کڑے احتساب کے منشور کی حامل تحریک انصاف کی حکومت کوروناوائرس کے سنگین چیلنج کے دوران بھی احتسابی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔مہنگائی‘ـگورننس اور کمزور معیشت کے باعث جیسے ہی حکومتی ساکھ متاثرہوتی ہے‘وزیراعظم کڑے احتساب کا نعرہ بلند کردیتے ہیں۔ دل گرفتہ سیاسی ورکرز دوبارہ امید وابستہ کرلیتے ہیں کہ چلوکچھ دن مزید مشکلات جھیل لیتے ہیں۔اسی میں تحقیق کاروںکوایک اور اسکینڈل کے پیچھے لگادیا جاتا ہے۔آٹاـ‘ چینی اسکینڈل کی انکوائری کا حکم اور رپور ٹ پبلک کرنے سے وزیراعظم نے خوب پذیرائی حاصل کی۔ چینی اسکینڈل کا کلائمیکس آئند ہ چند روز بعد عوام کے ہوش اڑادے گا۔ اب جبکہ وزیراعظم کو ایک اور بڑے اسکینڈل کی رپور ٹ جمع کروادی گئی ‘ اس کی تفصیل آگے بیان کروں گا۔ یہاں جائزہ لینا ضروری ہے کہ حکومت کیلئے سبکی کا باعث بننے والی بعض شخصیات کے کارناموں پر’مٹی پاؤ‘کاعمل کیوں شروع کردیا گیا ہے؟ 16مارچ کو خاکسار نے 92نیوز کے پروگرام نائٹ ایڈیشن میں خبر بریک کی تھی کہ وزیراعظم نے بھارت سے جان بچانے والی ادویات کی آڑ میں کاسمیٹکس اورـملٹی وٹامن سمیت دیگر ادویات درآمد کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ رپور ٹ پیش ہوئی تووزیراعظم سمیت کابینہ ارکان کے اوسان خطا ہوگئے۔ وزیراعظم نے مشیر احتساب شہزاد اکبر کو انکوائری کا حکم دیدیا۔ انکوائری مکمل ہوچکی ۔ انکوائری کی کچھ دستاویز میرے ہاتھ لگ گئیں ہیں جس میں پورا کھیل بیان کیا گیا ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور مقبوضہ کشمیر کی عوام پر بھارتی فوج کے مظالم کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے 7اگست2019کے اجلاس میں بھارت سے ہر طرح کی تجارت پر پابندی عائد کی گئی۔قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے میں امپورٹ پالیسی آرڈر2016میں ترامیم کی تجاویز دی گئیں جس کے بعد وزارت تجارت و ٹیکسٹائل نے وفاقی کابینہ کی منظوری کیلئے سمری تیار کی ‘سمری منظوری کرلی گئی اور وزارت تجارت نے 9اگست 2019 کو نوٹیفکیشن جاری کردیا ۔نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی بااثر فارماسوٹیکل مالکان نے وزارت تجارت اور وزارت صحت کا رخ کرلیا ۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرز اور مشیر برائے تجارت رزاق داؤد نے مشاورت کی اور فیصلہ تبدیل کروانے کی حکمت عملی مرتب کرلی۔وزارت تجارت کی جانب سے 24اگست2019کو کابینہ ڈویژن کو دوبارہ لکھے گئے خط میں وفاقی کابینہ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی۔ موقف اختیار کیا گیا کہ مشیر تجارت و صحت نے تبادلہ خیال کے بعد آمادگی ظاہر کی کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے بھارت سے ڈریپ سے منظور شدہ تھراپیوٹک ادویات کی در آمدکیلئے فیصلے میں ترمیم کی جائے۔یہ کابینہ کے فیصلے کی مکمل خلاف ورزی تھی۔ رولز آف بزنس1973 کے رول 20(14)کے تحت وفاقی کابینہ کے اجلاس کی تفصیلات ریکارڈ کرتے وقت کسی بھی قسم کی غلطی کی صورت میں متعلقہ وزیر24گھنٹے کے اندر کابینہ سیکرٹری کو آگاہ کرے گا لیکن یہاں تو15دن گزر چکے تھے۔حیران کن طور پر 25 اگست کو ایڈیشنل سیکرٹری وزیراعظم آفس کے دستخط سے تھراپیوٹک ادویات کی درآمد کی منظوری دیدی گئی۔ یہ ایک الگ فیصلہ تھا جس کی مجاز صرف وفاقی کابینہ تھی مگر وفاقی کابینہ کو بائی پاس کیا گیا۔ حتیٰ کہ وزیراعظم بھی اس سے لاعلم نکلے۔ 5مئی کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جب معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرز ا سے ارکان نے سوال کیا تو انہوں نے بھارت سے ادویات درآمد کرنے کے اسکینڈل سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی سیکرٹری صحت اس معاملے پر مزید آگاہ کرسکتے ہیں۔ حیران کن طور پر انکوائری افسران کوڈاکٹرظفر مرزا اور ڈی جی ٹریڈ پالیسی وزارت تجارت محمد اشرف کے مابین پیغامات کے تبادلے کے ثبوت ظاہر کررہے ہیں کہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس سارے معاملے میں کیاکردار ادا کیا؟ انکوائری مکمل ہوچکی مگر حکومت پریشان ہے کہ اب کس طرح اس انکوائری رپور ٹ کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کارروائی شروع کرتے ہیں تو بات وزیراعظم ہاؤس کے ایک مکینـ مشیرـ‘معاون خصوصی اور سینئر بیوروکریٹس تک جاپہنچتی ہے۔خاموشی اختیار کرتے ہیں تو میڈیا اور عوام سوال اٹھائیں گے ۔ اطلاعات ہیں کہ معاملے کو ’مٹی پاؤ‘فارمولہ کے تحت دیگر اسکینڈلز کی طرح منطقی انجام تک پہنچا یا جائے۔وگرنہ ادویات اسکینڈل کی انکوائری رپورٹ کی چنگاریوں سے بہت سے لوگ جھلس سکتے ہیں۔ رپورٹ ـ‘داخل دفتر کرنے میں شاید حکومت کو زیادہ کوشش بھی نہ کرنی پڑے کیونکہ وزیراعظم کو ایک او ربہت بڑے اسکینڈل کی رپور ٹ جمع کروادی گئی ہے۔ وزیراعظم اس رپورٹ کیلئے کس قدر مضطرب تھے‘اس کا اندازہ عوام کو آئندہ چند روز کے دوران ہوگا۔ یہ رپورٹ ایسی داستان ہے جسے وزیراعظم اور ان کے’ہراول‘ وزراء آئندہ کئی ماہ اجاگر کرتے پائے جائینگے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے لگ بھگ 13خاندانو ں کیلئے بھی یہ رپورٹ بے چینی اورمشکلات کا پہاڑ کھڑا کرنے جارہی ہے۔نیب قانون میں ترامیم نہ ہوئیں تویہ معاملہ نیب کے سپرد کردیا جائے گا ورنہ ایف آئی اے کو متحرک کیا جائے گا۔ وزیراعظم جلد ازجلد اس رپورٹ کو پبلک کرنے کے خواہشمند ہیں ۔آئی پی پیز کی طرح یہ رپورٹ بھی نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھونچال پیداکردے گی۔ شنید ہے کہ کڑے احتساب کی ڈگڈگی یونہی بجتی رہے گی کہ ووٹرز کی توجہ مرکوز رہے‘ـ تاہم بلاامتیازاحتساب کا نعرہ منجی تلے ڈانگ پھیرے بغیر بے سود ہے۔کیا ملک وقوم کیلئے پالیسی سازی انہی شخصیات کے سپرد رہے گی؟رفقاء اور حواریوں کے ’کرتوتوں ‘پر’مٹی پاؤ‘ کا سلسلہ مستقبل کا آئینہ دھندلا دے گا اور دم توڑتے’حمایتی‘ بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے: میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!