اے پی سی سے میاں نواز شریف کے خطاب سے خواجہ آصف وجد میں آ گئے کہ دربار اجڑ بھی جائیں تو اہل دربار کی عادتیں نہیں جاتیں۔فرمایا : یہ خطاب نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔اب جب ’’ بیانیہ‘‘ نصاب کی صورت گری پر مچل ہی گیا ہے تو لازم ہے ایک طالب علم کے طور پر ہم بھی اپنی معروضات پیش کر دیں۔ نصاب میں نہ سہی ، کیا جب کہیں حاشیے میں ہی جگہ مل جائے ۔ میاں صاحب نے اصول پسندی کے رجز تو بہت کہہ دیے ۔ یہ تو یقینا متن میں لکھے جائیں گے۔ لکھا جائے گا کہ میاں صاحب کی عظیم جدوجہد عمران خان کے خلاف نہیں تھی بلکہ عمران کو لانے والوں کے خلاف تھی۔حاشیے میں مگر کہیں یہ بھی لکھ دیا جائے کہ جب ایکسٹینشن کا معاملہ پارلیمان میں آیا تو وہ عظیم قائد محترم کون تھے جنہوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو لندن طلب فرمایا اور ہدایت کی کہ ایکسٹینشن کے حق میں ووٹ دینا ہے۔حاشیے میں اگر وضاحت فرما دی جائے تو عین نوازش ہو گی کہ بیانیہ لیگ نے یہ ووٹ عمران خان کے کہنے پر دیا یا اسے یہ ہدایت میاں صاحب نے دی تھی،جن کا خطاب بھی شیر کی طرح یوں آتا ہے کہ اسے دیکھ کر رستم کا جگر زیر کفن کانپنا شروع کر دیتا ہے۔ نئے نصاب کے متن میں لکھا جائے گا کہ جناب نواز شریف وطن عزیز میں احتساب کے ادارے پر یوں برسے کہ جل تھل ایک ہو گیا۔ ان کے ساون میں اتنا سوز تھا کہ انہوں نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ ایک آمر کا قائم کر دہ احتساب کا ادارہ نیب ختم نہ کرنا ان کی غلطی تھی۔حاشیے میں مگر یہ لکھا جا سکتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے احتساب کا یہ ادارہ کسی آمر نے نہیں خود میاں نواز شریف نے بنایا تھا،جس کا سربراہ اپنے نامہ اعمال کی سیاہی لیے آج وقت کی دھول بن چکا ہے۔متن پر بغلیں بجا لی جائیں تو حاشیے میں شرمندہ ہوا جا سکتا ہے کہ احتساب کے نام پر سیاسی حریفوں کو ذلیل کرنے کا نقش اول پر ویز مشرف کا نیب نہیں ، بلکہ نواز شریف کا احتساب بیورو تھا۔ دربار کے نصاب میں لکھا جائے گا کہ سیاست کو شرافت کا نیا رنگ دینے والے میاں نواز شریف نے کس بانکپن سے نیب کے سربراہ کی انتظامی اور اخلاقی کارکردگی پر کیسے کیسے سوالات اٹھائے اور تاریخ کے چوراہے میں اپنی بصیرت کے ساتھ اپنی عزیمت کے سنگ میل بھی نصب فرما دیے۔ حاشیے میں مگر یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ نیب کے اس سربراہ کا انتخاب مسلم لیگ ن ہی کے دور حکومت میں ہوا تھا اور قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا تھا کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے جو نام دیے تھے ،وہ بھی اچھے تھے لیکن ہم نے حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد سب سے اچھے بندے کو یہ منصب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔متن کا عنوان بھلے رجز ہو، حاشیہ اسے بصیرت کا فقدان ہی قرار دے گا۔ نئے نصاب کے متن میں تو صرف یہ لکھا جائے گا کہ جمہوری جدو جہد کی داستان امیر حمزہ پڑھتے ہوئے اے پی سی کانفرنس میں میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف کو پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا کہ کیسے ان کی حکومت کے دائرہ کار کو بھی سکیڑ دیا گیا تھا ۔راز کی یہ بات البتہ صرف حاشیے میں ملے گی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف غداری کے الزام میں سپریم کورٹ میں بطور مدعی کوئی اور نہیں،میاں صاحب بذات خود پیش ہوئے تھے اور جناب چیف جسٹس افتخار چودھری کے اتنے فضائل بیان کیے تھے کہ چودھری صاحب خود ہی بد مزہ ہو گئے اور فرمایا : میاں صاحب جس مسئلے کے لیے آپ عدالت آئے ہیں اس پر بات کریں۔ افتخار چودھری صاحب نے میاں صاحب کو روک نہ دیا ہوتا تو خوشامد کے دفتر لکھنے پر میاں صاحب کے طبیعت بھی مائل تھی اور آمد بھی ہو رہی تھی۔ نئے نصاب کی داستان عزیمت میں لکھا جائے گا کہ میاں صاحب نے یہ حقیقت تاریخ کے چوراہے پر بیان کی کہ عدلیہ نے ہمیشہ آمریت کو تحفظ دیا اور آمر کو آئین میں تبدیلی کے اختیارات سے بھی نواز دیا۔لیکن یہ حقیقت صرف حاشیے میں ملے گی کہ میاں صاحب نے اسی جج کی بحالی کے لیے لوگوں سے حلف بھی لیے۔یہ بھی صرف حاشیہ ہی بتائے گا کہ اس جج نے حرف انکار بلند نہ کیا ہوتا تو جمہوریت جدے میں قیلولہ فرما رہی ہوتی۔ متن بتائے گا کہ اس صدی کے بطل حریت جناب میاں محمد نواز شریف نے آزاد عدلیہ کا نوحہ پڑھا اور دل سے لہو ٹپکا کر انصاف کا مرثیہ پڑھا۔ راز کی یہ بات البتہ صرف حاشیے میں ملے گی کہ کیسے ’’نکے بھا جی‘‘ نے جسٹس قیوم کو فون کیے کہ ’’ وڈے بھا جی ‘‘ کیسافیصلہ چاہتے ہیں اور پھر کیسے یہ ٹیپ منظر عام پر آئے اورقیوم صاحب پر عتاب بن کر نازل ہوئے۔ بیانیہ البتہ مامون و محفوظ رہا کہ اس کی بنیادوں میں سریا شامل تھا۔ متن بتائے گا میاں صاحب کی ساری نظمیں انصاف کے لیے تھیں۔ حاشیے میں البتہ لکھا جائے گا کہ سپریم کورٹ پر لشکر کشی کا اعزاز صرف میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کو حاصل رہا۔گوہر ایوب صاحب کی گواہی ان کی کتاب Glimpses into the corridor of powers میں موجود ہے کہ میاں صاحب نے انہیں طلب کر کے چیف جسٹس کے خلاف ایک منصوبہ پیش کیا جسے گوہر ایوب نے ناقابل عمل قرار دے کر رد کر دیا تو میاں صاحب نے گوہر ایوب کے گھٹنوں کو پکڑ کر کہا کوئی راستہ نکالو میں چاہتا ہوں ایک رات کے لیے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو حوالات میں بند کر دوں۔ کالم کی تنگنائے میں اب اور کیا کیا لکھوں۔بس یوں سمجھیے متن اسے جمہوریت کی جنگ قرار دے گا حاشیہ اسے مفادات کی لڑائی قرار دے گا۔متن میں یہ بیانیہ ہے اورحاشیہ اسے’’ بیعانیہ‘‘ قرار دے گا۔