ملک میں سیاسی کشمکش آج پورے جوبن پر ہے۔ نواز شریف ملک کی مقتدرہ کے خلاف جو کچھ کہہ رہے ہیں، لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ وہ اسی نظام کے ذریعے آگے بڑھے اور اسی نظام کا حصہ رہے، آصف زرداری کو آپ سیاسی شطرنج کا چمپئن کہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان کی بعض سیاسی چالوں نے بچھی بساط کے تمام کھلاڑیوں کو حیران و پریشان کر دیا۔ لیکن ذرا غور فرمائیے کہ ان کی طرز سیاست نے اس پارٹی کو جسے بدترین آمر ختم تو دور کی بات محدود نہ کر سکا وہ آج کہاں کھڑی ہے، تمام صوبوں کی زنجیر کہلانے والی پارٹی سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔اس حکمت عملی ‘کارکردگی اور جادوگری کو آپ جو نام چاہیں دے لیں۔ نوازشریف بھی آج جس نظام کو چیلنج کر رہے ہیں وہ خود اس کے سب سے سرگرم کردار رہے۔ بھٹو نے اسے باقاعدہ سسٹم کا حصہ بنانے میں سب سے زیادہ سرگرمی دکھائی۔وہ اسی پٹڑی پر چلتے رہے جس طرح مقتدر قوتیں ان سے اس کی ڈیمانڈ کرتی رہی اس قوتوںکی معاونت کی بدولت ہی دائیں بازو کی تمام موثر قوتیں ان کی سرکردگی میں کھڑی ہو گئیں۔ جنرل جیلانی کی سرکردگی میں انہوں نے سسٹم میں نہ صرف اپنی جڑیں مضبوط کیں بلکہ ان قوتوں سے اپنے روابط اور اثر و نفوذ اسی طرح بڑھایا جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں ایوب خان کی قربت کے حوالے سے تمام اہم قوتوں کے ساتھ اپنی صلاحیت اور اہمیت منوانے کی کوشش کی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف ان قوتوں کی خواہش اور اشتراک کے ساتھ بے نظیر ‘جونیجو اور آصف زرداری کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوئے لیکن اب وہ اپنی قوتوں کے خلاف ببانگ دہل خالص جمہوریت کا نعرہ لگا کر میدان میں اترے ہیں۔یہ ماننا پڑے گا کہ اس پوزیشن تک پہنچنے اور اپنا راستہ بنانے کے لئے نواز شریف نے متعدد کمپرو مائز کیے۔وہ اچھی طرح جان چکے تھے کہ اقتدار کی کرسی تک پہنچنے اور اس پر مضبوطی سے براجمان ہونے کے لئے انہیں کب اور کیسے کونساحر بہ استعمال کرنا پڑے گا۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے ماضی اور موجودہ حالات میں ان کے فلسفے میں کوئی منطقی ربط قائم نہیں کیا جا سکتا ۔کیا تین بار وزیر اعظم کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہنے والے نواز شریف کو یہ نہیں معلوم کہ جب تقریروں میں اداروں کی اہم شخصیات کے نام لئے جائیں گے تو اس سے اداروں کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف عمران خان ایک ایسی سیاسی حقیقت ہیں کہ ان پھبتی کسی جائے یا انہیں سلیکٹیڈ کہا جائے ان کے وجود اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ تبدیلی کے نقارے پر چوٹ لگانے والے دوسرے سیاستدان ہیں انہوں نے اپنے اس سفرمیں عوامی سطح پر رابطوں کے علاوہ وہ سہارے بھی تلاش کرنے کی کوشش کی جو ان کے مدمقابل دوسری قوتوں کو حاصل تھے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ انہیں عوامی پذیرائی پہلے ملی اور سہارے بعد میں۔یہی خصوصیت انہیں اپنے سب سے بڑے حریف نواز شریف پر برتری دیتی ہے جبکہ نواز شریف کو اقتدار پہلے ملا اور عوامی پذیرائی بعد میں۔ عمران خان کی سب سے بڑی خامی یہ دکھائی دیتی ہے کہ ان کی خود اعتمادی اکثر اوقات رعونت کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے اور وہ اپنے اس فلسفے کی ٹوکری لے کر جسے وہ احتساب کہتے ہیں خود کو تنہائی کا شکار کرتے جا رہے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آپ کو بڑے سے بڑے حریف کے ساتھ کسی متفقہ لائحہ عمل اور فارمولے پر پہنچنے کے لئے مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے اور یہ بھی کہ اپنے حریف کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیے ان کی خود اعتمادی کا یہ رویہ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران کی طاقت تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کے راستے کا سب سب سے بڑا پتھر بن چکا ہے انہیں آگے بڑھنے کے لئے اور درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے سب کو ساتھ لے کر چلنا تھا لیکن نہ وہ ایسا کر پا رہے ہیں اور نہ ایسا کرنا چاہتے ہیں ۔ بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ وہ اپنے ماتحت اداروں کو بھی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے ان کے تلخ اور کڑوے لہجے میں ان کے وزراء کو بھی اتنا بدزبان کر دیا ہے کہ وہ مغلظات بکنے میں کسی بھی تکلف کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ ایسی روایات قائم کر رہے ہیں جن میں اخلاقیات پاس سے بھی نہیں گزری۔ اپنے مخالفین کو برداشت نہ کرنے کا طرز عمل انہیں یہاں تک لے آیا ہے کہ قومی اسمبلی میں پرسکون انداز سے تقریر کرنا ان کے لئے ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثریت کے باوجود اپوزیشن اس اعلیٰ ترین ایوان میں انہیں چاروں شانے چت کر چکی ہے اس کی بنیادی وجہ خود عمران خان ہیں۔ اس لئے اب یہ ذمہ داری عمران خان کی ہے کہ وہ بڑے بنیں اور آپس کے اختلافات جو اب نفرتوں میں بدل چکے ہیں کم کریں۔اگر وہ ایسا نہیں کر پائے تو پھر کیا ہو گا۔ اس کے لئے کسی کا بقراط ہونا ضروری نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہر دور میں رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں ریاستی ادارے کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں وہاں کے صدور اس کردار پر انگلیاں اٹھاتے رہے ہیں۔لیکن اس کو سیاسی بحث کا موضوع نہیں بنایا جاتا اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپے مفادات کی اسیر ہو کر دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کر پاتیں۔ ایسے میں یہ ادارے مختلف حیلے بہانے سے سیاسی اکھاڑے میں موجود کرداروں کو ایک خاص دائرے میں رکھنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ پوری ملکی مشنری کو چلانے اور حکومتی امور کو مستحکم رکھنے کے لئے یہ تمام فریق ایک دوسرے کے لئے اہم کردار کا کام کرتے ہیں۔ ان کے مابین دنیا بھر میں ہلکی پھلکی موسیقی چلتی رہتی ہے لیکن ان کو کبھی بھی غداری اور حب الوطنی کے القابات سے نہیں جوڑنا چاہیے ان رویوں کو بدلنا اور ہر لمحہ ہوشمندی اور دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ اس لئے کوئی بھی شخص یا ادارہ یہ رویہ 22کروڑ لوگوں کو ملک میں نہیں اپنا سکتا بہت سے مسائل جنہیں ہم قومی سلامتی کے امور کے طور پر دیکھتے ہیں درحقیقت انہی رویوں کی پیداوار میں ایسا لگتا ہے کہ تمام فریق اپنی ضد اور انا کے اسیر ہو گئے ہیں۔ جان لیں کہ ہمارا یہ انداز فکر 22کروڑ لوگو ں کے ملک خداداد کو یقینی تباہی کی طرف لے جائے گا خدارا ادراک کیجیے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ ٭٭٭٭٭