ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019-20ء میں مہنگائی کی شرح 10.74فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے پہلے ہی عام آدمی کی زندگی جہنم بنا رکھی تھی کہ رہی سہی کسر کورونا کی وبا کے باعث کاروبار کی بندش نے نکال دی۔ گزشتہ 4ماہ سے صنعتیں اور کاروبار بند ہونے سے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ لارج سکیل مینو فیکچرنگ کمپنیوں میں سے 60فیصد سے زائد کمپنیاں لاک ڈائون میں مکمل بند رہیں باقی اداروں نے کارکنوں کی بڑی تعداد کو بغیر تنخواہ کے جبری چھٹی پر بھیج دیا تھا جس کی وجہ سے لاکھوں گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے۔ کورونا کے علاوہ بھی حکومت روپے کی قدر میں 35فیصد سے زائدکمی کر چکی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے۔ ان حالات میں مہنگائی بالخصوص غذائی اجناس میں اضافہ غریب آدمی کو خودکشی پر مجبور کر رہا ہے۔ ادارہ شماریات کی ہی رپورٹ کے مطابق جون میں سالانہ بنیادوں پر آلو 72فیصد دال مونگ 71فیصد ماش 46فیصد اور انڈے 44فیصد یہاں تک کہ آٹا 24فیصد مہنگا ہوا ہے۔ ستم تو یہ بھی ہے کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ بھی نہیں کیا۔ بہتر ہو گا حکومت اگر تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کر سکی تو کم از کم اشیاء ضروریہ کی ارزاں فراہمی کو ہی یقینی بنائے تاکہ غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی میسر آ سکے۔