سیاسی جماعتوں کی قیادت کے وقت کے ساتھ موقف کی تبدیلی کو محاورے کی زبان میں ’’مگر مچھ کے آنسو‘‘کہہ تو بیٹھا ۔ ۔۔مگر برصغیر پاک و ہند میں یہ چلن کوئی نیا تو نہیں۔ہاں مگر مہذب ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں کم از کم ’’عدلیہ‘‘ایک ایسا ضرور مقدس ادارہ ہوتا ہے جس سے یہ توقع کی جاتی ہے اور جس کے آئینی ہی نہیں اخلاقی فرائض میں بھی شامل ہے کہ وہ سیاست دانوں کی طرح رنگ نہ بدلے۔بات عدلیہ کے حوالے سے محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس سے شروع ہوئی تھی جو اب باقاعدہ ایک منتخب حکومت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ جس نے دہائی پہلے کی چوہدری کورٹ کی بحالی کی تحریک کی یاد دلا دی ہے۔بینچوں میں تو ابھی تک ایک پراسرار خاموشی ہے۔مگر چیختی چلاتی باریں ضرور ہمارے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے شاہراہ دستورپر آکھڑی ہوئی ہیں۔اور تو اورمحترم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ محض بیانوں کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر بھی جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ہونے والی ہر کاروائی پر ڈٹ کر ہر محاذ پر جنگ کریں گے۔بدقسمتی سے وطن عزیز میں عدلیہ خاص طور پر ’’ججوں ‘‘ کے ساتھ جو سلوک اپنے اپنے وقت کی حکومتوں نے کیا اور خود اُس سے بھی زیادہ بدقسمتی یہ کہ جو ہمارے بعض معزز محترم برادر ججوں نے سویلین ،فوجی حکمرانوں کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے شریک ِ سازش ہوئے اُس نے بحیثیت ایک مقدس ادارے کے اسے جو ناقابل تلافی نقصان اب تک پہنچادیا ہے۔۔۔اُس کی ایک ’’قاضی‘‘کے اصولی موقف سے عدلیہ کا کھویا ہوا عزت و وقار بحال نہیں ہو سکے گا۔یہ جو میںنے ن لیگ اور پی پی کی قیادت کے محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں آہ و زاریوں کو مگر مچھ کے آنسوؤں سے تعبیر کیا تھا تو اس کے پیچھے پوری ایک تاریخ ہے۔اور جسے بار بار دہرانے کی اس لئے بھی ضرورت ہے اور جس کا اظہار انہی کالموں میں ، میں ایک سے کئی بار کرچکا ہوں کہ بدقسمتی سے عوام تو چھوڑیں،ہمار ی نام نہاد intelligentsiaاور سول سوسائٹی کی یادداشت بہت کمزور ہے،جو زرداریوں اور شریفوں کو یہ یاد نہیں دلاتے کہ خود انہوں نے 90ء کی دہائی میں اپنی اپنی پہلی اور دوسری حکومتوں میں کس طرح عدلیہ کی بے توقیری اور توہین کی۔لفظی گولہ باری کے بجائے مستند حوالہ کے ساتھ اپنی دونوں مین اسٹریم اپوزیشن جماعتوں کی موجودہ پیڑھی کو یاددلانا چاہتا ہوں اور اس کا اظہار گزشتہ کالم میںبھی کرچکا ہوںکہ تاریخ سیاستداں نہیں مورخ یعنی اپنے وقت کے اہل ِعلم و دانش لکھتے ہیں۔عرصہ ہوا،ہماری عدلیہ کے ایک انتہائی محترم مرحوم چیف جسٹس دوراب پٹیل نے ایک تاریخی کتاب لکھی تھی۔۔۔The Rise and Fall of Judiciaryبدقسمتی سے یہ برسوں سے نایاب ہے۔مگر جتنی بھی تحسین پیش کی جائے کم ہے کہ ہمارے سپریم کورٹ کے سابق صدر اور وزیر اعظم عمران خان کے دور پرے کے کزن حامد خان نے اصلی تہ وڈی تحریک انصاف بحال کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ایک ایسی دستاویز قلمبند کردی ہے۔۔۔جس میں ریاست کا ہر ستون چہرہ دیکھ سکتا ہے۔پہلے بھی معذرت کر چکا ہوں کہ قلم گھسنے والوں کی پرانی روایت کا آدمی ہوں ۔اس لئے نوجوان بلاول بھٹو زرداری کے منہ سے عدلیہ کی بالادستی کے حوالے سے جھڑتے پھولوں کو زیر بحث لانے سے گریز کرتا ہوں۔مگر جب ہمارے عزیز دوست چوہدری اعتزا ز احسن ،فاروق ایچ نائیک ،فرحت اللہ بابر،لطیف کھوسہ جیسے قابل احترام وکلاء کرام بھی ’’عدلیہ‘‘کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت پر سنگ زنی کرتے نظر آتے ہیں۔تو پھر اپنے محترم حامد خان کی کتابConstitutional and Political History of Pakistanکا حوالہ دینا اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ کہیں عدلیہ کے حوالے سے ’’چھوٹا منہ‘‘کی پھبتی سننے کو نہ ملے۔یہ درست ہے کہ 1988میں مسلم دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم اپنے شہید والد کے’’ جوڈیشل مرڈر‘‘کے حوالے سے ذہنی طور پر شدید مغلوبیت کا شکار تھیں۔اور یہ ایک حد تک جائز بھی تھا کہ انہوں نے پھانسی کی کوٹھری میں جیل کی سلاخوں سے چند انچ کے فاصلے سے اپنے والد کی زندگی کو ’’ریاستی جبر‘‘کے ہاتھوں بے بسی سے موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کے ووٹوں سے کامیا ب ہونے کے باوجود فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے وارثان نے ایک دن بھی انہیں وزارت عظمیٰ پہ نہ صرف چین سے نہیں بیٹھنے دیا بلکہ ان کی حکومت کو گرانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے تمام ہی ستونوں نے اپنا اپنا حصہ بقدر ِ جثہ ڈالا ۔اسی لئے جب محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری باراقتدار میں آئیں تو انہوں نے اپنے اقتدار کو مستقل اور مستحکم کرنے کے لئے پہلے مرحلے میں اقتدار کے تین میں سے دو ستونوں پر ’’اپنا‘‘بندہ لابٹھایا۔یعنی صدارت کے منصب پر اپنی ہی پارٹی کے جیالے سردار فاروق خان لغاری ۔اور عدالتی کرسی پر جسٹس سجاد علی شاہ ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کا یہ خیال تھا کہ وطن عزیز میں طاقت کا سرچشمہ جنرل ضیاء الحق کی رخصتی کے بعد جی ایچ کیوکسی اور مہم جوئی کا حصہ بننے کیلئے تیار نہیں ۔ ۔ ۔ یوں اگر ریاست کے بڑے ستونوں یعنی عدلیہ اور ایوان صدر میں ان کے بندے آگئے۔ ۔ ۔ تو مستقبل میں ان کے اقتدار کے لئے راوی چین ہی چین لکھ دے گا۔میں اس وقت اُس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ ضیاء الحقی مارشل لائی دور ضرور چلا گیا تھا کہ مگر افغان جنگ کے دوران اسلام آباد میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ایک گروہ اس دوران اتنا سرکش اور خود سر ہوچکا تھا کہ اُسے یہ زعم تھا کہ اُس کے بغیر اسلام آباد میں ’’پتہ‘‘بھی نہیں ہلتا۔چلیں نام بھی لکھ دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل ،جنرل اسد درانی ،بریگیڈیئر امتیاز عرف بلّا اورمیجر عامر نامی ایک مجاہد صف شکن جو اس خبط میں مبتلا تھے کہ روس کو افغانستان میں شکست دینے کے بعد دراصل وہی اس بدقسمت ملک کے سیاہ و سفید کے مالک اور مختار ہیں۔ (جاری ہے) سویلین کپڑوں میں جو بھی اقتدار میں بیٹھا ہے یا اُس کا خواہشمند ہے ۔ ۔ ۔ اُسے سب سے پہلے اُن کے حضور سجدہ ریز ہو کر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا لازمی شرط ہوگا۔یہ لیجئے ، میں بھٹکتا ہوا آگے نکل گیا۔ذکر وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار کا تھا کہ جس میں’’صدر‘‘لانا ان کا جمہوری حق تھا مگر ’’عدلیہ‘‘ میں انہوں نے براہ راست مداخلت کر کے ایک بار پھر معذرت کے ساتھ خود اپنے اقتدار کے تابوت میںپہلی کیل ٹھونکی۔ ۔ ۔ سینارٹی کے اعتبار سے محترم جسٹس سجاد جان کو چیف جسٹس ہونا تھا۔اُس کے بعد جسٹس اجمل میاں کا نام آناتھا۔مگر ان دونوں کے ماضی کے فیصلوں سے وزیر اعظم بھٹو خوش نہیں تھیں۔اُن کے مقابلے میں کم از کم ’’دوبار کراچی کے لیاری‘‘ سے تعلق رکھنے جسٹس سجاد علی شاہ کم از کم دو مقدموں میں اُن کے ساتھ کھڑے تھے۔اس دوران ’’ججز‘‘کیس کا فیصلہ بھی آچکاتھا۔جس میں ’’سینارٹی ‘‘کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔مگر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے میرٹ کو ڈسٹ بِن میں ڈال کر ہمارے شریف النفس سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس کی اعلیٰ کرسی پر بٹھا دیا۔اور پھر المیہ یہ ہے کہ جب وزیر اعظم بھٹو کے شوہر محترم آصف علی زرداری نے براہ راست امور مملکت خاص طور پر ’’عدلیہ‘‘میں دخل اندازی شروع کردی تو سب سے پہلے اُن کا اپنا جیالا صدر باغی ہوا۔چیف جسٹس سجاد علی شاہ بہر حال ایک اصولی آدمی تھے ۔نوے کی دہائی کے پہلے عشرے میں یہ ایک بڑا ہنگامہ خیز ٹکراؤ تھا۔جس کا فائدہ تو پھر شریفوں اور ان کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ کو تو ہونا ہی تھا۔پیپلز پارٹی کی عدلیہ سے محاذآرائی ایک طویل قصہ ہے۔جو ایک دو کالموں میں نہیں سمیٹا جاسکتا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ پی پی ہو یا ن لیگ یا پھر جمعہ ،جمعہ اقتدار کے دس ماہ مکمل کرنے والی تحریک انصاف کوئی بھی آزاد عدلیہ کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتی کہ اس سے اُن کے ذاتی اور جماعتی مفادات پر ضرب ِ کاری پڑتی ہے۔آئندہ کالم میں ن لیگ کے سپریم کورٹ پر خود کش حملے اور ہاں پی ٹی آئی حکومت کی محترم قاضی صاحب سے لئے جانے والے ’’پنگے‘‘پر بھی تفصیلاً گفتگو ہوگی۔