گزشتہ چار سال میں ہندوستان کے برآمدی شعبے میں اوسط شرح ترقی کیا رہی ہے؟ 0.2 فی صد۔ 2010 ء اور 2014ء کے درمیان عالمی برآمدات سالانہ 5.5 فی صد کی شرح سے بڑھ رہے تھے، پھر سال بہ سال انڈیا کی بر آمدات 9.2 فی صد کی شرح پر بڑھتے گئے۔ وہاں سے ہم گھٹتے ہوئے 0.2 فی صد پر آچکے ہیں۔ یہ میرا تجزیہ نہیں ہے۔ سنیل جین ایڈیٹر، فنانشل ایکسپریس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین نے-18 2014ء کے درمیان سالانہ 1.5 فی صد کی شرح پر بڑھوتری درج کرائی۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ویتنام اس شعبے میں تیزی سے اپنا مقام بنارہا ہے۔ ویتنام کی برآمدات سالانہ 13 فی صد کی شرح سے بڑھ رہی ہیں۔ 1990ء میں ویتنام ہندوستان کی برآمدت کا محض 13 فی صدبرآمد کرپایا تھا۔ آج ویتنام کی برآمدات ہندوستان کی برآمدات کا 75 فی صد ہیں۔ ہندوستان کے مقابل ویتنام کافی چھوٹا ملک ہے۔ سنیل جین لکھتے ہیں کہ ویتنام برآمدات کے معاملے میں جلد ہی ہندوستان کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ جب چین نے اعلیٰ قدر کی اشیاء کے شعبے میں اپنا مقام بنانے کیلئے ٹیکسٹائل سیکٹر پر توجہ گھٹا دینے کا فیصلہ کیا، تب بنگلہ دیش اور ویتنام تیزی سے آگے آئے تاکہ خلا کو پْر کرسکیں۔ اگر آپ نے بزنس کی نیوز پڑھی ہوگی تو ضرور نوٹ کیا ہوگا کہ کئی سال قبل مودی حکومت نے شعبہ پارچہ جات کیلئے 6,000 کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ مگر ہندوستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر تاحال سنبھل نہیں پایا ہے۔ ٹیکسٹائل ، روزگار فراہم کرنے والے شعبوں میں شامل رہا ہے۔ جون 2016ء میں پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے مودی کابینہ نے کہا تھا کہ اگلے تین برسوں میں یعنی 2019ء تک 1 کروڑ ملازمتیں اس سیکٹر میں پیدا کی جائیں گی اور 75,000 کروڑ روپے کا سرمایہ لگایا جائے گا۔ آپ کو حقیقت جاننے پر مایوسی کا احساس ہوگا۔ فنانشل ایکسپریس نے ایک اور نیوز شائع کی ہے۔ اپریل تا جون کے پہلے سہ ماہی کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلب ماند پڑچکی ہے اور نفع ’انڈا‘ (0) ہوچکا ہے۔ 2,179 کمپنیوں کے منافع میں 11.97 فی صد تک گراوٹ آئی ہے، کیونکہ فروخت میں صرف 5.87 فی صد کا اضافہ ہوا، جو معمولی ہے۔ اس کا اثر اشتہارات پر پڑے گا۔ اشتہارات میں کمی کے سبب ہر قسم کے چینلوں میں تخفیف آرہی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں؟ چائنا کے موبائل مینوفیکچررز بین الاقوامی کشیدگیوں کے سبب کسی کم جوکھم والے علاقے کے متلاشی ہیں۔ اس کیلئے ویتنام تیار بیٹھا ہے۔ 2010ء سے انڈیا کے موبائل برآمدات میں تیزی سے گراوٹ جاری ہے اور ویتنام کی برآمدات میں 21 گنا اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں اسمارٹ فون کے بزنس کی قدر 300 بلین ڈالر ہے۔ اس کا 60 فی صد حصہ چین کے پاس ہے۔ ویتنام کا اس گلوبل برآمدات میں حصہ بڑھ کر 10 فی صد ہوچکا ہے، جبکہ انڈیا کا حصہ قابل نظرانداز ہے۔ 2010ء میں ویتنام نے ہندوستان کے مقابل صرف 4 فی صد موبائل فون تیار کئے تھے۔ آج ویتنام کی کیا پوزیشن ہے اور ہندوستان کہاں پر ہے؟ اب ہندوستان میں زیادہ تر موبائل فون تیار نہیں کئے جاتے، بلکہ جوڑے (assembling) کیے جاتے ہیں۔ یہی رجحان رہا تو مستقبل میں کل پرزے درآمد ہوں گے اور پھر فون یہاں پر مشترکہ طور پر بنایا جائے گا۔ موبائل کے اجزاء کی امپورٹ خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس ویتنام میں 10 تا 20 فی صد ہے جبکہ انڈیا میں یہ شرح 43.68 فی صد ہے۔ مودی حکومت معاشی محاذ پر ناکام حکومت ہے۔ یہ اس کا چھٹا سال ہے۔ ایسا کوئی بھی شعبہ نہیں جسے حکومت اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرسکے۔ صنعت ِ پارچہ جات کی حالت خراب ہے۔ آپ مشاہدہ کررہے ہوں گے کہ موبائل اور آٹوموبائل میں جمود ہے۔ بینکوں کے مسائل عروج پر ہیں۔ بے شک، مودی حکومت سیاسی طور پر کامیاب حکومت ہے۔ بے روزگاری جیسے مسائل پر اس کی آڑ میں چھپ گئے ہیں۔ نوٹ بندی جیسا بوگس اقدام بھی مودی حکومت کی سیاسی کامیابی میں پوشیدہ ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن ہار جانے کے بعد اپوزیشن کے کئی گوشے ’اپنے روزگار‘ کی تلاش میں بی جے پی کا رْخ کررہے ہیں۔ اپوزیشن کو معلوم ہے کہ اگر اپنی سیاست کو بچانا ہے تو بی جے پی کی طرف چلے جائیں کیونکہ ’’عوام تو نوکریوں، پنشن اور بچتوں سے محروم ہونے پر ہی بی جے پی کو ووٹ دیں گے!‘‘ میں نے خود دیکھا اور سنا ہے کہ عوام مودی حکومت کے بارے میں بات تک نہیں کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنی ملازمتیں کھوچکے ہیں اور کوئی متبادل حاصل نہیں ہورہا ہے۔ صرف کوئی ’لیڈر‘ ہی ایسی سیاسی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا، بے روزگاری کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے! نوٹ : کیا آپ کو ہندی اخبارات میں اس طرح کی خبریں ملتی ہیں؟ آپ چاہے کسی کو ووٹ دیں، لیکن ان خراب ہندی اخبارات کو پڑھنا جلد از جلد ترک کردیں۔ وہ آپ کو آگے لے جانے کی قابلیت سے محروم ہیں۔ اْن کے ایڈیٹرز اب ’مودی‘ کا حصہ بن چکے ہیں۔ معلومات حاصل کرنا ہوں تو کچھ زحمت اٹھائیں، اِدھر اْدھر گھوم پھر کر دیکھیں، کیونکہ صحیح مواد گھٹتا جارہا ہے۔ کہیں کہیں آپ کے پاس کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ بعض ہندی اخبارات اور چینلوں سے چوکنا رہیں۔ اْن کے ذریعے ہندوستان کی جمہوریت برباد کی جارہی ہے۔ آج سے دس سال بعد شاید آپ کو اس آرٹیکل پڑھنے کے بعد رونا پڑے گا۔ لہٰذا، آج ہی بچاؤ کے کام کرلیں۔ (بشکریہ ،سیاست ،دہلی)