نواز شریف صاحب کے خلاف فیصلہ لکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے سیسلین مافیا کا ذکر کیا تو’ گاڈ فادر‘ نامی ناول پاکستان میں زبان زدِ عام ہوگیا۔ اسی ناول پر بننے والی فلم میں مافیا ڈان کا کردار مارلن برانڈو نے ادا کیا۔ درجنوں شہرا ٓفاق فلموں میں کئی لازوال کردار ادا کرنے کے باوجود مارلن برانڈو کو بنیادی طور پر ڈان کورلیان کے کردارکے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ فرانسس فورڈ کپولا نے برینڈو کو ان کے گھر پر جا کر جب ڈان کا رلیان کا کردار سنایا تو عظیم اداکار نے پہلی نشست میں ہی اپنے آپ کو اس کردار میں ڈھال لیا۔فلم بندی مکمل ہونے تک وہ مہینوں اسی کردار میں سوتے جاگتے رہے۔ کردار کو خود میں پوری طرح سمو لینے والے فنکاروں کو میتھڈ(Method)اداکار کہا جاتا ہے۔ایسے فنکار اپنے فلمی کردار میں کچھ یوں ڈھل جاتے ہیں کہ وہ دن رات اسی رول میںبسر کرتے ہیں۔ برانڈو کے علاوہ ، الپچینو، رابرٹ ڈینیرو اور جونی ڈپ جبکہ برِّصغیر میں دلیپ کمار صاحب جیسے فنکار اپنی حقیقی زندگی میں بھی ہفتوں اور بعض اوقات مہینوں مخصوص فلمی روپ میںجیتے ہیں۔ دنیا بھر میںفلموں کے علاوہ سیا ست کے میدان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک اداکا ر پایا جاتا ہے۔ جلسے جلوسوں، باہمی ملاقاتوں، مذاکرات اور انٹرویوز میں سیاسی رہنمائوں کی حرکات و سکنات، الفاظ کی ادائیگی میں زیر و بم اور چہرے پر سکون یا بسا اوقات از خود طاری کردہ حالتِ طیش سیاسی اداکاری کے چند لوازمات ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے دور میں تو ‘نان وربل کیوز ‘کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ دورِ حاضر میں ایک کامیاب سیاست دان کے لئے اچھا اداکار ہونا پہلے سے بڑھ کر کہیں اہم ہو چکاہے۔ پاکستانی سیاستدانوں میں دوالفقار علی بھٹو ایک شاندار’ اداکار ‘تھے۔عوام کی نبض پر ان کا ہاتھ ہوتا۔ عوامی اجتماعات میں ان کا فنِ اداکاری عروج پر نظر آتا۔اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرار داد کو یوں پھاڑ کر نکل جانا کہ جب ملک کی سلامتی کچے دھاگے سے بندھی ہوئی تھی، کس کو یاد نہیں۔ جلسوں میں اچانک یوں جذبات میں آکر بے خود ہو جا نا اور ڈائس پر پڑے مائیکس کو ہاتھ مار کر گرا دینا ،اپنے شہباز شریف نے غالباََ انہی سے سیکھا۔یہ بات بہرحال طے ہے کہ ہر دو حضرات موقع محل کے مطابق سوانگ بھرتے اور میتھڈ اداکاروں کی طرح کوئی ایک روپ اپنے اوپر مستقلاََطاری نہیں ہونے دیتے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری ناز و نعم میں پلے بڑھے۔ مغربی سکولوں کے آسودہ حال ماحول میںتعلیم پائی۔فطرتاََ شرمیلے اور نازک مزاج۔ پھر وہ دن بھی ہم نے دیکھا کہ جب کراچی کے ایک جلسے میں انہیں لانچ کیا گیا تو ان کے سامنے ان کے نانا کا جذباتی کردار تراش خراش کر رکھا گیا۔ اس شام وہ خلا میں گھورتے ،گلا پھاڑے مسلسل دھاڑتے رہے ’ سر مانگو گے سر دیں گے، جان مانگو گے جان دیں گے، خون مانگو گے خون دیں گے‘ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کئی سال گزر جانے کے بعدنوجوان سیاست دان کے لئے تراشے جانے والے کردار کا محض ایک پہلو ان پر کچھ اس طرح حاوی ہوا ہے کہ ’ میتھڈ اداکاروں‘ کی طرح وہ اپنی اصلی شخصیت کھو بیٹھے ہیں۔ ’جذباتی ‘توسبھی ہو سکتے ہیں،لیکن کب ، کہاں اور کس حد تک جذباتی ہونا ہے ، توازن کے ساتھ درست فیصلہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔قائدِ اعظم کے مزار کی بے حرمتی کے واقعے کے اگلے روزکی گئی پریس کانفرنس میںسوچا سمجھا ’جذباتی‘ انداز اپناتے ہوئے ا س روز تو آپ اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لانے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن یہ بھی تو ضروری نہیںکہ آپ جب بھی ’ جذباتی‘ ہو جانے کی دھمکی دیں تو ہر بار کہیں سے فون کال آجائے۔میرا اندازہ ہے کہ گلگت سے آپ کو بالآ خر لوٹنا ہوگا۔ دوسری طرف خاتون کو جب سے بتایا گیا ہے کہ’ وہ ایک ایسی نہتی لڑکی ہیں کہ بندوقوں والے جس سے ڈرتے ہیں ،‘تو ان پر بھی مزاحمتی کردار مستقلاََ طاری ہوکر رہ گیاہے۔اب ہمہ وقت حالتِ طیش میں رہتی ہیں۔ بھلے سوال کا بھی تیکھا جواب دیتی ہیں۔ عوامی جلسوں میںکی جانے والی ان کی تقریروں کو اگرذاتیات پر مرکوززہر افشانی نہ بھی کہا جائے تو اشتعال انگیز ضرورہیں۔اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مزاحمتی کردار ادا کرنے کے لئے ’بندوق اور غلیل‘ جیسی جملے بازی کے ساتھ ساتھ بسا اوقات تدبر اور فہم و فراست پر مبنی گفتگو بھی درکار رہتی ہے۔اس باب میں خاتون اپنے والد کی حال ہی میں گھڑے گئے’ عزیمانہ‘ بیانئے کی بجائے قائد اعظم کی مدبرانہ اور با اصول سیاسی جدوجہد کو سامنے رکھتیں تو بہت سوں کا بھلا ہوتا۔ مجھے خدشہ ہے کہ انتہا پسند رویوں کی بناء پر ہم اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ قومی مفاہمت کے راستے خطرناک حد تک محدود ہو چکے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں اداروں کے بارے میںجو لہجہ سرِ عام اختیار کیا گیا ہے اور جس قدر سخت موقف ایک تسلسل کے ساتھ اختیار کیا گیا ہے،اس کے اثرات معدوم ہونے میں ایک مدت درکار ہوگی۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں بات چیت کے دروازے کھلنے کے جس’یکطرفہ‘ امکان کا اشارہ خاتون نے گذشتہ انٹرویو میں دیا ہے، اس کو حقیقت میں ڈھلتے ہوئے ہم دیکھیں گے۔دعا یہ کی جانی چاہئیے کہ بات چیت جب بھی ہو قومی معاملات پر ہو، نہ کہ شخصیات اور ان سے وابستہ مفادات پر۔ میرا اندازہ ہے کہ اندریں حالات اب کسی ایک فرد یا خاندان کو’ریلیف ‘ ملنے کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کو دوسری جانب سے کہیں بڑھ کر شدید ناگوار عوامی ردِ عمل کا سامنا کرناپڑے گا۔ میں کہ ایک از کارِ رفتہ سپاہی، مخاصمت نہیں،تدبر اور مفاہمت کے ذریعے سویلین اداروں کی تعمیر کی بات کرتا ہوں۔نفرت انگیز بیانئے کے ہیجان انگیز شور میں آج بھی یہی سمجھتا ہوں کہ مسائل کا حل مستحکم اداروں کو منہدم کرنے میں نہیں بلکہ کمزور سول اداروں کو مضبوط بنانے میں پنہاں ہے۔ کُل ملا کر پوری زندگی میںساڑھے تین کتابیںجب پڑھ لیتے ہیں تو نام نہاد مغرب زدہ لبرل دانشور لپک کر زعمِ برتری کی پہاڑی پر جا بیٹھتے اور نیچے پڑے مڈل کلاس پاکستانیوں کو حقارت سے دیکھتے اور تضحیک آمیز القابات سے نوازتے ہیں۔ اکثر ان میں سے خود چڑچڑے اور ان کے ہمنوا اختلاف کرنے والوں کے خلاف سوشل میڈیا پر زہر اگلتے ہیں۔بدھ کی رات کامران شاہد کے شو میں جنرل امجد شعیب یا ارشاد بھٹی بولتے تو’جمہوریت پسند‘ خاتون بیزاری کے ساتھ مسلسل منہ بگاڑ تی اور جمائیاں لیتی رہیں۔آپ کی شہرت بحیثیت ٹی وی اینکر، ’میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کو ئی پراپرٹی نہیں،‘ والے ایک انٹرویو تک محدود ہے۔ اختلافِ رائے پر مبنی گفتگو کا سلیقہ تو نہیںسیکھ سکے، اپنے لئے اظہارِ رائے کی مادر پدر آزادی مگر مانگتے ہیں۔یقینا ایسوں کی ساری امیدیں آگ اگلتے’میتھڈ اداکاروں‘ سے ہی وابستہ ہیں۔