ادارہ شماریات نے گزشتہ ایک برس کے دوران روز مرہ استعمال اور اشیائے خورو نوش کے نرخوں میں ہونے والے اضافے سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال کے دوران 20کلو گرام آٹے کا تھیلا 844روپے سے بڑھ کر 1048روپے کا ہو گیا۔ جولائی 2019ء سے جون 2020ء تک ٹماٹر کی قیمتوں میں 27روپے‘ سرخ مرچ109روپے‘ مرغی 39روپے فی کلو مہنگی ہوئی۔ گڑ کی ایک سال کے دوران قیمت 20روپے فی کلو بڑھی۔ دالوں کے نرخوں کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دال مونگ 92روپے‘ دال ماش68‘ دال مسور34‘ دال چنا 10روپے مہنگی ہوئی۔ مذکورہ ایک سال کی مدت میں چاول 6روپے فی کلو‘ چھوٹا گوشت 80روپے فی کلو اور بڑے گوشت کی قیمت میں 41روپے فی کلو کا اضافہ ہوا۔ ہر گھر کی روزانہ ضرورت تصور کئے جانے وائے دودھ کی فی کلو قیمت میں 7روپے کا اضافہ‘ گھی 50روپے‘ دہی 10روپے اور چائے کے 190گرام کے ڈبے کی قیمت میں 19روپے کا اضافہ ہوا۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ میں گیس کے نرخوں میں 54فیصد اضافے اور تعمیراتی سامان 12فیصد مہنگا ہونے کا بتایا گیا ہے۔یہ رپورٹ اس لحاظ سے توجہ طلب ہے حکومت قیمتیں کم کرنے کے لئے تگ و دو کرتی رہی ہے وزیر اعظم عمران خان اپنی ہر تقریر میں افلاس زدہ طبقات کا ذکر درد مندی کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود قیمتوں میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ نرخ مقرر کرنے‘ طلب و رسد اور نگرانی کے نظام میں خرابیاں شدت پکڑ چکی ہیں۔ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی چند وجوہات رہی ہیں۔ ایک وجہ یہ کہ پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے قیمتیں بڑھ جائیں۔ عموماً اس اصول کا زیادہ تر اطلاق صنعتی پیداوار پر کیا جاتا ہے۔ بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھنے کے باعث اشیا کی قیمت بڑھ جاتی ہے‘ دوسری وجہ خام مال‘ بیج‘ نقل و حمل اور مزدوری کے اخراجات میں اضافے سے اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ مارکیٹ میں طلب و رسد کا توازن تبدیل ہونے سے بھی نرخ بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں عموماً خام مال‘ بجلی‘ تیل اور گیس کے نرخوں میں طویل عرصے تک استحکام نہیں رہتا اس لئے ہر پندرہ روز یا ایک ماہ کے بعد ان کی قیمتوں میں تبدیلی روز مرہ استعمال کی اشیا کے نرخوں کو عدم استحکام کا شکار بنائے رکھتی ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں لگ بھگ 60فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان صنعتی اور زرعی شعبے کے لئے تیل و گیس درآمد کرتا ہے‘اناج ‘سبزیوں اور دالوں کا کچھ حصہ درآمد کیا جاتا ہے جبکہ کچھ کے بیج اور زرعی ادویات درآمد کی جاتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے درآمدات اور برآمدات کے درمیان حائل بہت بڑے فرق کو کم کرنے کی کوشش کی اس کوشش میں حکومت درآمدات کو 4ارب ڈالر تک کم لانے میں کامیاب ہو چکی ہے جبکہ برآمدات میں معمولی سہی مگر اضافہ حوصلہ افزا ہے۔ ان کم ہوئی درآمدات کا تعلق مشینری اور سی پیک سے متعلق ٹیکنالوجی سے تھا‘ کچھ ہارٹیکلچر مصنوعات بھی پابندی کی زد میں آئیں ۔تیل کی قیمتیں رواں برس کورونا کی وجہ سے انتہائی نچلی سطح پر آ گئیں۔ تیل نرخوں میں اس کمی کا اثر پیداواری اور زرعی شعبے کی خوشحالی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا تھا لیکن ملک میں ایسے کاروباری کارٹلز سرگرم ہیں جو اشیا کے نرخ مقرر کرنے کے حوالے سے حکومتی اتھارٹی کو مسلسل چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ مہنگائی کی عمومی ایک وجہ آمدن اور اخراجات کے درمیان بڑھتا ہوا فرق ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر سال خسارے کے بجٹ پیش کرتی ہیں۔ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے قرض لئے جاتے ہیں اور اب یہ قرض 100ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے دو سال کے دوران 25ارب ڈالر کے لگ بھگ بیرونی قرض کی اقساط ادا کرنے کے لئے نئے قرضے لئے ہیں۔ اس صورت حال میں آمدن کا بڑا حصہ قرض کی ادائیگی پر خرچ ہو جائے تو بجلی‘ ٹرانسپورٹ اور تیل کے لئے سبسڈی کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔ مسلسل مہنگائی میں اضافے سے حکومت اور سماج دونوں کے لئے مشکلات بڑھی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے بعد مائیکرو اکنامکس کو بہتر کرنے والی سکیمیں متعارف کرائیں۔ ان سکیموں پر اپوزیشن نے مرغی اور کٹا سکیم کا طنز کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں ایسے گھرانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جن کا اثاثہ ایک بکری کی قیمت جتنا بھی نہیں۔ حکومت ایسی سکیمیں جاری رکھنے کے ساتھ دالوں‘ چینی‘ آٹا‘ چاول ‘ گھی اور خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفالت کے لئے سکیمیں متعارف کرائے۔ لائیو سٹاک کا شعبہ اب تک قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکا اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف دیکھا گیا ہے کہ چند ماہ میں گندم اور چینی کی وافر موجودگی کے باوجود ان کے نرخ بڑھتے رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی صرف وافر دستیابی ہی ضروری نہیں بلکہ حکومت اور اس کے اداروں کو ایسا موثر نظام تشکیل دینے کی ضرورت بھی ہے جس سے نرخوں پر کنٹرول رہے اور ان کارٹلز اور مافیاز کو سخت سزائیں مل سکیں جو ناجائز منافع خوری کرتے ہوئے شہریوں کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔