وفاقی حکومت نے متنازعہ کورٹس کے قیام کی تجویز واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صحت مند معاشرے کی تشکیل میں میڈیا کا بنیادی کردارہوتا ہے جو ادارہ جاتی خامیوں، سماجی برائیوں، لاقانونیت اور اختیارات کے ناجائز استعمال سمیت دوسری برائیوں کے تدارک کے لئے معاون بنتا ہے۔ اسی تناظر میں میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ دیا گیا ہے اور آئین کی دفعہ 19 پریس کی آزادی کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ بلاشبہ میڈیا کو اپنی حدود و قیود اور آزادی کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کام کرنا چاہئے۔ میڈیا نے اپنی جدوجہد کی بنا پر ہی آزادی حاصل کی۔ جرنیلی آمریتوں، سنسر شپ، ہتھکڑیوں، قید اور کوڑوں کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن آزادی صحافت کے پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں میڈیا نے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس اور ڈی پی آر جیسے قوانین کا بھی سامنا کیا۔ ضیاء الحق دور کی بدترین سنسر شپ کے باوجود سر نہیں جھکایا۔ موجودہ حکومت میڈیا کورٹس بنانے کا اعلان کرنے سے قبل اگر ماضی کی تاریخ پڑھ لیتی تو آج متنازعہ میڈیا کورٹس پر ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ حکومت کو پہلے ہی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ میڈیا حکومت کا معاون بن کر برائیوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں اس کے ساتھ کھڑا رہے۔ لیکن حکومت جو پہلے ہی مشکلات میں گھری ہوئی ہے، وہ ایک اور محاذ کھول کر اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے والی تھی۔ چلیں دیر آید درست آید۔ حکومت نے متنازعہ کورٹس کا فیصلہ واپس لینے کا ارادہ کیا ہے جوقابل تحسین ہے۔