ہاں، حقوق انسانی کے حوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی کا موقف سخت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطے میں بھارت کی اہمیت کے پیش نظر بائیڈن کی پالیسی ہمہ جہتی ہوگی اور چین سے نمٹنے کیلئے چار ملکی اتحاد آسٹریلیا، جاپان، بھارت اور امریکہ کو مزید جہت ملے گی۔بھارت کے تئیں بائیڈن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کپور کا کہنا ہے کہ 1975میں پہلے جوہری دھماکوں کے بعد جب امریکی کانگریس میں بھارت پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی قرار داد پیش ہوئی توبس ایک ووٹ سے مستر د ہوئی ۔ وہ ایک ووٹ، جس نے بھارت کو پابندیوں سے بچایا، نئے سینیٹر جوائے بائیڈن کا تھا۔ اسی طرح 2005میں صدر جارج بش اور وزیر اعظم من موہن سنگھ نے جوہری معاہدہ پر دستخط تو کئے، مگر جوہری تکنیک کے عدم پھیلائوکی ٹریٹی کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھارت کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کی امریکی کانگریس میں ڈیمو کریٹس نے خاصی مخالفت کی۔ اس وقت پھر بائیڈن نے ہی اپنی پارٹی کے اراکین پارلیمان کو منوا کر 2008میں بھارت کوچھوٹ دلوانے کا قانون پاس کروالیا۔ بھارتی لابی ان دنوں واشنگٹن میں امیدوارں کو اپنی خواہشات کی فہرست فراہم کر رہی ہے اس میں یہ وعدہ لیا جا رہا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ پاس کرواکے بھارت کو ناٹو پلس پانچ کے اتحاد میں چھٹے ملک کی حثیت سے داخل کریں گے۔ اس اتحاد میں ناٹو ممبران کے علاہ اسرائیل، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان شامل ہیں۔ یعنی کوارڈ کے بعد بھارت ا مریکہ کی قیادت میں ایک اور اتحاد کی ممبرشپ کا خواہا ں ہے۔ دوسری طرف یہودی لابی کا کہنا ہے کہ اسرائیل یا ان کو کسی بھی امیدوار کی کامیابی سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ ہاں ٹرمپ کی عدم موجودگی میں نیتن یاہو کی ذاتی مشغولیات متاثر ہو جائینگی ۔ واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں انکشاف کیا تھا کہ نیتن یاہو اپنے تمام میلے کپڑے جہاز میں بھر کر وائٹ ہاوس کی لانڈر ی میں فری دھلوانے کیلئے لاتے ہیں۔ خیمی شالیز کے مطابق بائیڈن بھی عرب مماک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے آمادہ کرتے رہینگے۔ مگر انسانی حقوق سے متعلق ان کے سخت موقف کی زد میں عرب ممالک آسکتے ہیں۔ دوسرا ایران پر اگر انہوں نے بارک اوبامہ کے موقف کی تقلید کی، تو عرب ممالک کیلئے سخت امتحان ہوگا۔ اسلئے عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ میں موجودیہودی لابی پر دباوٗ ڈال رہے ہیں، کہ یا تو ٹرمپ کی کامیابی یقنی بنائی جائے ، یا بائیڈن کی ٹیم پر اثر انداز ہوکر ان کو جوہری ایشو پر ایرا ن کے ساتھ گفت و شنید کرنے سے باز رکھا جائے۔ واشنگٹن میں مقیم یہودی صحافی آلیسن کاپلان سومر نے راقم کو بتایا کہ صدراتی مباحثہ کے دوران ٹرمپ نے جس طرح سفید فام نسل پرست گرپوں کی مذمت کرنے سے انکار کردیا، اس نے یہودی کمیونٹی کو خاصا مضطرب کر دیا ہے۔ یہ گروپس آئے د ن ان کی عبادت گاہوںکو نشانہ بنارہے ہیں۔ اس لئے یہودیوں کا ایک بڑا طبقہ ٹرمپ کی حمایت کرنے سے گریزا ں ہے، اور وہ اس کیلئے نیتن یاہو کی اپیلوں کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔ امریکی انتخا بات کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ عوام کی جانب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوارہی ملک کا صدر بنے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب براہِ راست عام ووٹر نہیں کرتے بلکہ یہ کام الیکٹورل کالج کا ہے۔یعنی جب امریکی عوام نومبر میں ووٹ ڈالنے جائیں گے ، تو دراصل وہ 538ایسے افراد کے لیے ووٹ ڈالیں گے ،جو مل کر الیکٹورل کالج بنائیں گے، اور پھر دسمبر میں وہ صدر منتخب کریں گے۔ ماضی میں یہ الیکٹرز اپنی مرضی سے بھی ووٹ ڈال سکتے تھے لیکن اب اکثر ریاستوں میں قانونی طور پر یہ الیکٹرز صرف اسی امیدوار کے لیے ووٹ ڈال سکتے ہیں جس کے نام پر انھوں نے ووٹ لیے ہیں۔یہ سسٹم اسی لئے ترتیب دیا گیا تھا کہ امریکی آئین کے خالقوں کو خدشہ تھا کہ کہیں کوئی نااہل امیدوار بے خبر اور بھولے بھالے عوام کو بہلا پھسلا کر ملک کی بھاگ ڈور نہ سنبھالے۔ ہر ریاست کی کانگریس میں جتنی سیٹیں ہوتی ہیں اور اس کے جتنے سینیٹر سینیٹ میں ہوتے ہیں اتنے ہی اس کے الیکٹورل کالج میں الیکٹرز ہوتے ہیں۔ عموماً ریاستیں اپنے تمام الیکٹورل کالج ووٹ اسی امیدوار کو دیتی ہیں جسے ریاست میں عوام کے زیادہ ووٹ ملے ہوں۔ اگر ٹیکساس میں رپبلکن امیدوار نے 50.1 فیصد ووٹ لیے ہیں تو ریاست کے تمام 38 الیکٹورل ووٹ اس امیدوار کے نام ہو جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی امیدوار قومی سطح پر ووٹرز میں سب سے زیادہ مقبول رہا ہو لیکن وہ صدر بننے کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر سکے۔2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن سے 30 لاکھ ووٹ کم حاصل کیے تھے لیکن وہ صدر بنے کیونکہ انھوں نے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کی۔ 2000 میں جارج ڈبلیو بش نے 271 الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی حاصل کی جبکہ صدارتی انتخاب میں ناکام رہنے والے ان کے مدِمقابل ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور کو ان سے پانچ لاکھ عوامی ووٹ زیادہ ملے تھے۔اس کے علاوہ19 ویں صدی میںتین امیدوار جان کوئنسی ایڈمز، ردرفرڈ بی ہیز اور بنجمن ہیریسن عوامی ووٹ حاصل کیے بغیر صدر بنے تھے۔(ختم شد)