اسلام آباد(سپیشل رپورٹر؍92 نیوز رپورٹ) وزیراعظم عمرا ن خان نے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے اور چھوٹے کاروبار کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کے حوالے سے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ لائسنسنگ کا طریقہ کار آسان اور خود کار نظام متعارف کرایا جائے ، صوبائی حکومتیں 74 مختلف قسم کے لائسنسز فوری طورپر ختم کریں تاکہ عام آدمی آسانی کے ساتھ چھوٹا کاروبار شروع کر سکے ۔ وزیر اعظم آفس کے ترجمان کے مطابق پیرکووزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے اور چھوٹے کاروبار میں آسانیاں فراہم کرنے کے حوالے سے اجلاس ہوا۔ وزیر اعظم نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے لوکل گورنمنٹ کی سطح پر مختلف کاروباری سرگرمیوں کے لئے درکار ڈیڑھ سو کے لگ بھگ مختلف لائسنسز کے نظام کو ختم کرنے اور ضروری لائسنسز کے لئے طریقہ کار آسان بنانے اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے خود کار نظام متعارف کرنے کی ہدایت کی ۔ وزیر اعظم نے صوبائی حکومتوں کو 74 مختلف قسم کے لائسنسز 30 روز میں ختم کرنے کی بھی ہدایت کی۔ صوبوں میں لائسنسنگ رجیم کے حوالے سے اجلاس کے دوران وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ موجودہ نظام میں مختلف میٹروپولیٹن کارپوریشنز، میونسپل کارپوریشنز، ٹائون کمیٹیوں و دیگر اداروں کی جانب سے کاروبار کے لئے کم و بیش 150 قسم کے مختلف لائسنسز درکار ہوتے ہیں،اس نظام میں کرپشن اور چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کو ہراساں کئے جانے والے افراد کی شکایت عام ہے ۔ وزیر اعظم نے پیچیدہ لائسنسگ رجیم پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کریانہ، کلاتھ، کلچہ شاپ وغیرہ جیسے چھوٹے کاروبار کے لئے لائسنس کی شرط عام آدمی کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے مترادف ہے ،ایسے 74 قسم کے غیر ضروری لائسنسوں کی شرط کو فوری طور پر ختم کیا جائے ۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ ایسے کاروبار جہاں معائنہ وغیرہ درکار ہے ،وہاں جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر خود کار نظام بنایا جائے تاکہ جہاں اس نظام کو آسانیاں میسر آئیں ،وہاں کرپشن اور ہراساں کرنے کی روش کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے ۔وزیر اعظم نے وفاقی دارالحکومت میں میونسپل سروسز کی مد میں فیسوں میں خاطر خواہ اضافے اور اس کے نتیجے میں عوام کو پیش آنے والی مشکلات پر سخت نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو عوام کے تحفظات دور کرنے اور اس اضافے پر نظر ثانی کی بھی ہدایت کی۔وزیراعظم کی زیرصدارت مسابقتی کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے مسابقتی کمیشن کی 5 سالہ کارکردگی پر ناراضی کا اظہار کیا اور فنانس ڈویژن سے کمیشن کی کارکردگی رپورٹ طلب کرلی۔وزیراعظم نے کہا مختلف شعبوں میں کمیشن کے فیصلوں، تحقیقات اور نتائج سے آگاہ کیا جائے جبکہ اس کی وصولیوں اور جرمانے سے متعلق بھی رپورٹ پیش کی جائے ۔بریفنگ کے دوران وزیراعظم کو بتایا گیا کہ کمیشن چیئرپرسن کو 14 اکتوبر 2018ء کو عہدے سے برطرف کیا جاچکا ہے ، برطرفی کے باوجود چیئرپرسن عدالتی حکم امتناعی پر مسابقتی کمیشن میں کام کررہی ہیں۔وزیراعظم نے کیس کی مناسب انداز میں پیروی نہ ہونے پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ کیس عدالت میں تھا تو پیروی کیوں نہیں ہوئی ؟عمران خان نے فنانس ڈویژن کو تحقیقات کا حکم دیا اور کہا کہ کیس میں تاخیر کے ذمے داروں کے تعین اور مقدمے کی موثر پیروی کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔وزیراعظم نے کاٹن پالیسی اور کپاس کی فصل سے متعلق معاملات پر اعلیٰ سطح اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کاٹن کی سپورٹ پرائس مقرر کرنے کے حوالے سے تجاویز کا جائزہ لے کر سفارشات پیش کی جائیں، سیڈ ایکٹ میں ترمیم اور کاٹن کمیٹی کی از سر نوتکمیل کو جلد مکمل کیا جائے ۔ وزیرِ اعظم نے مختلف ملکوں میں کپاس کی پیداوار کی شرح اور ملک کی اوسط پیداوار میں واضح فرق پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا بدقسمتی سے ماضی میں کپاس کی پیداوار میں اضافے اور اس فصل کے فروغ کے حوالے سے مختلف درپیش مسائل دور کرنے خصوصاً نئے بیجوں کی کاشت، ٹیکنالوجی کے فروغ، کاشت کے جدید طریقوں کو اپنانے اور کسانوں کی مالی معاونت جیسے اہم شعبوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔وزیراعظم نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشی ٹیم اور تاجروں کے درمیان معاہدہ خوش آئند ہے ، تاجر باالخصوص چھوٹے تاجروں نے مشکل وقت میں میری مدد کی۔انہوں نے کہا حکمران جب ٹیکسوں سے بادشاہوں کی زندگی گزارے تو کون ٹیکس دے گا، سابق حکمران اس طرح عوام کا پیسہ خرچ کرتے تھے جیسے تیل کی نہریں بہہ رہی ہوں، انہوں نے اپنا پیسہ باہر رکھا اور عوام کے پیسوں سے عیاشی کی۔انہوں نے کہا میں کوئی پیسہ بنارہاہوں نہ فیکٹریاں،نہ ہی میں اپنے رشتے داروں کوسہولت دے رہاہوں۔وزیر اعظم نے کہا ترقی یافتہ قوموں کے حکمران عوام کے ٹیکس کی ایک ایک پائی کا حساب دیتے ہیں، ہم نے وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم آفس کا خرچہ 30 سے 40 کروڑ روپے کم کیا حالانکہ مہنگائی ہے ، آج میں اپنے گھر کا خرچ خود اٹھاتا ہوں، خزانے سے نہیں لیتا جبکہ مجھے جو تنخواہ ملتی ہے ، اس سے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا بیرون ملک گیا تو سابق حکمرانوں کے خرچوں سے کم خرچہ کیا، پاک فوج نے پہلی بار اپنا خرچ کم کیا، خرچے کم کرنے کی واحد وجہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنا ہے ۔وزیر اعظم نے کہا مناسب انداز میں ٹیکس کی ادائیگی تک ملک ترقی نہیں کر سکتا، اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے بغیر دنیا میں عزت نہیں کمائی جاسکتی، پاکستان کم ٹیکس دینے والے ملکوں میں شامل ہے ، پہلے سال جتنا ٹیکس اکٹھا کیا، اس کا آدھا قرضوں پر سود ادا کیا۔انہوں نے کہا ہم نے پیسے لے کر دوسروں کے لئے جنگیں لڑیں لیکن بڑا نقصان اٹھایا، اس لئے ایک آزاد اور خودمختار ملک کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات خود پورے کرے ۔انہوں نے کہا ہمیں ملک میں مہنگائی کا احساس ہے ، ہم اب ہر ہفتے دیکھ رہے ہیں کہ کن کن طریقوں سے مہنگائی کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن جو چیزیں درآمد کر رہے ہیں ان کی قیمتوں پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے تاہم حالیہ اقدامات سے مہنگائی کم ہوگی۔علاوہ ازیں وزیراعظم سے ملک بھر سے نو منتخب چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور اور نمائندہ وفد نے ملاقات کی۔وزیر اعظم نے ٹیکس کے حوالے سے وفد کی تجویز پر ایف بی آر چیئرمین کو ہدایت کی کہ ہر پیر کے دن اوپن ہائوس منعقد کیا جائے اور صنعتکاروں کے مسائل خود سنیں۔