آپ کو امریکہ کا وہ قونصل جنرل تو یاد ہو گا۔گول مٹول‘ فربہ ‘سرخ ‘ معصوم سے چہرے والا برائن ڈی ہنٹ،جسے سب پیار سے برائن ڈی بٹ کہا کرتے ۔وہی جس نے مساجد اور مزارات کے اتنے دورے کئے کہ ہندوستان پر حکومت کے دوران انگریز نے بھی نہ کئے ہوں گے۔ہمارے سرکاری و غیر سرکاری علماء کرام اور متولی حضرات کی اکثریت گویا اس کی راہ میں آنکھیں بچھائے رہتی۔سفید شلوار قمیض پر واسکٹ پہنے امریکی سفارت کار کی سرگرمیوں پر کئی حلقے تعجب کا اظہار کر رہے تھے لیکن اس وقت کی حکومت اس کی سہولت کار تھی۔وہ مساجد اور مزارات کے دورے کرتا اور ڈالروں میں عطیات دیتا۔یہ عطیات ریکارڈ پر ہیں۔کوئی مانے نہ مانے،بعد میں بعض مذہبی تنظیموں کا قیام اور مخصوص انداز میں امریکہ کے لئے حمایت حاصل کرنے میں اس سفارت کار کی محنت کا بڑا عمل دخل تھا۔ دو روز پہلے امریکی چارج ڈی افیئر انجیلا ایگلر مسجد وزیر خان گئیں‘مسجد میں امریکی فنڈ سے جاری ترقیاتی کاموں کا معائنہ کیا۔امریکی ناظم الامور نے انسداد دہشت گردی کی خاطر پاکستانی قربانیوں کا اعتراف کیا۔اہم بات یہ کہ مریم نواز کی جدوجہد کو سراہا۔یاد رہے مریم نواز کے دامن میں ایسا کوئی کارنامہ نہیں جس سے سیاسی اور ریاستی سطح پر استحکام پیدا ہوا ہو۔انہوں نے جس بات میں شہرت حاصل کی اس کی تعریف امریکیوں کے منہ سے سننا ایک انتباہ کا درجہ رکھتا ہے۔مسلم لیگ ن نے دوسرا کام یہ کیا کہ انجیلا ایگلر کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔لیڈر آف اپوزیشن شہباز شریف اس دعوت کے میزبان تھے۔مریم نواز نے ڈیڑھ سال بعد جناب جوبائیڈن کو صدر منتخب ہونے پر مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے۔ سول ملٹری تعلقات پر چونکہ بحث جاری ہے اس لئے امریکی ناظم الامور کی ن لیگی قیادت سے ملاقاتوں کو اہم سمجھا جا رہا ہے۔اس بحث پر حتمی بات کرنے کے لئے ہمیں تھوڑا انتظار کرنا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ امریکی سفارت کار رابطوں کا یہ سلسلہ پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن تک بڑھاتی ہیں یا حسب آرزو تبدیلی کے لئے صرف مسلم لیگ ن پر اکتفا کرتی ہیں۔اس معاملے کو یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ حالیہ دنوں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین پاکستان تشریف لائیں۔ انہیں وزیر اعظم تک رسائی نہ مل سکی۔وزیر خارجہ اور آرمی چیف سے ملاقات کے بعد وہ واپس روانہ ہو گئیں۔انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا۔یاد رہے سفارت کار بلا ضرورت کہیں آتے ہیں نہ کسی سے بلا وجہ ملاقات کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی سطح پر جوڑ توڑ ہوتا ہے توکسی نہ کسی بیرونی طاقت کے لئے وہ اہمیت رکھتا ہے۔امریکہ ‘بھارت‘ چین ‘ ایران ‘ سعودی عرب‘ برطانیہ یہ ممالک ہماری خارجہ پالیسی میں اہم ہیں۔پاکستان میں ان کے مفادات ہیں۔یہ خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں کہ حالات کیا کروٹ لیتے ہیں۔یہ انتظار کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں باندر کلے کا کھیل کون کھیل رہا ہے۔یہ خاموشی سے سب کی چالوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ جونہی کھیل ان کے مفاد کے دائرے کو چھونے لگتا ہے یہ متحرک ہو جاتے ہیں۔ان سب ملکوں کے حامیوں اور شدید مخالفین کے حلقے پاکستان میں موجود ہیں۔ چند ماہ قبل ایک کالم لکھا تھا۔اس کالم میں میاں نواز شریف کی افغان مشیر سلامتی محب اللہ سے ملاقات پر روشنی ڈالی تھی۔اس سے قبل سابق افغان صدر حامد کرزئی کو لندن میں میاں نواز شریف کی عیادت کے لئے مدعو کیا گیا۔محب اللہ پاکستان اور پاکستانیوں کو گالیاں دیتا ہے۔میاں نواز شریف مسلسل کوشش میں رہے ہیں کہ کسی اہم ملک کا سفارت کار ان کی مزاج پرسی کے نام پر ان سے مل لے۔اس کام کے لئے کئی افراد کی خدمات حاصل کی گئیں۔مسئلہ یہ تھا کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کر رہا تھا اور انخلا کے دوران اسے پاکستان کی مدد درکار تھی۔اس دوران وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے پاکستان اپنا تعاون روک دیتا۔اس معاملے میں امریکی اس حد تک احتیاط پسند واقع ہوئے کہ پاکستان سے ناراض جوبائیڈن نے بھی کسی طرح کی بیان بازی بند کر رکھی ہے۔مسلم لیگ ن نے اس دوران سابق افغان حکومت کے اہم افراد کے ذریعے سے امریکی حکومت سے رابطے جاری رکھے۔ان رابطوں میں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بات ہوئی۔امریکہ چاہتا ہے سی پیک روک دیا جائے‘امریکہ چاہتا ہے کہ اسے افغانستان میں موجود رہنے کا موقع دیا جائے‘امریکہ کی آرزو ہے کہ پاکستان بھارت کو علاقے کا بڑا تسلیم کر لے۔امریکہ چاہتا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان تصادم کی صورت میں پاکستان بھارت کا ساتھ دے۔ان مقاصد کو وہ پاکستانی جماعت پورا کر سکتی ہے جس کی قیادت ہر حال میں اقتدار کی خواہش مند ہو۔آئی ایم ایف سے کچھ مزید قرض، ایف اے ٹی ایف سے نجات اور ایسے ایک دو اور فیصلے کسی حکومت کو معاشی پریشانی سے نکال سکتے ہیں۔وہ حکومت ان فیصلوں سے ملنے والے فائدے کو بے شک اپنے مالیاتی جادوگر وزیر خزانہ کا کارنامہ قرار دے‘امریکہ کو اعتراض نہیں۔ سردست امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت اس قدر مضبوط نہیں جو امریکی مفادات کا تحفظ کر سکے۔مسلم لیگ ن کے پاس عوامی حمایت اور گراس روٹ پر تنظیم موجود ہے لیکن اس جماعت کو خاموش ووٹر ہرا رہے ہیں۔عمران خان تحریک انصاف کے ووٹروں کی مدد سے نہیں جیتے‘انہیں نظام سے بیزار خاموش اکثریت نے وزیر اعظم بنایا۔مسلم لیگ ن کے دو دھڑے ہونے سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہ جماعت اب مزید کمزور ہو جائے گی۔امریکی ناظم الامور نے مریم کی جدوجہد کو سراہا اور ساتھ ہی شہباز شریف کے اس ظہرانے میں شرکت کی جس کے اہتمام کی ہدایت لندن سے ملی تھی۔ہماری سیاسی جماعتوں کی جدوجہد اب یہی رہ گئی ہے۔دوسری طرف امریکہ کی جمہوری روایات پر ایک بار پھر سوال اٹھ رہا ہے کہ وہ پسماندہ ممالک کے ان سیاست دانوں سے رابطے رکھتا ہے جو مختلف جرائم میں قانونی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں ۔