انتقام کی اس آگ سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے جو انسان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دے اور عقل پر تالے ڈال دے۔ میں کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ آتش انتقام میاں نوازشریف کو کھلی کھلی ملک دشمنی تک پہنچا دے گی۔ علامہ اقبال کے ایک مصرعے میں تھوڑے سے تصرف کے ساتھ یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مجھے بتا تو سہی اور ’’غداری‘‘ کیا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ تین دہائیوں سے سیاست و اقتدار دونوں کے ساتھ وابستہ رہنے والے میاں نوازشریف دنیا کی توجہ کشمیر میں انسانیت سوز قتل و غارت گری اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کی طرف مبذول کراتے، اس کی بجائے میاں صاحب نے وطن دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کرا دی ہے۔ میاں صاحب کی نوازش سے اب واچ لسٹ والے پاکستان سے کیا سلوک کرتے ہیں۔ گزشتہ چار برس کے دوران بار بار یہ بات سامنے آتی رہی کہ میاں صاحب پاکستانی نہیں، بھارتی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں مگر ہر بار ہم اس خیال کی تردید کرتے رہے اور کوئی نہ کوئی دور اذکار توجیہہ ڈھونڈ کر لاتے رہے اور کہتے رہے کہ نہیں میاں صاحب یہاں تک نہیں جا سکتے مگر میاں صاحب نے خود اپنے آپ کو ایکسپوز کردیا ہے اور شک و شبہ باقی نہیں رہنے دیا۔ ممبئی حملوں کا نامزد ملزم جسے بھارت نے مجرم قرار دے کرسزائے موت دے دی تھی۔ اس کے بارے میں یہ بات بار بار سامنے آتی رہی کہ وہ پہلے سے ہی بھارت کی تحویل میں تھا۔ اسے نیپال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والے کئی ریسرچ پیپرز میں ایسے حقائق موجود تھے جن سے بھارتی دعوئوں کا جھوٹ اور بودا پن واضح ہوگیا تھا۔ آج تین بار پاکستان کا وزیراعظم رہنے والا شخص بنفس نفیس کہتا ہے کہ کیا ہمیں دہشت گردوں کو ممبئی جانے اور 150 بے گناہ لوگوں کو مارنے کی اجازت دینی چاہیے تھی؟ سوال کے اندر اعتراف موجود ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم نے آج تک اس مقدمے کو پاکستان میں طاق نسیاں پر کیوں ڈال رکھا ہے اور اس کی تکمیل کیوں نہیں کی۔ میاں صاحب نے چار سالہ دور اقتدار میں اس طرف کیوں نہیں توجہ دی۔ یہ ساری زہر آلود گفتگو کے لیے اسی سرل المیڈا کا انتخاب کیا گیا جو اس سے پہلے ڈان لیکس کی صورت میں ایک قیامت ڈھا چکا ہے۔ اسے بطور خاص پروٹوکول کے ساتھ ملتان آنے کی دعوت دی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس بیان کی منصوبہ بندی اور اس کی عبارت آرائی انہی لوگوں نے کی جنہوں نے ڈان لیکس کی منصوبہ بندی کی تھی۔ میاں صاحب المیڈا کو دیئے گئے ان ’’اقراری سوالوں‘‘ کو جواز بنا کر گزشتہ دو تین روز سے بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا حتیٰ کہ ہندوستان ٹائمز جیسا سنجیدہ اخبار بھی پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ بھارت کی تو گویا لاٹری نکل آئی ہے۔ ’’غیر تو غیر‘‘ میاں صاحب کے اپنے بھی بہت پریشان ہیں کہ یہ میاں صاحب نے کیا کہہ دیا۔ میاں شہبازشریف پہلی مرتبہ بھائی کے ساتھ نہیں اپنے وطن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ زندگی میں کبھی کبھی ایسے مواقع آ جاتے ہیں جہاں انسان کو خون اور جذبات کے رشتوں کو رد کرتے ہوئے واضح کرنا پڑتا ہے کہ اس کی اول وآخروفاداری اپنے وطن اور اپنے نظریے کے ساتھ ہے کسی شخص کے ساتھ نہیں۔ یہاں دیکھنا یہ ہوگا کہ بزرگ سیاست دان جاوید ہاشمی جو ایک بار پھر پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے کوئے ملامت میں جا پہنچے ہیں ان کی رگ حمیت پھڑکی ہے یا نہیں؟ گزشتہ روز برادر مکرم سجاد میر نے اپنے فکر انگیز کالم بعنوان ’’یہ آپ کے مفاد میں نہیں‘‘ میں میاں نوازشریف سے بڑے ہمدردانہ انداز میں دو سوالات پوچھے۔ میر صاحب کا پہلا سوال یہ تھا کہ آخر میاں صاحب، آپ کو سرل المیڈا ہی کے ذریعے ایسی بات کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب تو اسداللہ غالب نے دے دیا تھا۔ میاں صاحب اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایسی ہی شخصیت کے بارے میں غالب نے کہا تھا: ؎ کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بے داد کہ ہم آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے سجاد میر صاحب کے دوسرے سوال کا جواب مولانا مودودیؒ ارشاد فرما گئے تھے۔ میاں صاحب سے میر صاحب کا دوسرا سوال یہ تھا کہ میں نے میاں صاحب سے ٹیم کے انتخاب میں احتیاط برتنے کو کہا تھا کیونکہ آدمی اپنے ساتھیوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک لیڈر کی پہچان اس کی ٹیم ہوتی ہے۔ میر صاحب کو ٹیم کے بعض اہم لوگوں کے انتخاب پر حیرانی ہوئی۔ میر صاحب کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ مولانا مودودیؒ نے فرمایا تھا یہ کہنا مناسب نہیں کہ فلاں لیڈر خود تو اچھا اس کے مشیر غلط ہیں۔ آدمی جیسا خود ہوتا ہے ویسے ہی مشیروں کا چنائو کرتا ہے۔ میاں صاحب سے ساری قوم کی طرف سے پوچھنے والے چند اہم سوال یہ ہیں کہ ممبئی حملوں کا ایک ’’مجرم‘‘ اجمل قصاب ایک نان سٹیٹ ایکٹر تھا۔ وہ پاکستان سے گیا تھا یا نہ گیا تھا اس کا بھی کوئی ثبوت نہ ملا۔ مودی کی زبان بولتے ہوئے میاں صاحب نے نان سٹیٹ ایکٹر کے بارے میں تو بہت کچھ اعتراف کرلیا جس پر 49 افراد کے قتل کا الزام تھا۔ اس کے برعکس کلبھوشن جادیو انڈیا کی حاضر سروس خفیہ ایجنسی کا ایک کارندہ ہے جس نے پاکستان میں وسیع تر دہشت گردی کا قرار کیا اور 700 پاکستانیوں کو مارنے کا اعتراف کیا۔ میاں صاحب نے آج تک کلبھوشن کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا؟ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ میاں صاحب کی دوستی کس سے ہے اور دشمنی کس سے ہے؟ کچھ عالمی قوتوں نے ’’ہائبرڈ وارفیئر‘‘ تھیوری کے مطابق عالم اسلام کو عدم استحکام اور تباہی سے دوچار کرنے کے لیے غیر علانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ عراق، لیبیا، شام اور یمن کو نشانہ بنانے کے بعد وہ پاکستان کو بھی نشانہ بنانا چاہتے ہیں مگر اللہ کا شکر ہے ملک کے تمام ادارے اپنے وطن کے استحکام کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ہیں مگر یہ کتنا افسوسناک اور تشویشناک ہے کہ میاں صاحب اپنے لبرل مشیروں کے کہنے پر اپنی دولت اور اپنا اقتدار بچانے کے لیے اس ہائبرڈ وار فیئر کا ایک حصہ بننے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے مگر اس کے خلاف پاکستان اکیلا جنگ لڑ رہا ہے جبکہ خطے کے کئی ممالک پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ آج 14 مئی کو پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کی صدارت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر کئی مستقل ممبران نے خصوصی دعوت پر شرکت کی۔ مقام شکر ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کے 12 مئی کے بیان کو غلط اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔ اجلاس میں ہندوستان کو باور کرایا گیا کہ اس کے عدم تعاون کی بنا پر ممبئی کے بارے میں مقدمے میں تاخیر ہوئی۔ نیز بھارت نے کلبھوشن جادیو اور سمجھوتہ ایکسپریس کے معصوم پاکستانیوں کو زندہ جلا دینے کے واقعے پر بھی تفتیشی کارروائی میں کوئی تعاون نہیں کیا۔ میاں نوازشریف کے اس گمراہ کن بیان کے بارے میں شہبازشریف نے کہا ہے کہ یہ مسلم لیگ(ن) کی جماعتی پالیسی ہرگز نہیں جبکہ مریم نواز نے کہا ہے کہ میاں صاحب نے جو کچھ کہا ہے وہ ملک کے بہترین مفاد میں کہا ہے۔ ملک کو کیا بیماری کھوکھلا کر رہی ہے، میاں صاحب سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ میاں صاحب کا ترجمان کون ہے؟ کیا میاں شہباز شریف اپنے برادر اکبر میاں نوازشریف سے اپنی سیاسی راہیں جدا کرلیں گے؟ انتقام کی اس آگ سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے جو آنکھوں پر پٹی باندھ دے اور عقل پر تالے ڈال دے۔