جیسے جیسے اپوزیشن کی تحریک چلانے کی ڈیڈلائن قریب آ رہی ہے، سیاسی ٹمپریچر بڑھتا جا رہا ہے، حکومت اوراپوزیشن کے درمیان شدید قسم کی مخاصمت جو شاید ہی پہلے کبھی اس انتہا کو پہنچی ہو، کے اثرات معیشت پر بھی پڑنے شروع ہو گئے ہیں۔ ملک بھر میں مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھرکردیا ہے،چینی،آٹا، گھی، دالوں، سبزیوں، گوشت، انڈوں حتیٰ کہ ضرورت کی ہر شے کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ چکی ہیں لیکن حکومت کا حال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ پاکستان کی معیشت جو کئی دہائیوں سے بظاہر اوپن مارکیٹ کے اصولوں پر گامزن ہے اب نامساعد حالات کی بنا پر کنٹرولڈ اکانومی بنتی جا رہی ہے۔ مسابقت اور مقابلے کے اس دور میں قیمتیں طلب اور رسد کے اصولوں کے مطابق چلتی ہیں۔ ہماری مارکیٹ اکانومی کی یہ بنیادی خرابی ہے کہ طلب اور رسد کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر مارکیٹ ملی بھگت سے منافع کمایا جاتا ہے۔ جن اشیا کے مہنگا ہونے کا امکان ہوتا ہے ان کی ذخیرہ اند وزی کر کے بھرپور منافع کمانا معمول کی بات سمجھتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس روش سے خاصے تنگ ہیں اور اسے مافیاز کا کیا دھرا قرار دیتے ہیں۔ مارکیٹ میں چیزوں کی قلت پیداکر کے قیمتوں میں کسی حد تک تو ہیر پھیر کیا جا سکتا ہے لیکن جب معیشت کی پیداواری صلاحیت ہی اتنی ہو کہ مانگ پوری کرنا بھی مشکل ہو تو قیمتیں کیسے مستحکم ہو سکتی ہیں۔ مجھے اپنا زمانہ طالب علمی یاد ہے جب مانگ اور تقسیم کے تفاوت یعنی مانگ زیادہ اور پیداوار کم کی بنا پر کئی دہائیوں تک راشن بندی کانظام رائج رہا۔ چینی، آٹا اور دیگر اشیائے ضرورت، راشن ڈپوسے ملا کرتی تھیں لیکن آ ہستہ آہستہ پیداواری صلاحیت بڑھنا شروع ہوئی تو راشن ڈپوکا یہ نظام ختم کردیا گیا۔ موجودہ مارکیٹ کے اصولوں کے تحت حکومت کا یہ کام ہے کہ اگر پیداوار کم ہو تو بروقت فیصلے کر کے چینی، گندم، گھی درآمد کر لئے جائیں لیکن خان صاحب کے نئے پاکستان میں دوبارہ اشیائے ضروریہ کی قلت معمول بنتی جا رہی ہیں، بروقت درآمد کرنے کی منصوبہ بندی ہی نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ عوام ملک بھر میں مہنگائی سے تنگ آ گئے ہیں۔ اسی تناظر میں کلاک کو پیچھے گھمانے کی ناکام کوششوں کے مترادف خان صاحب کی ٹائیگر فورس جو آہستہ آہستہ سیاسی تنظیم کا روپ دھارتی جا رہی ہے، جس کا بظاہراس معاملے میں کوئی رول نہیں ہے، مہنگائی کے خلاف مہم شروع کر دی ہے۔ وزیراعظم نے ہفتے کے روز ٹائیگر فورس کا قومی اجلاس بلالیا ہے لیکن انہوں نے اس سے قبل ہی حکم دیدیا ہے کہ اپنے علاقوںمیں دال، چینی اور دوسری اشیاء کی قیمتیں چیک کر کے انہیں ٹائیگر فورس کے پورٹل پر ڈالیں۔ ایسی نام نہاد تنظیم جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں سوائے اس کے کہ وہ تحریک انصاف کی ذیلی تنظیم ہے، کس طرح قیمتیں کنٹرول کرے گی، کیا اس ضمن میں ٹائیگر فورس چھاپے مارے گی اور ان کی نشاندہی پر لوگوں کو گرفتار کیا جائے گا؟۔ بظاہر تو یہ تمام پاپڑ قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے بیلے جا رہے ہیں لیکن اگر ٹائیگر فورس سے اس قسم کے کام لینے کی روایت چل پڑی تو معاملہ کہاں جا کر رکے گا؟۔ فی الحال تو یہ فورس عدم تشدد کے نظریے پر کار بند ہے لیکن اگر سیاسی محاذ آرائی بالخصوص عمران خان اور ان کی ٹیم کے تندوتیز بیانیے کی بناپر بڑھتی چلی گئی تو حالات کیا رخ اختیار کرینگے؟۔ قانونی ماہرین کے مطابق ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کو کوئی قانونی کور حاصل نہیں ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف سٹیک ہولڈرز خان صاحب کے احکاما ت پر کورنش بجالاتے رہیں گے۔ تاہم ایسے مصنو عی طریقوں سے قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کبھی کامیاب ہوئی ہے اور نہ مستقبل قریب میں ایساہوتا نظر آتا ہے۔ بعض صارفین کاکہنا ہے چھاپوں، پکڑ دھکڑ کے نتیجے میں اکانومی پر منفی اثرات ہو سکتے ہیں گویا کہ وہ اشیا جو مارکیٹ میں مہنگی دستیاب ہیں ان کے بھی غائب ہونے کا خدشہ ہے۔ کچھ عرصے سے اپوزیشن نام نہاد ٹائیگر فورس پرتنقید کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمن نے ٹائیگر فورس کے رول پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا وزرا کا کام ٹائیگر فورس کے حوالے کیا جا رہا، مہنگائی کم کرنا ٹائیگر فورس کا نہیں حکومت اور کابینہ کا کام ہے، ٹائیگر فورس کو کس قانون کے تحت مہنگائی کنٹرول کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے، ٹائیگر فورس کو مہنگائی پر نظر رکھنے کی ہدایت وفاقی کابینہ کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ دوسری طرف حکومتی ایم این اے صداقت عباسی کا کہنا ہے کہ یہ فورس اس معاملے میں پی ٹی آئی حکومت کی آنکھ اور کان بنے گی۔ یقینا مہنگائی اپوزیشن کی احتجاج کی کال کے بعد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ عام مارکیٹ میں آٹا 80، چینی110، ٹماٹر 150 سے200، ادرک 680، لہسن350، آلو 90، چکن 257 روپے کلو، انڈے180روپے درجن ہو گئے ہیں، یہی حال دوسری اشیا کی قیمتوں کا ہے۔ یہ صورتحال حکومت کی ناقص کارکردگی کی واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے۔ بعداز خرابی بسیار ٹماٹر، پیاز، ادرک وغیرہ جیسی اشیا کی ایمرجنسی بنیادوں پر درآمد کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ اپوزیشن کی متوقع تحریک کی بنا پر حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔ ریاستی اقتصادی منصوبہ بندی کے تحت طلب اور رسد کے مطابق مضبوط نظام نہ بننا حکومت کی نالائقی اور ناکامی ہے۔ اگر پہلے سے ہی چینی مافیا، آٹا مافیا اور بجلی مافیا کا شور مچانے کے بجائے مناسب پلاننگ کی جاتی تو نوبت ٹائیگر فورس تک نہ پہنچتی۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے قریباً سوا دو سال کے عرصے میں اکانومی کے بارے میں کوئی مربوط حکمت عملی بنانے میں یکسر ناکام ہوئی ہے اور اب محض پیوند کاری کر کے ایسے لوگوں کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے جن کا یہ کام ہے اور نہ ہی تجربہ۔ وزیر ریلویز شیخ رشید کا درست کہنا ہے کہ ’’مہنگائی کے معاملے پر پاکستان کے عوام کا وزیراعظم عمران خان سے اختلاف ہوگیا ہے، عمران خان سے لوگوں کو نفرت نہیں لیکن مہنگائی کے سبب اختلاف ضرور ہے، اگر اس سال تک مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو یہ اختلاف مزید بڑھے گا‘‘۔