دینے جاتے رہے ہیں۔ وہ امریکہ سے پڑھ کر آئے تھے۔ لیکن جو خوبصورت بات میرے ذہن میں رہی وہ خود اشرف صاحب نے بتائی تھی کہ پہلے پہل انہوں نے گائوں جا کر ملازمت کرنے کو ترجیح دی جس پر ان کے دوست ان کے اس فیصلے کو حماقت کہتے تھے۔ مگر ڈاکٹر صاحب میں انسانی خدمت کا جذبہ تھا۔ وہ کچھ سال گائوں میں مریضوںکو دیکھتے رہے۔ بتاتے تھے وہاں لوگ سادہ اور سیدھے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وہاں کمپوڈر وغیرہ ہی ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ خدمت کے اس جذبے اور عمل نے انہیں زندگی میں سرخرو کیا۔ کہنے لگے کہ بیٹھے بٹھائے ایک روز مجھے تین آفرز ملیں یا چوائس کہہ لیں کہ ’’کیا آپ امریکہ جانا پسند کریں گے۔ کینیڈا یا پھر سعودی عرب۔ اپنی ماں سے انہوں نے بات کی اور سعودیہ کے حق میں فیصلہ کر لیا کہ اب اگر باہر جانا ہے تو اللہ کے گھر کی زیارت کیوں نہ کرنے کا موقع حاصل کیا جائے اور حضورؐ کو سلام کرنے کا۔ یہاں ریاض میں ان کی پوسٹنگ ہوئی۔ پھر اپنی لیاقت کے باعث وہ بادشاہ وقت کے معالج ٹھہرے۔ پھر عرصہ گزرا توانہیں بادشاہ نے خوش ہو کر سعودیہ کی شہریت دے دی: وہ تو خود ہی عطا پہ مائل تھا ورنہ کیا میں نے اہتمام کیا لیجیے یہ تھی بنجر پہاڑوں کی کہانی۔ اب تو یہاں ملٹی سٹوری بلڈنگز کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ جس ہوٹل میں ہم ہیں یہ 23منزلہ ہے اور ایسی ہی کئی عمارتیں عزیزیہ میں ہیں۔ لاکھوں حاجی یہاں قیام پذیر ہیں۔ میرے نبی کریم ؐ کی دعا کا صدقہ ہے کہ ان بنجر پہاڑوں کے علاقے میں نیچے سیال سونا بہہ رہا ہے جس نے انہیں مالا مال کر دیا ہے۔ حج نے ان کی معیشت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ صرف تیل پر انحصار نہیں چاہتے۔ تو جناب ان کا زیادہ انحصار پہلے ہی فریضہ حج کی آمدنی پر ہے۔ آپ صرف موبائل پیکیج ہی کو لے لیں جو کہ ہر حاجی کی ضرورت ہے اور وہاں دکاندار بھی جی بھر کر اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پیکجز بہت مہنگے ہیں۔ دوسرا ایسی سمز بھی ایجنٹ بیچ جاتے ہیں کہ بیچارے حاجی ایک دو روز ہی استعمال کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے بیلنس ختم اس مقدس مقام پر اپنا کام دکھانے والے دکھاتے ہیں۔ ویسے بھی ان کا یہ حج سیزن ہے جیسے ہمارے ہاں رمضان سیزن ہوتا ہے۔ کچھ مانوس نام بھی نظر آ جاتے ہیں جیسے فیصل آباد ہوٹل یا پنجاب ریسٹورنٹ۔عرب کے نوجوان مصروف نظر آتے ہیں وہاں تو ڈرائیور بھی ہزاروں کی تعداد میں چاہئیں۔ کچھ نوجوان پولیس میں ہیں۔ انگریزی وہ بالکل نہیں جانتے۔ ایک کو تو میں نے بیڑا یا گٹکا کھاتے خود دیکھا اور پاس ہی کھڑا ایک شخص کہنے لگا۔یہاں تو سب کچھ چلتا ہے۔ خوشحالی کے کچھ نتائج تو مرتب ہوتے ہیں۔جمعہ یا اتوار بازار کی طرح بازار یہاں علی الصبح لگتے ہیں لیکن وہ سستے بالکل بھی نہیں ہوتے جیسے ہمارے بازار بھی مہنگے ہی ہوتے ہیں۔ نماز کے بعد بہت ننھے بچوں کو میں نے چائے بیچتے دیکھا۔ وہ اپنے سامنے میز پر سٹیل کولر رکھ کر آواز لگاتے ہیں’’دودھ والا چائے‘‘ جو بھی ہے اللہ نے یہاں ایک میلہ لگا رکھا ہے ۔ آنکھوں پہ یقین نہیں آتا۔ لوگوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ اس حج سے پہلے آخری جمعہ کو تو ہجوم سنبھالا ہی نہیں گیا۔ جہاں بھی باہر کہیں جگہ ملی لوگ سربسجود ہو گئے: تیری دہلیز پر جبیں رکھ دی یعنی خود کو بلند مقام کیا