وزیر اعظم عمران خاں نے کہا ہے کہ ملک میں فیکٹریاں اور روزگار کے مواقع بند نہیں کریں گے‘ یورپ اور انگلینڈ کی طرح مکمل لاک ڈائون بھی نہیں ہو گا۔ دوسری جانب پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر میں تیزی آ گئی اور جولائی کے بعد پہلی مرتبہ ایک روز میں کیسز کی تعداد 3ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ سابق وفاقی وزیر سمیت مزید 59افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ کورونا کی دوسری لہر نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ پہلی لہر میں لوگوں نے حکومتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بنا کر خود کو محفوظ بنایا تھا۔ یونیورسٹی‘ کالجز اور سکولز کی انتظامیہ نے بھی حکومت کے ساتھ تعاون کیا جس کے باعث معصوم بچے اس موذی وائرس سے محفوظ رہے۔ ٹرانسپورٹرز، مارکیٹوں اور بازاروں کی انتظامیہ نے بھی ایس او پیز پر عمل یقینی بنایا تھا جس کے باعث خلق خدا بھی بچی رہی۔ لیکن کورونا وائرس کی دوسری لہر جو پہلی لہر سے زیادہ سخت نظر آ رہی ہے۔ اس پر اپوزیشن جماعتوں سے لے کر ٹرانسپورٹر اور تاجروں سمیت ہر کسی نے احتیاط کا دامن چھوڑ رکھا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں علم ہونے کے باوجود عوام کو اکٹھا کر کے انہیں نئی مصیبت میں ڈالنے کے لئے بضد ہیں۔ حالانکہ اپوزیشن جماعتوں میں شامل کئی سیاستدان اس وائرس کا سامنا بھی کر چکے ہیں، انہیں اس کی اذیت کا اندازہ بھی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے محسنین کو آزمائش میں ڈالنے پر کمر بستہ ہیں۔ حکومت نے یونیورسٹیز‘ کالجز اور سکولز میں عام تعطیلات کا اعلان کیا ہے تاکہ بچے محفوظ رہیں لیکن پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کی قیادت بچوں کو سکولز میں لانے پر بضد ہے۔ ہر کوئی صرف اپنے فائدے کا سوچتا ہے،یوں محسوس ہوتا ہے کہ سکولز مالکان کو فیسوں سے غرض ہے انہیں بچوں کی زندگیوںسے کوئی سروکار نہیں۔ ہوٹلز‘شادی ہالز اور ریسٹورنٹ کے مالکان اپنے مالی فائدے کو سامنے رکھ کر عوام کا اکٹھ کرنے میں مگن ہیں۔ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جولائی کے بعد پہلی مرتبہ ایک روز میں کیسز کی تعداد 3ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس وقت فعال کیسز کی تعداد 42ہزار 115تک پہنچ گئی ہے۔ کورونا کی پہلی لہر میں ہسپتالوں میں مریضوں کو جگہ ملتی تھی نہ ہی آکسیجن مہیا تھی کیونکہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا، جس کے باعث حکومت کو کئی اور مقامات پر ہنگامی طور پر انتظامات کر کے مریضوں کو رکھنا پڑا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم نے پہلی لہر میں بہتر انتظامات کر کے اپنے عوام کو اس موذی وائرس سے بچایا تھا جبکہ ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دوسرا مودی سرکار نے لاک ڈائون بھی سخت لگا رکھا ہے، جس کے باعث کئی افراد تو بھوک سے بلک بلک کر موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔ یورپ نے اگر مکمل لاک ڈائون کیا ہے تو وہ اپنے عوام کو گھروں میں بٹھا کر ماہانہ پیسے دیتا ہے، جس کے باعث عوام کو کسی قسم کی فکر نہیں۔ بھارت میں پہلے ہی غربت انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ سخت لاک ڈائون نے عوام کی زندگی دوبھر کر رکھی ہے۔ پاکستان نے جب سخت لاک ڈائون کیا تھا ،تب بھی غریب اور دیہاڑی دار لوگ روٹی کو ترس گئے تھے جس کے بعد حکومت نے حالات کی نزاکت کا انداز کر کے فی الفور پابندی ہٹائی تاکہ دیہاڑی دار لوگ روزی روٹی کما سکیں۔ دوسری لہر نے جب ایک بار پھر پورے ملک میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کی تو حکومت نے صرف ان علاقوں میں لاک ڈائون کیا جہاں سے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے غریب آدمی کو نقصان نہیں ہو گا اور ان کے گھروں میں چولہے چلتے رہیں گے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ چکا ہے جبکہ ان کے سٹاف کے کئی افراد بھی اس وائرس کی زد میں ہیں۔ انہیں اس کی اذیت کا اندازہ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کر کے عوام کو ملتان کے جلسے میں آنے کی دعوت دی ہے۔ آپ گھر میں محفوظ بیٹھ کر ویڈیو خطاب کرینگے جبکہ عوام پنڈال میں بیٹھ کر اس وائرس سے متاثر ہونگے۔ اپوزیشن لیڈران ایک طرف ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے ہیں، دوسری جانب ووٹرز کو موت کی وادی میں دھکیلنے سے گریز نہیں کر رہے جو باعث افسوس ہے۔ حکومت کو اپوزیشن کے مقابلے میں عوام کو آگاہ کرنا چاہیے کہ وہ لیڈران کے بہکاوے میں نہ آئیں اور جب تک وائرس کی شدت موجود ہے تب تک جلسوں کا بائیکاٹ کر دیں۔ اگر لیڈران گھروں میں بیٹھ کر ویڈیو خطاب کرینگے تو آپ بھی گھروں میں بیٹھ کر لیڈران کا خطاب سن لیں لیکن موت کی وادی میں جانے سے گریز کریں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر میں فیکٹریاں اور روزگار کے مواقع بند نہ کرنے کا اعلان کیا ہے ،جو قابل تحسین ہے۔ کیونکہ اگر آپ ملک میں لاک ڈائون کرتے ہیں، تو اس سے ایک بار پھر غریب لوگ پس جائیں گے، نچلا اور متوسط طبقہ پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے۔ اگر لاک ڈائون ہو گیا تو پھر اس کے مسائل اور بڑھ جائیں گے، اس لئے عوام سے بھی گزارش ہے کہ وہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑیں۔ کیونکہ ہم احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہی اس موذی وائرس پر قائو پا سکتے ہیں۔اگر عوام نے اب بھی بے احتیاطی کی تو پھر کورونا کی دوسری لہر جس کی شدت پہلے کی نسبت زیادہ اس سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا ۔