کورونا کی چوتھی لہر کے باوجود معاشی میدان سے اچھی خبریں آ رہی ہیں،ایک سال کے دوران صنعتی پیداوار ،کنسٹرکشن اور ہائوسنگ سیکٹر میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ گاڑیوں کی فروخت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکسٹائل ،سیمنٹ،اسٹیل، فرٹیلائزر،آٹو موبیل سیکٹرمیں بھی بھر پور پیداوار اور ریکارڈ طلب دیکھی جا رہی ہے۔بجلی کی پیداواری صلاحیت مسلسل بڑھ رہی ہے،زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے،ان سب کے ساتھ ساتھ کچھ تشویشی معاملات بھی ہیں،وزیر اعظم کا کنسٹرکشن پیکیج40 صنعتوںکیلئے نیک شگون ثابت ہوا ۔اسٹیٹ بنک کے مطابق مالی سال 2020 میں رہائشی اور تعمیراتی قرضوں میں 111 ارب روپے یا 75فیصد کا غیر معمولی اضافہ ہوا جو ریکارڈ259 ارب روپے ہے۔ ایک سال میں رہائشی و تعمیراتی قرضوں میں اب تک کا اضافہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ 7 جولائی کو ملک میں بجلی کی پیداوار کا نیا ریکارڈ قائم ہوا اور ترسیلی نظام کو 25ہزار284میگا واٹ بجلی فراہم کی گئی۔ پی ٹی آئی حکومت سے پہلے جولائی 2018 میں بجلی پیداوار کا ریکارڈ 20ہزار811 میگا واٹ تھا۔پاکستان آٹو موٹیو مینو فیکچرنگ کے مطابق مالی سال میں 2 لاکھ اڑتیس ہزار نئی گاڑیوں کی خرید و فروخت ہو ئی جو پچھلے سال کے مقابلے میں90 فیصد زیادہ گاڑیوں کی فروخت کا ریکارڈ ہے۔پچھلے مالی سال کے 11 مہینوں میں لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں 14.57 فیصد اضافہ ہوا۔ٹیکسٹائل 15.64،معدنی مصنوعات26 فیصد اضافہ ہوا ،لوہے اور اسٹیل میں14 فیصد،فوڈ بیوریجز میں 12 فیصد اضافہ ہوا ۔پٹرولیم مصنوعات16.22فیصد،ادویات سازی 12 فیصد،کھاد 7 میں فیصد اضافہ ہوا۔ اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے پچھلے مالی سال میں ریکارڈ 75 فیصد اضافی ترسیلات زر بھیجی گئیں۔پچھلے مالی سال میں اوور سیز پاکستانیوں نے 29ارب40 کروڈ ڈالر بھیجے۔اسٹیٹ بنک کے زر مبادلہ کے ذخائر 5 سال کی بلند ترین سطح پر رہے،جو18ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے،جومالی سال 2015میں 18 ارب 14کروڑ ڈالر تھے۔ملک کے مجموعی ذخائر تقریباًساڑھے 24 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔بنکوں کی ڈیپازٹس22فیصد کی شرح سے بڑھ کر19.8کھرب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے،بنکوں کے ڈیپازٹس میں22 فیصد اضافہ 14سال میں سب سے بلند ترین شرح ہے۔ ملک کی معیشت کے اعتبار سے حوصلہ افزا خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان موبائل فون تیار کرنے کیلئے غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدہ ہو گیا۔اب کراچی میں بن قاسم انڈسٹریل پارک میںمشہور کمپنی کے موبائل فون تیار ہونگے حکومت نے 21 کمپنیوں کو موبائل فون تیار کرنے کی منظوری دی ہے۔ان اچھی اچھی خبروں کے ساتھ کچھ تشویش والی بات بھی ہے جیسے امپورٹ اور ایکسپورٹ میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے ،معیشت تاگرچہ ترقی کر رہی ہے لیکن امپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ ہماری ایکسپورٹ اتنی نہیں ہیں کہ اس کا مقابلہ کیا جائے، اسی وجہ سے ہمارے روپے پر پریشر آ رہا ہے اور اب ڈالر جو 152 سے بھی نیچے آ گیا تھا، اب 160 سے بڑھ گیا ہے، مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔انرجی سیکٹر معیشت کیلئے درد سر بنتا جا رہا ہے۔ گردشی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے انر جی سیکٹر پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے ۔ماہرین کے مطابق کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کام بڑھ رہا ہے مشینری وغیرہ منگوائی گئی،مشینری کی امپورٹ بڑھی ہے اور پچھلے 6 ماہ میں یہ سارا اضافہ ہوا ہے۔اسٹیٹ بنک نے پانچ سو بلین روپے مشینری امپورٹ کرنے کیلئے دیے ہیں،جس کا مستقبل میں بڑا اچھا اثر پڑے گا۔کچھ عرصے بعد پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھنا شروع ہو جائینگی،ابھی کچھ عرصہ پہلے کرنٹ اکائونٹ سر پلس تھا لیکن اب 1.6 خسارے میں ہیں لیکن یہ کچھ بڑا نہیں ہے۔رہی بات مہنگائی کی تو پوری دنیا مہنگائی کا شکار ہے،اگر فریٹ کو دیکھا جائے تو تین سے چار گنا مہنگا ہو گیا ہے جتنی شپنگ کمپنیاں ہیں جو 100یا 200فیصد تک ان کے شیئرز کی قیمتیں بڑھی ہیں کیونکہ کوویڈ نے سب کو ہلا دیا تھا ۔ اچانک ڈیمانڈ نکل آئی، امپورٹ کی وجہ سے تمام کمپنیاں اچھا خاصا منافع کما رہی ہیں، آنے والے دنوں میں مہنگائی دم توڑ دے گی۔ پاکستانیوں کیلئے خوشی کی بات تو یہ ہے کہ گندم کی پیداوار اتنی زیادہ ہوئی ہے کہ ہم اب اس سے متاثر نہیں ہونگے ،ہمارے پاس کھانے پینے کی اشیا کی وافر مقدار ہو گی اگر ہم جون کے نمبر دیکھیں تو جون میں ہماری 2.8 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ ہے یعنی ایک سال میں 34 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ ہے اور ترسیل زر 30 ارب ڈالر ہے یعنی 64بلین ڈالر ہے۔ اگر ہماری امپورٹ بڑھ بھی گئی تو ممکن نہیں کہ امپورٹ60 ارب ڈالر سے بڑھے، تولگتا ہے کہ صورتحال زیادہ خراب نہیں ہو گی۔ماہرین کے مطابق اس سال پاکستان کی ایکسپورٹ37 سے 40بلین ڈالر تک جائے گی کیونکہ اس وقت جتنی ڈیمانڈ ہے وہ ہماری سوچ سے بھی باہر ہے۔ماہرین کے مطابق حکومت نے جو ہائوسنگ پالیسی، ٹیکسٹائل پالیسی،آٹو پالیسی دی ہے یہ پالیسیاں اتنی زبر دست ہیں کہ ملک میں ڈیمانڈ بڑھتی رہے گی اور جب ڈیمانڈ بڑھے گی تو درآمدات میں بھی اضافہ ہو گا اور برآمدات بھی بڑھتی جا ئیں گی، اس سے مزید صنعتیں لگیں اورروز گار کے مواقع پیدا ہونگے۔گھروں کی ڈیمانڈ جو شروع ہو چکی ہے یہ اگلے 25 سال تک بھی پوری نہیں ہو سکے گی اور یہ ڈیمانڈ بڑھتی جائے گی۔ہر سال گھروں کی ڈیمانڈ بڑھے گی حکومت جو بھی آئے، گھروں کی پالیسی چلتی رہے گی ۔ آنے والے سالوں میںبدلا ہوا پاکستان نظر آئے گا۔اب ہر دن پہلے سے بہتر دن ہو گا۔اگر مہنگائی بڑھی ہے تو لوگوں کی قوت خرید بھی بڑھی ہے۔ماہرین کے مطابق انرجی سیکٹر کا پرابلم ابھی کا نہیں، یہ پہلے سے ہی تھالیکن اب انرجی سیکٹر کے مسائل بھی حل ہو رہے ہیں۔انرجی کی ڈیمانڈ بڑھ ر ہی ہے۔ پاکستان میں بجلی اتنی سر پلس ہو گئی تھی کہ ڈیمانڈ کم تھی اب تو 25000میگا واٹ کی ڈیمانڈ عبور ہو چکی اگر یہ ڈیمانڈ 28 ہزار تک پہنچ جاتی ہے تو کپیسٹی پے منٹ اتنی زیادہ نہیں دینی پڑے گی ۔بجلی کے کارخانے30 ہزار میگا واٹ تک کے لگائے گئے لیکن ڈیمانڈ15 سے20 ہزار میگا واٹ کی تھی ،اسی لئے کپیسٹی چارجز دینے پڑتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ پرانے پاور پراجیکٹ بند کر کے نئے لگا ئے تو بہتر ہو گا۔اسی طرح جب ایل این جی امپورٹ کی،سوچا یہ گیا تھا کہ ایل این اور مقامی گیس ملا کر لوگوں کو دیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ایل این جی پر بھی لوگوں کو سبسڈی دی جا رہی ہے جو غلط ہے،ایل این جی اور لوکل گیس مکس کر کے دی جائے تو حکومت کا خسارہ کم ہو جائے گا ۔