سویلین کپڑوں میں جو بھی اقتدار میں بیٹھا ہے یا اُس کا خواہشمند ہے ۔ ۔ ۔ اُسے سب سے پہلے اُن کے حضور سجدہ ریز ہو کر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا لازمی شرط ہوگا۔یہ لیجئے ، میں بھٹکتا ہوا آگے نکل گیا۔ذکر وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار کا تھا کہ جس میں’’صدر‘‘لانا ان کا جمہوری حق تھا مگر ’’عدلیہ‘‘ میں انہوں نے براہ راست مداخلت کر کے ایک بار پھر معذرت کے ساتھ خود اپنے اقتدار کے تابوت میںپہلی کیل ٹھونکی۔ ۔ ۔ سینارٹی کے اعتبار سے محترم جسٹس سجاد جان کو چیف جسٹس ہونا تھا۔اُس کے بعد جسٹس اجمل میاں کا نام آناتھا۔مگر ان دونوں کے ماضی کے فیصلوں سے وزیر اعظم بھٹو خوش نہیں تھیں۔اُن کے مقابلے میں کم از کم ’’دوبار کراچی کے لیاری‘‘ سے تعلق رکھنے جسٹس سجاد علی شاہ کم از کم دو مقدموں میں اُن کے ساتھ کھڑے تھے۔اس دوران ’’ججز‘‘کیس کا فیصلہ بھی آچکاتھا۔ جس میں ’’سینارٹی ‘‘کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔مگر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے میرٹ کو ڈسٹ بِن میں ڈال کر ہمارے شریف النفس سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس کی اعلیٰ کرسی پر بٹھا دیا۔اور پھر المیہ یہ ہے کہ جب وزیر اعظم بھٹو کے شوہر محترم آصف علی زرداری نے براہ راست امور مملکت خاص طور پر ’’عدلیہ‘‘میں دخل اندازی شروع کردی تو سب سے پہلے اُن کا اپنا جیالا صدر باغی ہوا۔چیف جسٹس سجاد علی شاہ بہر حال ایک اصولی آدمی تھے ۔نوے کی دہائی کے پہلے عشرے میں یہ ایک بڑا ہنگامہ خیز ٹکراؤ تھا۔ جس کا فائدہ تو پھر شریفوں اور ان کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ کو تو ہونا ہی تھا۔پیپلز پارٹی کی عدلیہ سے محاذآرائی ایک طویل قصہ ہے۔جو ایک دو کالموں میں نہیں سمیٹا جاسکتا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ پی پی ہو یا ن لیگ یا پھر جمعہ ،جمعہ اقتدار کے دس ماہ مکمل کرنے والی تحریک انصاف کوئی بھی آزاد عدلیہ کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتی کہ اس سے اُن کے ذاتی اور جماعتی مفادات پر ضرب ِ کاری پڑتی ہے۔آئندہ کالم میں ن لیگ کے سپریم کورٹ پر خود کش حملے اور ہاں پی ٹی آئی حکومت کی محترم قاضی صاحب سے لئے جانے والے ’’پنگے‘‘پر بھی تفصیلاً گفتگو ہوگی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنسز کے بیچ ہنگام میں سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری نے جو دھماکہ خیز صورت حال پیدا کی ہے،اُس میں ’’بجٹ‘‘سمیت ساری بریکنگ نیوز پس منظر میں چلی گئی ہیں۔گو ہمارے محترم آصف علی زرداری کی گرفتاری کوئی اتنی غیر متوقع نہیں تھی۔ہفتہ بھر پہلے ایک باخبر رپورٹر نے اپنے کالم میں انتہائی تفصیل سے یہ خبر بریک کردی تھی کہ عید سے پہلے جو نیب میں سابق صدر آصف علی زرداری کی پیشی ہوئی تھی اُس میں ان کی ضمانت کی منسوخی اور گرفتاری کے ساتھ نیب کی جس حوالات میں انہیں رکھا جاتا تھا وہاں پر دی جانے والی سہولیات کی جزیات تک کالم میں بیان کردی گئی تھیں۔مگر اب پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کئے جانے سے صرف 24گھنٹے پہلے۔ ۔۔سابق صدرآصف علی زرداری کو گرفتار کرنا بظاہر تو آبیل مجھے مار کے مترادف قرار دیا جائے گا۔مگر اسلام آباد کے سیاسی اور صحافتی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اسکرپٹڈ تھا کہ ہمارے محترم آصف علی زرداری کی گرفتاری تو طے تھی ۔ صبح ہوتی یا شام۔مگر اسکرپٹ لکھنے والوں نے بجٹ سے صرف ایک دن پہلے پی پی کے قائد سابق صدر آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ ’’بجٹ‘‘ سے جو مہنگائی اور ٹیکسز کا بم گرنے جارہا ہے،اُس کی گونج کم کرنے کے لئے محترم آصف علی زرداری کی گرفتاری کی خبر ایٹم بم کا کام دے گی۔اسکرپٹ لکھنے والوں کے مطابق پھر یہ ہوا بھی۔سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے ساتھ قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کی لندن سے واپسی بھی کم دھماکہ خیز نہ تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت کے سارے سرخیل کو رس کی صورت میں یہ الاپ لگا رہے تھے کہ ’’چھوٹے‘‘ شریف کو اب واپس نہیں آنا۔مگر ہمیشہ سے سیاسی طور پر جذباتیت سے مغلوب ،ہمارے خان صاحب کی حکومت کو ’’جھوٹا‘‘ثابت کرنے کے لئے چھوٹے شریف واپس وطن پلٹ آئے۔اور اب باخبر ذرائع خبر دے رہے ہیں کہ چھوٹے بھائی جلد بڑے بھائی سے اڈیالہ جیل میں جا ملیں گے۔اپوزیشن کے تین بڑوں کے جیل جانے کے بعد کیا poorمریم نواز ،بلاول زرداری اور ہاں ہمارے ہمیشہ کے غصیلے اسفندیار ولی خان اور بغض میں انتقام کی حدوں کو چھونے والے مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف اتنی بڑی تحریک چلانے میںکامیاب ہوجائیں گے کہ جس سے تحریک انصاف کی حکومت اگر نہ بھی گرے تو اس کی کم سے کم چوُلیں ہل جائیں۔اپوزیشن کی تحریک کے حوالے سے زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کروں گامگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں جتنی بھی حکمراں جماعت کے خلاف تحریکیں چلی ہیں،یا پھر منتخب حکومتوں کو راتوں رات گھر بھیجا گیا ہے،پی پی کے بانی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مارچ 1977ء میں جو نظام ِ مصطفی کے نام پر پاکستان قومی اتحاد کی تحریک چلی ،اُس پر تو اب درجنوں کتابیں آچکی ہیں۔جنرل ضیاء الحق جس حادثاتی موت کا شکار ہوئے اُس میں بھی کتنے خفیہ ہاتھوں اور چہروں نے اپنا حصہ ڈالا ۔ اُس پر لکھی جانے والی کتابوں اور دستاویزوں کی تعداد بھی سینکڑوں نہیں تو درجنوں میں ضرور ہے۔پھر نوے کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے جو ایک دوسرے کی حکومتوں کو ایک نہیں دو دو بار گرانے میں جس طرح معروف معنوں میں اسٹیبلشمنٹ کیلئے استعمال ہوئے اُس پر ہمارے سابقہ جنرلوں ،ججوںاور سیاستدانوں نے اپنی تصانیف کو مستقبل میں مورخوں کے لئے محفوظ کردیا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کا آنا اورگرنا۔اور پھر پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں کی باری لگانے کے بعد نئے پاکستان کا خواب دکھانے والے وزیر اعظم عمران خان کے 2014ء کے دھرنے میں جو ’’امپائر ‘‘کا جو متنازعہ کردار سامنے آتا رہا،اُس کی بہت زیادہ تفصیل میں اس لئے نہیں جاؤں گا کہ یہ حال کی تاریخ ہے۔ جولائی 2018ء کے الیکشن کس حد تک صاف و شفاف تھے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت کی صورت میں ایک تیسری قوت سامنے آئی اس پر اس لئے سوال نہیں اٹھایا جاسکتا کہ ،تین دہائی تک اسلام آباد پر راج کرنے والی دو جماعتوں یعنی شکست خوردہ پی پی اور ن لیگ،کی چیخیں اتنی اونچی نہیں تھیں کہ جو خود اُن کے حامیوں کو سڑکوں پر لے کر آتیں۔ہمارے محترم عمران خان کی حکومت کو بہر حال تمام اسٹیک ہولڈروں نے تسلیم کیا۔ خاص طور پر معروف معنوں میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی۔اس لئے شریفوں کے بعدجو زرداریوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے،وہ غیر متوقع نہیں کہ اگر وزیر اعظم عمران خان اپنے سب سے بڑے نعرے یعنی ’’چوروں ،ڈاکوؤں‘‘کو اُن کے انجام تک نہیں پہنچاتے تو خود ان کی حکومت کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جائے گاکہ ’’کرپشن‘‘ کے نعرے کے علاوہ ہمارے خان صاحب کے پاس بیچنے کے لئے کوئی دوسرا سودا بھی نہیں ہے۔ 22سال کی جد و جہد میں جو انہوں نے’’ صاف و شفاف ‘‘ٹیم تیارکی تھی وہ تو خیر سو دن سے پہلے ہی ناکام ہوگئی۔مہنگائی کے ہاتھوں جو عوام کی معروف اصطلاح میں ’’چیخیں‘‘نکل رہی ہیں۔۔۔اُسے تھپکی دے کر کم کرنے کا ایک ہی طریقہ اور راستہ رہ جاتا تھا جس پر اس وقت ہمارے خان صاحب کی حکومت عمل کر رہی ہے۔یعنی شریفوں اور زرداریوں سمیت کرپٹ اشرافیہ سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لینا اور انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالنا ۔ ۔ ۔ مگر بصد احترام ، وزیر اعظم عمران خان کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ ’’کرپشن‘‘کا سودا وہ جتنا بیچ لیں۔ ۔ ۔ سال نہیں تودو سال بعد انہیں ’’معاشی میدان ‘‘ میں بہر صورت deliverکرنا ہوگا۔مگر ہاں۔ ۔ ۔ وہ جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے عدلیہ کا باب کھول بیٹھا تھا ،وہ تو ادھورا ہی رہ گیا۔ ۔ ۔ چلیں، اسے آئندہ کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)