میں اس روز طویل رخصت سے پہلے دفتر میں اپنی چیزوں کو وائنڈاپ کر رہی تھی۔چیزیں کیا تھیں کچھ ادھوری اسائنمنٹس ، چند ایسے چنیدہ مضامین سے بھری ہوئی فائلیں تھیں جنہیں ایک بار نظر سے گزار کر فرصت میں دوبارہ پڑھنے کے لیے سنبھالا ہوا تھا۔ دفتری کرسی کے ایک طرف پڑے ریک میں کتابوں کے ڈھیر تھے۔ شعری مجموعے اور فکشن کی کتابیں تھیں جو آنے جانے والے شاعروں ادیبوں نے دی تھیں۔ کچھ پڑھے اور ان پڑھے خطوں کا انبار تھا۔خواہشں تھی کہ ناپڑھے خطوط کو بھی کھول کر جستہ جستہ پڑھ لیا جائے۔تاکہ لکھنے والے قارئین کی محنت ضائع نہ ہو،پڑھے ہوئے خطوط کو پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈالا۔ درازوں کو فالتو چیزوں سے آزاد کیا۔ اب اس وقت کو سوچوں تو یہ اعتراف کرتی ہوںکہ آفس میں یہ میری میز ایک مثالی صحافی کے امیج پر پوری اترتی تھی۔ بکھرے ہوئے اخبارات کے ہجوم میں گاہے ادھوری نظموں اور ادھوری دفتری اسائمنٹ سے الجھتی ہوئی ایک صحافی جو ہر وقت کسی نہ کسی ڈیڈ لائن کو میٹ کرنے کی کوششوں میں لگی رہتی۔ خیر اس الجھی ہوئی صحافی نے کتابوں کے انبار سے جب کتابیں چھانٹی کیں تو کتابوں کی صورت نہیں سیرت کو معیار بنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کتابوں کے اس انبار میں سے جو کتابیں میں نے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے منتخب کیں ان میں سے کچھ بڑی خستہ حال تھیں ۔نہ ان کے ٹائٹل خوبصورت تھے نہ ان کی بائنڈنگ اچھی تھی نہ ان کے صفحات اعلی تھے لیکن ان کے اندر موجود مواد ایسا تھا جس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان میں سے بیشتر کتابیں میں نے فٹ پاتھ سے سیکنڈ ہینڈ کتابوں کے ڈھیر سے خریدی تھیں ان میں ایک امرتا پریتم کی کتاب رسیدی ٹکٹ تھی ایک پاکٹ سائز کتاب تھی کیٹس کے محبت نامے تھے جو اپنی محبوبہ فینی براؤن کے نام لکھے تھے۔ بہت سی دوسری کتابوں کے ساتھ مختار مسعود کی آواز دوست بھی تھی۔ ایسی کتابیں جنہیں آپ تمام عمر دل سے لگا کے رکھتے ہیں وہ ان کی خوبصورت پرنٹنگ اور باینڈنگ کی اعلی کوالٹی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ تحریر کی صورت وہ خزانہ اہم ہوتا ہے جو اس کتاب کے اندر موجود ہے،کتابوں کے اس انبار میں کچھ ایسی کتابیں بھی تھیں جو طباعت کے اعتبار سے کیا شاندار وضع قطع رکھتی تھیں مگر جنہیں میں نے ایک دفعہ کھول کے دوبارہ دیکھنے کے زحمت بھی نہیں کی تھی۔ ایسی ہی دو ضخیم کلیات صورت کتابیں بیرون ملک سے آنے والے بزرگ شاعر نے اخبار کے قابل ذکر صحافیوں میں تقسیم کیں تھیں ملائم چمکتے ہوئے اعلی صفحات اور سنہری حاشیوں سے سجی ہوئی اعلی ترین باینڈنگ مگر اندر سے خالی صرف بے وزن شاعری سے بھری ہوئیں کوئی صاحب ذوق اس پر دوسری نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کرے۔ ایسی پری چہرہ کتابوں کو آپ ڈرائنگ روم کے کسی کونے میں تو سجا سکتے ہیں لیکن آپ انہیں اپنے دل اور دماغ میں جگہ نہیں دے سکتے۔ویسے ایسی بے رس کتابوں کو میں اپنے ڈرائنگ روم سے بھی دور ہی رکھتی ہوں۔کتاب کا ٹائٹل کیسا ہے اس کے باینڈنگ کس معیار کی ہے یہ سب باتیں اپنی جگہ اہم سہی لیکن اپنے لیے کتاب خریدتے وقت یہ کبھی میرا مسئلہ نہیں رہا اور میرا خیال ہے کہ کتاب کا حقیقی قاری کبھی بھی کتاب کے اس پہلو کو فوکس نہیں کرتا۔یہ پبلشر کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے کہ کتاب کی پیشکش کی کتنی پرکشش ہے کہ پبلشر کا کاروبار ہے کتاب کی جلد سازی بلاشبہ مضبوط ہونی چاہیے لیکن کتاب کا حقیقی قاری ان معیارات پر کتاب منتخب نہیں کرتا،میری ایک عجیب عادت ہے کہ میں ان کتابوں کو پڑھنے کی طرف کم راغب ہوتی ہوں جن کی آجکل ٹوتھ پیسٹ یا شیمپو کی طوح مشہوری زیادہ کی جارہی ہو۔شاید اس لیے کہ میں کسی حتمی رائے کے زیراثر کتاب نہیں پڑھنا چاہتی جس رائے کو پبلسٹی کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ میرے نزدیک کتاب پڑھنا ایک تخلیقی عمل ہے ریڈنگ کی سائنس بھی یہی کہتی ہے قاری کتاب پڑھتے ہوئے خود بھی لکھاری کے ساتھ ایک تخلیقی عمل میں شریک ہوتا ہے ۔ ہر قاری اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں لکھے ہوئے متن کو "ڈی کوڈ" کرتا ہے۔اس طرح یہ بھی ایک تخلیقی عمل ہے لیکن جب ایک ہی کتاب پر رائے کی صورت میں مختلف پوسٹس نظر آنے لگے تو مجھے لگتا ہے کہ اس کتاب میں دریافت کرنے کو کچھ باقی نہیں رہا۔ کم ازکم اس خاص وقت میں جب پبلسٹی مہم زیادہ عروج پر ہو۔جب گرد چھٹ جائے تو پھر بھلے پڑھ لوں۔ میں اسلیے ایسا کرتی ہوں کہ اپنے کتاب پڑھنے کے عمل کو اجتماعی تجربے میں ضم نہیں کرنا چاہتی۔فلم بہت کم دیکھتی ہوں اور اس میں بھی اوور پبلیسائزڈ فلموں کو چھوڑ کر میرا دل غیر معروف فلموں کی طرف لپکتا ہے۔ میں اس میں سے بھی کچھ انوکھا دریافت کر لیتی ہوں جو میرے دل کو اچھا لگتا ہے۔ابھی میرے ہاتھ میں اسد محمد خان کی کتاب ہے۔یہ کتاب بھی پرانی کتابوں کے ٹھیلے سے خریدی تھی اور ان کتابوں میں شامل تھی جنہیں اس روز میں نے آفس چھوڑتے ہوئے اپنے سامان میں رکھ لیا تھا،کتاب کے پیش لفظ میں عہد ساز کہانی کار اسد محمد خان نے چند بڑے دلچسپ جملے لکھے جو میرے کالم کے متن کی تائید کرتے ہیں"یہ بہت سادہ اور کم لاگت سے تیار کی ہوئی کتاب ہے میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ چاہے اپنا مجموعہ ورق طلائی پر خط گہر بار سے لکھوا کر پیش کروں چاہے کچے اخباری کاغذ پر چھاپ دوں میں رہوں گا وہی جو کہ میں ہوں۔"میں پری چہرہ بے رس کتابوں کی بجائے ان کتابوں کو اپنے لیے منتخب کرتی ہوں جن کے اندر کی گہری روح مجھے خود بخود آواز دے۔۔میں اس آواز کو سن سکتی ہوں۔ایسی اجنبی کتابوں کے اندر کی دنیا دریافت کرنے میں ایک الگ لطف ہے اور یہ تجربہ رابرٹ فرسٹ کے الفاظ میں ایسے راستے پر چلنے کی خوشی دیتا ہے جس پر کم لوگوں کے قدموں کے نشان ہوں۔