اپنے ملک کے جو حالات ہو چکے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ جس کا بس چلتا ہے وہ یہ ملک چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور پھر واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ ملک پر طاقتور گروہوںکا قبضہ ہو چکا ہے، جن کے خاندان در خاندان یہاں حکومت کرتے ہیں، ہر ہر طریقے سے دولت لوٹتے ہیں اور پھر وہ یہاں سے لوٹی دولت ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میںمنتقل کر کے اپنے خاندانوںکے لیے اچھے اچھے کاروبار establish کرتے ہیں اور پھر وہاں زندگی کے مزے لوٹتے ہیں۔ذہن میں رہے کہ طاقتور گروہوںسے مراد صرف اس ملک کے سیاستدان نہیں ہیں ، بلکہ اس ملک کا ہر وہ گروہ جو اس ملک میں کسی نہ کسی طرح کی حکمرانی کرتا ہے ،مثلاً اس ملک کی بیوروکریسی کے سینئر افسران جس میں ایکس ڈی ایم جی ( DMG ) اور موجودہ PAS گروپ کے افسران، پولیس گروپ کے افسران اور کسٹمز گروپ کے افسران ۔ ان میں سے بہت سوں کے تو ترقی یافتہ ممالک میں اپنے گھر ہیں اور کافی تعداد نے تو ان ممالک کی بمعہ خاندانوں کے شہریت بھی لے رکھی ہے۔ دوسرے ممالک کی شہریت رکھنے والے حکومت پاکستان کی پالیسیاں بنا رہے ہیں اور ان پر عمل درآمد کروا رہے ہیں ۔ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں ایک سروے کراکے ان سب حکومتی افسران کا ڈیٹا اکٹھا کیا تھا لیکن اس سلسلے میں کوئی قدم اپنے ملک کے مفاد کی خاطر نہ اٹھایا جا سکا کیونکہ آپ کے علم میں ہے کہ یہ طاقتور لوگ ہیںاور پاکستانی حکومتیں ان کے اشارہ ابرو پر چلتی ہیں۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہمارے دفاع کی ذمہ دار افواج کے افسران کی فیملیز کی ایک بڑی تعداد بھی ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میں اپنے ملکیتی گھروں میں رہتی ہے اور ان کے بچے انہی ممالک کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ چونکہ ان سب کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس لیے یہ سب ایک ہوتے ہیں ۔ ابھی آپ نے نہیں دیکھا ہوگا کہ وہ سیاسی گروہ جو ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آتے تھے مثلاً پیپلز پارٹی کے زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف ، لیکن اب اسی زرداری کا بیٹا بلاول اور شہباز شریف ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پوری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس ملک پر مل کرحکومت کر رہے ہیں اور اپنے مفادات کی آبیاری کی خاطر ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کیا میں سچ نہیں کہہ رہا ۔لیکن اب ان سب کا سانجھا ویری ایک ہی ہے اور وہ ہے عمران خان ۔اس ملک کے تقریباً سبھی سیاستدان عمران خان کی مخالفت میں یک جان ہیں۔مگر ایسا کیوں ہے! اس کا سادہ سا جواب ہے کہ وہ ہمارے ملک کے روایتی سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہے۔وہ چیخ چیخ کر اور ببانگ دہل ہر جلسہ میں کہتا ہے کہ میری پاکستان سے باہر کوئی جائیداد نہیں ہے، میرا جو کچھ بھی ہے وہ پاکستان میں ہے۔ ہے کوئی اپنے ملک کا سیاستدان جو ایسا دعویٰ یا اعلان کرسکے ۔اس بات کو ماننا پڑے گا کہ عمران خان کا سب کچھ پاکستان میں ہے باوجود اس حقیقت کے اس نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ اور ہمارے ملک کے سب سیا ستدانوں کی نسبت زیادہ عرصہ یورپ میں گزارا ہے۔ یہ بات ماننے میں بھی مجھے کوئی مفر نہیں ہے کہ سیاسی طور پر سب اچھا نہیں ہے۔ آپ خود غور کریں کہ ایک سیاستدان جسکیوفاق،پنجاب،خیبر پختونخواہ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت ہو اور اپوزیشن جماعتیں اس کے خلاف عد م اعتماد لاکر اسے گھر روانہ کر دیں، یہ نالائقی نہیں تو اورکیاہے۔بہر طور اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ وہ ہمارے ملک کے سیاستدانوں سے مختلف اور ہٹ کے ہے ۔ ہمارے سیاست دان تو نہ صرف اپنے بلکہ اپنے خاندانوں سے جڑے سسرالیوں کے مفادات کا بھی بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ہمارے روایتی اور دہائیوں سے اس ملک کی حکمرانی پر قابض سیاستدان کسی نو وارد کو حکومت کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے ، یہ تو ہمارے باقتدار لوگوں کی حمایت تھی کہ عمران خان کو اس ملک کی مسند اقتدار مل گئی تھی۔ بدقسمتی سے اور اپنی نا تجربہ کاری سے عمران خان ان لوگوں کی حمایت بھی کھو بیٹھا ہے۔عمران خان بنیادی طور پر ایک فاسٹ باولر ہے اور فائٹر ہے، وہ وکٹ لینے تک لڑنے میں یقین رکھتا ہے۔ وہ ان تھک بھی ہے اور کسی طور ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتا ۔کیا یہ اس ملک کے بے بس اور غربت میں نڈھال لوگوں کے لیے کم ہے کہ وہ اس ملک کو لوٹنے والوں کو آرام سے لوٹنے نہیں دیگا ۔ گزرے کل ایک دفتر میں میری ایک سئنیر بیوروکریٹ (ریٹائرڈ) جو میاں نواز شریف کے ساتھ بھی خاصا عرصہ کام کرچکے ہیں سے ملاقات ہو گئی ۔ وہ بھی اس بات کا بلا تامل ذکر کر رہے تھے کہ جس طرح عمران خان شریف خاندان کے سیاست دانوں و زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی سیاست کا نقشہ کھینچ کر عوام کے سامنے رکھتا ہے ،ایسا کرنے کی تو کوئی جرات نہیں کر سکتا تھا۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ عمران خان اپنے دور حکومت میں عوام کے لیے کچھ خاص نہیں کر سکا لیکن پھر بھی عوام کے دل اسی کے ساتھ دھڑکنا شروع ہو گئے ہیں ، اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ وہ اس ملک کے روایتی حکمرانوں کی لوٹ مار کاکھلے لفظوں اور بڑے بڑے جلسوں میں بر ملا ذکر کرتا ہے۔اب تو لوگ اس کی یہ بات سن کر بھی پریشان سے ہو جاتے ہیں کہ طاقتوروں نے اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی ترکیبیں بھی تیار کرلی ہیں ۔ اللہ اسکی حفاظت کرے ۔آپ کے علم میں ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بڑے بڑے لوگوں کے مفادات پہ زد پڑنے لگتی ہے تو وہ کسی کی جان لینے سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔