خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے سرتسلیم ہے خم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے آج دل چاہا کہ اپنے قارئین سے کچھ ادب کی باتیں کر کے ماحول کو مہکایا جائے۔ یعنی ہم سوچتے ہیں کہ پہلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے واقعتاً میں ایک جگہ سے اترا تو میری نظر انہی لٹکتے ہوئے پیلے گہنوں پر پڑی کہ قدرت کس کس رنگ میں جلوہ آرا ہے مگر مجھے آج عرو سہء غزل پر بات کرنا ہے ۔ میں عرصہ دراز کے بعد اپنے کالج اسلامیہ کالج سول لائنز گیا تو دوست احباب سے بڑی پرجوش ملاقاتیں ہوئیں اور وہی کہ یہ بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے۔ انگریزی ڈیپارٹمنٹ تو میرا ڈیپارٹمنٹ ہے مگر اردو والے بھی مجھے بہت عزیز ہیں جب میں ریٹائر ہوا تھا تو اردو ڈیپارٹمنٹ نے خصوصاً میرے اعزاز میں تقریب رکھی تھی خیر آمدن برسر مطلب۔ جمیل احمد عدیل سے ملاقات ہوئی وہ اردو شعبہ کے صدر ہیں مگر ان کی تخصیص یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر علم و فضل میں ڈھلے ہوئے ایک اجلے اور بانکے آدمی ہیں ان سے مکالمہ ہو یا ان کی تحریر سامنے ہو تو پڑھنے والے کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے شاعری کو چھوتی ہوئی ان کی نثر۔ ان کے ہاں علمیت کے ساتھ ساتھ شگفتگی بزلہ سنجی اور عصری شعور تحریر کو لطیف اور جامع بناتے ہیں۔ آپ ذرا اندازہ کیجیے کہ انہوں نے اپنی تازہ ترین کتاب ’’تفرید‘‘ عطا کی تو کتاب کے نام پر ہی ہم نے سر پکڑ یا۔ پوچھا قبلہ کیا معی ہے تفرید کا۔ مسکرانے لگے کہ میرے جیسے کئی کم مایہ لوگوں نے پوچھا ہو گا بہرحال یہ لفظ انفرادیت فرد مفرد اور منفرد کے قبیل کا لفظ ہے ۔ جمیل احمد عدیل اپنا انفرادی اسلوب رکھتے ہیں وہ لفظوں کی کیمسٹری تک جانتے ہیں: گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے وہاں پروفیسر عبدالرحیم‘ ڈاکٹر اشتیاق ‘ پرویز اشرف اور دوسرے موجود تھے۔ ظاہر ہے ادب پر بات چل نکلی۔ محفل کشت زعفران بنی رہی ۔ پروفیسر اشرف بینائی سے محروم ہیں مگر ہمارے دوست تیمور حسن تیمور کی طرح ان کی ادب اور شاعری پر دسترس ہے انہوں نے ایک شعر کا تذکرہ کیا جو کبھی میں نے جنرل حمید گل کے لیے لکھا بلکہ ان کی طرف سے کہا تھا: یہ کیا ہوا کہ اک مرے مرنے کی دیر تھی یک دم ہی جی اٹھے مرے دشمن مرے ہوئے محفل کی دوسری باتیں میں اٹھا رکھتا ہوں۔ پھر کبھی سہی۔ اس وقت میرا دل چاہتا ہے کہ جمیل احمد عدیل کی کتاب تفرید سے ان کا ایک مضمون غزل سے مختصر سی ہم نشینی زیر بحث لایا جائے۔ اگرچہ عدیل صاحب ایک مستند اور معروف افسانہ نگار ہیں۔ مگر اردو کے ایک جید استاد ہونے کے ناتے ان کی نظر اردو شاعری پر بھی ہے مجھے جس بات نے متاثر کیا وہ ان کا حسن انتخاب ہے یہ سب میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ فہرست شعرا میں میرے بھی پورے تین عدد شعر درج ہیں میں تو اساتذہ کی بات کروں گا۔ انہوں نے آغاز میر خسرو کی مشہور غزل سے کیا کہ اردو غزل کی بنیاد ایسے ہی رکھی گئی تھی: زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں دیکھیے اس میں فارسیت کے ساتھ اردو کی چھوٹ ضرور پڑتی ہے چلیے ترجمہ بھی کر دیتے ہوں کہ مجھ غریب کے حال سے اجنبیت نہ برتو یعنی آنکھیں چرا کر اور باتیں بنا کر اب تو ہجر سہنے کی سکت نہیں۔ آپ مجھے کیوں سینے سے نہیں لگا لیتے۔ آئین غزل خوانی میں بہت کچھ ہے جمیل احمد عدیل نے امیر خسرو لے کر ولی دکنی اور پھر عہد حاضر تک بڑی ہنر مندی سے دبستانوں کا تذکرہ کیا ہے۔ مگر یہاں میرا مقصد آپ کو اردو شاعری یا غزل کی تاریخ پڑھانا نہیں بلکہ کچھ اچھوتے اشعار کا تذکرہ کرنا ہے کہ آپ ذرا تازگی محسوس کریں۔ ذرا ولی دکنی کا شعر دیکھیے: ولی اس گوہر کان حیا کی کیا کہوں خوبی میرے گھر اس طرح آتا ہے جیوں سینے میں راز آئے آپ ایک معروف اور زبان زدعام مصرع پڑھتے رہے ہونگے یہ شعر میر درد کا ہے: وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا میں نے قصداًٰ ایسا کیا ہے کہ سودا و میر یا غالب و اقبال کے اشعار چھوڑ دیئے ہیں مومن اور داغ کے اشعار بھی تو ضرب المثل بن چکے۔آپ حفیظ کا انداز دیکھیے: ذوق نگاہ کے سوا شوق گناہ کے سوا مجھ کو بتوں سے کیا ملا مجھ کو خدا نے کیا دیا ایک شعر حیدر علی آتش کا کہ اس کا ایک مصرع آپ کو بھی آتا ہو گا: سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اب کچھ اپنے دوست کے حوالے سے کہ سید محور عباس لکھتے ہیں: ہم تو اسے بھی نہیں بھولے کہ جس کے بال اس عمر میں بھی گھنے ہیں جس کا رنگ ایسا ہے کہ جیسے دودھ میں شہد ملا دیا گیا ہو۔ جس کی آنکھوں میں معصومیت کا سمندر ابھی بھی نظر آتا ہے جس کی دلکش مسکراہٹ پر صنف مخالف کا فدا ہونے کو دل چاہے جو دھیمے لہجے میں بولتا ہے اور اپنی تعریف پر شرما جاتا ہے۔ میں سید کی تائید کئے بغیر کیا کہہ سکتا ہوں وہ سچ مچ جمیل ہیں ایک مرتبہ انہوں نے میرے میگزین کے لئے اپنا افسانہ بھیجا اصل میں میگزین میں وہ صفحہ صرف خواتین کے لئے تھا ظاہر ہے میں نے انہیں بتایا کہ اس صفحہ پر صرف خواتین چھپتی ہیں مگر آپ یہاں بھی چل جائیں گے۔ وہ خود بھی تو بلا کے فقرے باز ہیں۔ ایک مرتبہ ہم اکٹھے بیٹھے تھے کہ ہمارا دوست راجہ نیئر آ گیا اور انتہائی افسردہ نظر آیا ۔تشویش ہوئی تو اداسی کا سبب پوچھا کچھ دیر بعد آہ بھر کر بولا یار میں نے اپنی کتاب میں چار لوگوں کا ذکر کیا تھا پہلے ظہور احمد دوسرے خادم چشتی ‘ یہ دونوں فوت ہو چکے پھر خاموش ہو گیا پھر بولا تیسرا ذکر ابا جان کا ہے جمیل احمد عدیل بات کہنے لگا یار تیرا والد تو اس دن ہی مر گیا تھا جس دن تو پیدا ہوا تھا چوتھے آدمی کا نام بتائو وہ کالم نگار بھی کمال کا ہے ایک جگہ لکھا قائم علی شاہ جس پر موت حرام ہے۔ کوٹ کروں تو کالم کم پڑ جائے گا۔ اس کے کالم ادب پارے ہوتے ہیں مگر اس کی بے نیازی پر حیرت ہوئی ایک شعر کے ساتھ اجازت: حافظ و غالب و اقبال سے محبت ہے ہمیں ہم وہی لوگ ہیں جو اپنے زمانے کے نہیں