وزیر اعظم عمران خان نے باردگر ملک میںمہنگائی کی سطح کم ہونے کا دعویٰ کیا ہے ساتھ ہی اپنی معاشی ٹیم کو چوکنا رہنے اور مہنگائی میں اضافے پر عوام کے تحفظات پر توجہ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پی آئی اور افراط زر تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے پہلے کی سطح پر واپس آ چکے ہیں۔ وزیر اعظم کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن ڈیڑھ ماہ میں تین بار پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ صورت حال کو کسی اور سمت سفر کرتا دکھا رہا ہے اور پھر ماہرین معیشت کا یہ بھی ماننا ہے کہ عام آدمی کو معیشت سے متعلق اعداد و شمار، ملکی قرضوں یا خسارے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ عام آدمی معیشت کو اشیاء ضروریہ کی قیمتوں اور روزگار کے مواقع کے پس منظر میں دیکھتا ہے۔ اگر ماہرین کی اس رائے کو پیمانہ مان لیا جائے تو گزشتہ دور حکومت کے اختتام پر عوام کو آٹا 32روپے اور چینی 52روپے مل رہی تھی جو اب بڑھ کر بالترتیب 55روپے اور 85روپے میں مل رہی ہے۔ جہاں تک روزگار کے مواقعوں کا تعلق ہے تو تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آ کر ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا تھا جبکہ حکومت کی اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2020-21ء کے مطابق ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد 40لاکھ سے بڑھ کر 80لاکھ ہونے کی توقع ہے۔ اس سے مفر نہیں کہ تحریک انصاف نے جب اقتدار سنبھالا تو ملکی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی اور وزیر اعظم عمران خان نے برادر ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہنگامی بنیادوں پر قرض اور ادھار تیل دینے پر آمادہ کر کے ملکی معیشت کو سہارا دیا۔ یہ بھی درست ہے کہ ملکی تجارتی خسارہ جو سابق دور حکومت میں 20ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا تحریک انصاف کے پہلے سال میں کم ہو 10ارب ڈالر اور دوسرے برس صفر رہ گیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت انتظامی غلطیوں کے باعث نا صرف مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی بلکہ حکومتی صفوں میں موجود کچھ عناصر کو مہنگائی بڑھنے کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا رہا۔ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے بعد ملک میں پٹرول کا بحران اور ملکی ضرورت کو دانستہ طور پر نظر انداز کرکے گندم برآمد کرنے کی اجازت دینا اس کی بدترین مثالیں ہیں ۔ گزشتہ برس حکومت کی طرف سے چینی اور گندم برآمد کرنے کی اجازت دینے کی وجہ یہی تھی کہ ملک میں چینی اور آٹے کی قیمتیں گندم اور چینی دوبارہ درآمد کرنے کے باوجود دوگنا ہو گئیں۔ ماہرین معاشیات مہنگائی کو لوگوں کی قوت خرید کے تناظر میں دیکھتے ہیں اس حوالے سے بھی اعدادوشمار وزیر اعظم کے دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2008-09ء میں پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی 1026ڈالر تھی جو گزشتہ حکومت کے آخری سال بڑھتے بڑھتے 1652ڈالر تک پہنچ گئی تھی بدقسمتی سے تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد فی کس آمدنی کم ہونا شروع ہوئی اور پہلے برس ہی کم ہو کر 1455ڈالر رہ گئی۔ رہی سہی کسر 2020ء کے آغاز میں کورونا نے نکال دی۔ گورنر سٹیٹ بنک رضا باقر بھی رواں برس مہنگائی کی شرح 7تا 9فیصد اضافے کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں ۔گزشتہ دنوں انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ پٹرول اور بجلی کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے گا، اس کے باوجود حکومت گزشتہ دو ماہ میں پٹرول کی قیمت میں تین بار اور بجلی کے نرخوں میں دو بار اضافہ کر چکی ہے جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ وزیر اعظم کے بار بار نوٹس لینے کے باوجود گھی کی قیمت میں 25روپے اضافہ اور مرغی 45روپے مہنگی ہو چکی ہے۔ عوام کے واویلا کرنے پر وزیر اعظم کابینہ کے اجلاس میں مہنگائی میں اضافے کے تدارک کے لئے اقدامات کرنے پر زور دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود نا تو حکومت کی طرف سے بنائی گئی پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہی اشیا ئے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے میں کامیاب ہوتی ہیں نا وزیر اعظم کے دعوے کے مطابق ملکی معیشت میں بہتری کے ثمرات عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کر رہے ہیں۔ بہتر ہو گا حکومت عام آدمی کو مہنگائی کے عفریت سے نجات دلانے کے لئے پرائس کمیٹیوں کو فعال کرنے کے ساتھ غریب کی قوت خرید میں اضافے کے لئے اقدامات کرے جو روزگار کے بہتر مواقع پیدا کئے بغیر ممکن نہیں تاکہ عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ ممکن ہو اور مہنگائی کے اثرات بد زائل ہو سکیں۔ وزیر اعظم کو چاہیئے کہ وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کو نچلی سطح پر متحرک کریں۔انتظامی مشینری افرادی قوت کی کمی، وسائل نہ ہونے ،کام میں سستی یا مخالف سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنے کی وجہ سے کسی معاملے کو طے کرنے میں ناکام رہتی ہے، پوری دنیا میں سیاسی کارکن اور ان کی تنظیمیں اپنی حکومت کی مدد کر کے انتظامی بہتری لانے کا چارہ کرتی ہیں۔ مہنگائی ایک حقیقت ہے جس کے اسباب کئی ہو سکتے ہیں ،وزیر اعظم اس امر پر توجہ دیں کہ اس معاملے پر سرکار ناکام کیوں دکھائی دیتی ہے ۔عوام کی زندگی مہنگائی نے اجیرن کر رکھی ہے وزیر اعظم ریڈی میڈ رپورٹس پر بھروسہ کرنے کی بجائے خود صورت حال سے آگاہی حاصل کریں تو انہیں عوام کی تکلیف کا ادراک ہو سکتا ہے۔