مخلوط وفاقی حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کی تحریک کے دوسرے مرحلے کی پلاننگ جاری ہے۔ دوسرے مرحلے کی پلاننگ کا عمل پشاور سے بنی گالہ منتقل ہوچکا ہے۔ اگرچہ 26مئی کو 6دن بعد دوبارہ لانگ مارچ کے اعلان نے شہر اقتدار میں انتہائی پریشان کُن صورتحال پیدا کردی تھی تاہم جون کا پہلا ہفتہ عافیت سے گزرنے کے بعد غیریقینی کے بادل قدرے چھٹ گئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے عوام بھی مہنگی توانائی کے باعث مہنگائی کی تپش سے متاثر ہونے لگے ہیں۔پاکستان میں معاملہ سیاسی مخالفت اور بدانتظامی کے الزامات سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ عالمی حالات کے باعث صورتحال کس قدر سنگین ہوچکی ہے ‘اس کا انداز لگانے کیلئے ورلڈ بینک کی رپورٹ پڑھنا لازمی ہے۔ ورلڈ بینک نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو خبردار کیا ہے کہ عالمی معیشت کو سنگین چلینجز کا سامنا ہے۔ آنے والے دنوں میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے اور یہ قیمتیں 140 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں تاہم صارفین کیلئے اس کے اثرات 160 ڈالر فی بیرل کے مساوی ہوں گے کیونکہ ریفائنریز کی پیداواری استعداد زیادہ نہیں ہے، نتیجتاً گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہے۔رواں سال برینٹ کروڈ کی قیمتوں میں پہلے ہی 50 فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور منگل کو اس کی قیمتیں 119 ڈالر فی بیرل تک ریکارڈ کی گئی ہیں۔ تیل کی قیمتیں بڑھنے کا اثر تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔مشرق وسطیٰ میں یہ قیمتیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں، متحدہ عرب امارات میں قیمتیں 56 فیصد،اردن میں 22 فیصد جبکہ مصر میں بھی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔برطانیہ میں گاڑی مالکان کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ موسم سرما میں پٹرولیم مصنوعات کی اوسط قیمت 2 پائونڈز فی لیٹر تک جا سکتی ہیں۔ ایک فیملی کار میں پٹرول کا ٹینک پورا بھروانے کی قیمت اب 100 پائونڈ تک جا پہنچی ہے،جو اپنی نوعیت کا ایک ریکارڈ ہے۔اقوام عالم کو 1970ء میں آنے والے معاشی بحران جیسے خطرے کا سامنا ہے۔کئی ممالک آنے والے دنوں میں کساد بازاری سے بچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرتے نظر آئیں گے۔ یوکرین میں روس کی کارروائی، چین میں لاک ڈائون اور دنیا بھر میں سپلائی چین سسٹم میں بگاڑ کی وجہ سے تجارتی اور کاروباری معاملات پر دبائو کی وجہ سے صورتحال پریشان کن رہ سکتی ہے۔ ایسے حالات میںملک سیاسی عد م استحکام کا کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہر سیاسی جماعت ملک اور عوام کی خوشحالی اور ترقی کا نعرہ لگاتی ہے‘اگرواقعی یہی منشورہے توپھر ماضی کے تجربات کے برعکس ایک مرتبہ گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے میثاق پاکستان کانیا تجربہ کرلیا جائے۔یہی واحد تجربہ ملک کی سمت درست کرنے میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے ورنہ مخالفت برائے حصول اقتدارتو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہی ہے۔ دوسری جانب بوکھلاہٹ کی شکار مخلوط وفاقی حکومت بھی ماضی کی روش ترک کرنے کو تیار دکھائی نہیں دے رہی۔ آئی کولڈ میگاڈیمز کی تعمیر‘ مینٹیننس تعمیراتی معیار‘ فنی مہارت اور پیشہ ورانہ معلومات کے تبادلے کیلئے قائم کیا گیا ایک ادارہ ہے۔ 104ممبرممالک پر مشتمل یہ ادارہ اِس بات کو یقینی بناتاہے کہ ڈیمز کی تعمیر محفوظ، مؤثر، معاشی استحکام اور کم سے کم ماحولیاتی اثرات کے معیار کو مدِ نظررکھ کر کی جائے۔مئی میں عالمی کانگریس برائے لارج ڈیمز (آئی کولڈ) کی جانب سے پاکستان سے واپڈا اور آبی ماہرین کو فرانس مدعو کیا گیا۔وفاقی حکومت کی غفلت کے باعث واپڈا اور وزارت آبی وسائل کے ماہر افسران لارج ڈیمز کی تعمیر سے متعلق عالمی ادارے آئی کولڈ کے اہم اجلاس میں شریک نہ ہوسکے جبکہ 27مئی سے 3جون تک جاری رہنے والے اجلاس میں بھارت کے 87 ماہرین کانفرنس میں شریک ہوئے۔ سابق چئیرمین واپڈا لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین کو 10بڑے منصوبوں کی تعمیر کے باعث ذاتی حیثیت میں مدعو کیا گیا ۔ واپڈا ’’ڈیکیڈ آف ڈیمز‘‘ کے ویژن کے تحت پاکستان میں پانی اور پن بجلی کے شعبوں کی ترقی کے لئے نئی اور ہمہ جہت مالیتی حکمت عملی کے ذریعے کثیر الجہتی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے۔ اِن منصوبوں کی تکمیل سے11 اعشاریہ 7 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا، جس کی بدولت ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 13 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ سے بڑھ کر 25 اعشاریہ 3ملین ایکڑ فٹ ہو جائے گی، جس سے 3 لاکھ 50 ہزار مزید اراضی زیر کاشت آئے گی۔ حیران کن طور پر دنیا کے 104ممالک کے ماہرین جب سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) مزمل حسین کے منصوبوں پر مفصل بریفنگ لے رہے تھے اسی لمحے پاکستان میں انکے خلاف نیب نوٹس کی بنیاد پر چوتھے تربیلا توسیعی منصوبے میں753ملین ڈالر نقصان پہنچانے کی بریکنگ نیوز چل رہی تھیں۔ چوتھا تربیلاتوسیعی منصوبہ وہ ہے جس کی مانیٹرنگ ورلڈ بینک نے کی جبکہ اس منصوبے پر آنے والی لاگت 735ملین ڈالرپہلے سال ہی ریکور ہوگئی تھی مگر اس حقیقت کے باوجود نیب کوکروڑوں روپے کی بے ضابطگیاں ڈھونڈنے پر لگادیا گیا ہے۔ سالوں تاخیر کا شکار نیلم جہلم پن منصوبہ‘کچھی کینال ‘مہمند ڈیم سمیت 10بڑے منصوبوں کا سہرا سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) مزمل حسین کے سر پرہے۔ دیامربھاشا ڈیم شروع کرنے پر دنیا حیران ہے کہ غیرملکی فنانسنگ کے باوجود واپڈا نے یہ ناممکن کام کیسے شروع کرلیا۔ان منصوبوں سے جڑے حقائق اور سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) مزمل حسین کا ایک اہم شخصیت کو پروفیشنل جواب دینا اس قدرمہنگا کیوں پڑگیا‘یہ تفصیلات آئندہ کالم میں بیان کروں گا۔سردست صرف ایک عرض ہے کہ خدارا احتساب کی آڑ میں انتقامی روش ترک کیجئے۔خدارا ۔۔۔اپنے قومی ہیروں کیساتھ ایسا کھلواڑ بند کیجئے۔