سیاسی مخالفین کی مہم اور بین الاقوامی چیلنجز سے نبرد آزما حکومت کے لیے مہنگائی میں مسلسل اضافہ پریشان کن سطح تک جا پہنچا ہے۔جس عام آدمی کی زندگی سے دکھ کے کانٹے چننے کی یقین دہانی جناب عمران خان کراتے ہیں وہ اذیت کا شکار ہے ۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ وزیراعظم عوامی مشکلات سے پوری طرح آگاہ ہیں لیکن ان کی دلچسپی کے باوجود اشیائے ضروریہ کے نرخ کم ہونے میں نہیں آ رہے گویا کوئی متوازی نظام ہے جو حکومت کی عملداری کو للکار رہا ہے۔ طلب و رسد کا اصول عموماً چیزوں کے نرخ متعین کرتا ہے۔ اس اصول کے مطابق ایک چیز کی مارکیٹ میں قلت ہو اور اس کے طلبگار زیادہ ہوں تو نرخوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نرخ میں اضافے سے جو رقم حاصل ہوتی ہے وہ کاشت کار کی بجائے آڑھتی اور ڈیلر کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ اس سے ایک بری روایت نے فروغ پایا۔ آڑھتی اور ڈیلر اشیاء کو ذخیرہ کرلیتے ہیں‘ مارکیٹ میں جب ان چیزوں کی کمی واقع ہو جاتی ہے تو پھر ذخیرہ کردہ مال کو من چاہے داموں پر فروخت کیا جانے لگتا ہے۔ عرف عام میں اس عمل کو ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کہا جاتا ہے۔ اس ذخیرہ اندوزی کی رسول کریمؐ نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بلاشبہ ریاستوں کے دوسری ریاستوں سے تعلقات کا ہموار اور باہمی مفادات پر مبنی ہونا ضروری ہے۔ سرحدی امن کا تعلق ہمسایوں سے خوشگوار تعلق کی دلیل ہے لیکن داخلی امن کا تعلق مہنگائی پر قابو پانے سے ہے۔ مہنگائی بڑھتی ہے تو ساتھ ہی کئی خرابیوں کی پرورش ہوتی ہے۔ لوگ ضروریات پوری کرنے کے لیے ذرائع آمدن کو محدود دیکھتے ہیں تو بدعنوانی اور غیر قانونی سرگرمیاں انہیں متوجہ کرتی ہیں۔معاشرے کا معاشی سکون ایک ہیجان میں ڈھلنے لگتا ہے اور سماج کے تانے بانے کو خطرات لاحق ہونے لگتے ہیں۔ درمیانے طبقات ختم ہوتے ہیں۔ دو انتہائوں پر طبقاتی تقسیم ہو جاتی ہے۔ بہت غریب اور بہت امیر۔ توازن رخصت ہوتا ہے تو سماج کی ثقافت‘ معیشت اور روحانی اقدار بھی بری طرح سے متاثر ہونے لگتی ہیں۔تحریک انصاف مرکز میں پہلی بار برسر اقتدار آئی‘ عمران خان پہلی بار کسی ریاستی ذمہ داری پر فائز ہوئے لیکن کابینہ میں ایسے افراد کی خاصی تعدا دہے جو کئی بار وزیر رہے۔ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ انتظامی مشینری سے حکومت کیسے کام لیتی ہے۔ اس کے باوجود دیکھا گیا کہ رواں برس میں گندم کی نئی فصل مارکیٹ میں آنے سے چند ہفتے قبل یکا یک گندم کی قلت پیدا ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ سرکاری گوداموں میں گزشتہ سال کی جمع گندم کو اضافی سمجھ کر برآمد کردیا گیا۔ افراتفری کی حالت میں گندم کی درآمد کے آرڈر دیئے گئے جس قیمت پر اپنی گندم برآمد کی تھی اس سے زیادہ نرخوں پر خریدنا پڑی۔ چھ ماہ سے حالت یہ ہے کہ درآمدی گندم آنے کے باوجود گندم اور آٹے کے نرخ اوپر جا رہے ہیں۔ چینی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ بڑی مقدار میں چینی درآمد کی گئی ہے تاکہ چینی کی مقامی پیداوار میں کمی سے ظاہر ہونے والی خرابی دور کی جا سکے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے ملک میں گندم اور چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں لیکن عملی حالت یہ ہے کہ دونوں ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ اگر درآمدی گندم اور چینی کی دستیابی کے باوجود قیمتوں میں کمی نہیں آ رہی تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بحران قدرتی نہیں بلکہ کچھ مفاد پرست عناصر کا پیدا کردہ ہے۔ رواں برس ادویات کی قیمتوں میں تین بار اضافہ ہوا ہے۔ قانون کے تحت فارما سیوٹیکل کمپنیاں اس بات کی پابند ہیں کہ خام مال کی قیمتوں میں اضافہ یا دیگر حوالے سے پیداواری لاگت بڑھنے پر وہ سال میں ایک بار ادویات کی قیمتوں کا ازسرنو جائزہ لے کر حکومت سے قیمتیں بڑھانے کی درخواست کرسکتی ہیں۔ اس صورت میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ فارما سیوٹیکل کمپنی متعلقہ سرکاری اداروں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر کے مرضی کے فیصلے کروالیتی ہیں۔ اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں عوام کے مفادات بری طرح نظر انداز ہوتے ہیں۔ اس کا سیاسی خمیازہ یوں بھگتنا پڑتا ہے کہ عوام کا ریاست‘ حکومت اور انتظامی اداروں پر سے اعتماد اٹھنے لگتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ کوئی ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ بلاشبہ پاکستان کے پاس زرعی‘ صنعتی اور پیداواری وسائل کی کمی نہیں۔ ملکی ضروریات سے زیادہ خوراک پیدا ہوتی ہے لیکن انتظامی بدتدبیری کی نذر ہوجاتی ہے۔ حکومت اعلان کرتی رہتی ہے کہ غریب آدمی کے مسائل حل کئے جائیں گے‘ بار بار اعلان کیا جاتا ہے کہ عام شہری کی مشکلات کم کی جائیں گی۔ وزیراعظم بارہا فرما چکے ہیں کہ عام آدمی کے لیے سہولت پیدا کرنے سے معذور نظام کو بدل دیا جائے گا مگر جب مہنگائی کی نئی لہر آتی ہے تو تمام سرکاری نظام بے بسی کا شکار دکھائی دینے لگتا ہے۔ پرائس کنٹرول نظام‘ مجسٹریٹ‘ ضلعی انتظامیہ‘ حکمران جماعت کی تنظیم اور مارکیٹ کمیٹیاں عملی طور پر غیر فعال ہیں۔ مان لیا کہ وزیراعظم اور ان کے ساتھی خلوص کے ساتھ ملک کی خدمت کر رہے ہیں لیکن ہر روز بڑھتی مہنگائی یاد دہانی کراتی ہے کہ سرکاری نظام میں بڑی تبدیلی لائے بغیر عوام کی زندگی آسان نہیں بنائی جا سکتی۔