فیصل آباد سے روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس کے تناظر میں ڈیڑھ لاکھ سے زائدشناختی کارڈں کو بلاک کر دیا گیاہے اور بلاک کئے جانے والے شناختی کارڈرکھنے والے افراد کو نادرا دفاتر میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نادرا کا قیام 21 سال پیشتر 1998ء میں عمل میں آیا تھا، تب سے اب تک اس کی کارکردگی بہت سی شکایات کے باوجود عمومی طور پر بہتر رہی ہے تاہم شناختی کارڈوں کے اجراء کے ضمن میں کچھ ایسے سقم ضرور موجود ہیں جو نہ صرف قابل اصلاح ہیں بلکہ ان پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاری شدہ شناختی کارڈوں کی ازسرنو تصدیق کے دوران ایک لاکھ 52 ہزار سے زائد ایسے شناختی کارڈ سامنے آئے ہیں جو مشکوک نوعیت کے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کارڈوں کو محض بلاک کرنے کی بجائے یکسر منسوخ کیا جائے۔ ایسے کارڈ ہولڈرز کی شہرت اور تمام کوائف کا ازسرنو جائزہ لے کر انہیں نئے شناختی کارڈ جاری کئے جائیں اور نادرا کے عملہ کے جو افراد ان کارڈز کے اجراء میں ملوث ہیں ان کے خلاف محکمانہ انکوائری کرکے کارروائی کی جائے کیونکہ مشکوک یا جعلی شناختی کارڈزعملہ کے ملوث ہوئے بغیرجاری نہیں ہو سکتے۔ علاوہ ازیں خواجہ سرائوں کو شناختی کارڈز کے حصول میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں دور کیا جانا چاہئے۔ تاہم اس سلسلہ میں ضروری جملہ کوائف اورطبی رپورٹس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے تاکہ اس کی آڑ میںبعد ازاں کسی قسم کی قانونی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے اور جعل سازی کی روک تھام ہو سکے۔