کورنگی کے قبرستان میں اپنے کمسن بچوں کی نادان سی اورچھوٹی چھوٹی خواہشیں اور جائز ضرورتیں پوری نہ کر پانے والے بے روزگار میر حسن نے خود کو آگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا اور اسی قبرستان میں منوں مٹی اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا۔میر حسن تم نے بہت جلدی کر دی، اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے لکھی چٹھی وزیر اعظم عمران خان تک کسی نہ کسی طرح پہنچنے اور وہاں سے کوئی نہ کوئی جواب آنے کا انتظار کر لیتے، اگر وہاں سے کوئی جواب نہ بھی ملتا تو 27 جنوری کا ہی انتظار کر لیتے کہ جب وزیر اعظم عمران خان کراچی اور اہلیان کراچی کی خبر گیری کے لئے ایک دن کے طوفانی دورے پر خود تشریف لا رہے تھے تو ہوسکتا ہے کہ تمہاری مشکل کشائی ہو جاتی۔میر حسن تم نے حوصلہ مندی کا مظاہرہ نہیں کیا، نہ تو تم جدید ریاست مدینہ کے معمار تک امداد کے لئے لکھی گئی اپنی چٹھی پہنچا سکے اور نہ ہی 27 جنوری تک اپنی خود سوزی موخر کر سکے کہ عمران خان کو اپنے ہاتھ سے لکھی گئی چٹھی کوئی مہم جوئی کر کے خود اپنے ہاتھ سے ہی پیش کردیتے توکیا ہی اچھا ہوتا کہ جیسے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا حفاظتی حصار توڑ کر ان کی کار کے آگے جا لپکا، خاکی پولیس وردی میں ملبوس جوانوں نے جھپٹ کر چیف جسٹس صاحب کی کار سے اسے الگ کر کے لے گئے پھر نہ کبھی اس سائل کی کوئی خیر خبر ملی اور نہ سابق چیف جسٹس صاحب کا پتہ چلا کہ وہ کہاں جھونپڑی ڈال کر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔میر حسن اگر تو بھی ائیر پورٹ کے باہر شاہراہ فیصل پر بندوق برداروں کی عقابی نگاہوں سے بچ کر کہیں کسی کونے کھدرے میں دبکا رہتا اور اچانک اس وقت نمودار ہو کر سڑک کے وسط میں وزیر اعظم کی گاڑی کے عین آگے جا گرتا، شاید خود تو فراٹے بھرتی شاہی گاڑی کی لپیٹ میں آ کر جان کی بازی ہار جاتا لیکن تیری امدادی چٹھی مکتوب الیہ تک جا پہنچتی۔ میر حسن! تو نے مرنا تو تھا ہی، ذرا سا صبر ہی کر لیتا، جدیدریاست مدینہ کے پائوں پکڑتے ہی شاید یوں ہی اچانک کسی دن تمہارے دن پھر جاتے اور تمہارے بچوں کو گرم کپڑے سردی پڑنے سے ہی پہلے اور کھانا بھوک لگنے سے بھی پہلے مل جاتا تو اور زیادہ نہیں تو کم از کم جدید ریاست مدینہ کی بنیاد ہی پڑنے دیتا مگر میر حسن تم نے ذرا جلدی کر دی۔پتہ نہیں اس ملک کے بھوک اور پیاس سے جاں بہ لب لاکھوں کروڑوں بچے سردی گرمی سے بے نیاز ہو کر زندگیاں کیوں نہیں گزار سکتے، سردی گرمی اور اب بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر خود ہی خالق حقیقی سے ملنے کی روش پر عمل پیراہونے سے کیوں گھبراتے ہیں۔خوامخواہ بھوک میں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے کھانے کو کچھ مانگ کر، سردی میں گرم کپڑے اور اسکول کی کتابیں اور فیسیں مانگ کر اپنے اپنے بابائوں کو موت کی آزمائش میں کیوں ڈال دیتے ہیں۔میر حسن تمہاری بے صبری اور جلد بازی نے غریبوں کے گھروں میں ٹمٹماتے چراغ بے روشن کر دیئے ہیں، تمہاری بے صبری نے اس ملک کے لاکھوں کروڑوں مفلس و نادار بچوں سے اپنے بابائوں سے کوئی فرمائش کرنے کی ہمت اور حجت ہی چھین لی ہے۔ لیکن ٹھہرو سنو میر حسن! تم شایدحق بہ جانب تھے اور شاید ٹھیک کیا کہ صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے ،معصوم بچوں کی خواہشوں پر اتنا صبر کون بے رحم باپ کر سکتا ہے۔ہر مشکل میں ساتھ دینے والی تمہاری بیوہ اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے پانچ معصوم بچے تمہاری غضب ناک موت کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی گھر آمد کا انتظار کرتے رہے کہ جدید ریاست مدینہ کے معمار کو شاید موقع مل جائے اور وہ کورنگی کے کچے گھروندوں میں آکر تمہارے یتیم بچوں کے سروں پر دست شفقت پھیر کر اپنی مصروفیتوں اور مجبوریوں کا واسطہ دے کر تمہاری بیوہ اور بچوں سے معافی مانگ لیتے ، وہ مطمئن ہو جاتے تو شاید اللہ تعالی کی ذات بھی موت کے لئے نا پسندیدہ راستہ اختیار کرنے پر تمہاری سرزنش کر کے تمہیں بھی معاف کر دیتی اور شاید تمہیں بھی قبر میں قرارآجاتا۔میر حسن! وزیر اعظم کراچی تشریف لائے تھے لیکن اپنی گو ناگوں مصروفیات کے سبب تمہارے گھر نہیں آ سکے، وہ تو بہادر آباد کے روٹھے دوستوں کو بھی منانے بھی نہیں جا سکے جو کسی بھی وقت اپنی حمایت سے دست کش ہو کر جدید ریاست مدینہ کا خواب چکنا چور کر سکتے ہیں۔ البتہ وزیر اعظم کے سخت نوٹس پر گورنر سندھ عمران اسماعیل کی خصوصی ہدایت پر بیت المال سندھ کے سربراہ حنید لاکھانی نے طاہر ملک کے ہمراہ وزیر اعظم عمران خان کے ایما پر تمہاری بیوہ کو دلاسا اور ساٹھ ساٹھ ہزار روپے کے دو چیک دے دئیے ہیں۔ انہوں نے تمہارے بچوں کو گرم کپڑے اور راشن بھی لا کر دے دیا ہے، وہ راشن اتنا تو ہے کہ ایک دو مہینے تک اب تمہارے بچوں کو کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرنا پڑے گا لیکن یار میر حسن! ایک اداس کر دینے والی خبر ہے تمہارے لئے، وہ یہ کہ وزیر اعظم عمران خان نے تمہاری اس چٹھی کا کوئی جواب نہیں دیا جو تم نے ان کے نام بڑے چائو سے لکھی تھی۔ تمہارے بچے 27 جنوری کو وزیر اعظم عمران خان کی کراچی آمد پر اپنے بابا کی چٹھی کے جواب کا انتظار کرتے رہے جو تم نے اپنی خودسوزی سے قبل انہیں بڑی آس سے لکھی تھی۔جس روز میر حسن نے اپنا جیون شہرخموشاں میں جا کر خاموشی سے سپرد خدا کرنے کا ناپسندیدہ راستہ اختیار کرلیا توبنی گالہ سے خبر بریک ہوئی تھی کہ جدیدریاست مدینہ کے معمار عمران خان کی آنکھیں غم واندوہ کے مارے بھیگ گئیں اور وہ میر حسن کی ناگہانی موت پر بڑی دیر تک ملول رہے۔ جب وہ رنج وملال کی اس کیفیت باہر نکلے تو انہوں نے بڑی افسردگی سے اپنے دل پسند گورنر سندھ عمران اسماعیل کو ہدایت کی کہ وہ میر حسن کے بیوی بچوں کی خبر گیری کریں، انہیں میری طرف سے دلاسہ دیں اور ان کی مالی معاونت کریں۔ وزیراعظم عمران خان کا جذبہ یقیناًقابل ستائش ہے ۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا وزیراعظم اپنی مصروفیات سے چند لمحے چرا کر تمہارے گھر چلے آتے تو شاید تمہیں اپنی چٹھی کا جواب بھی مل جاتا اور تمہارے یتیم بچوں کو بھی شاید کہیں ذراساقرار آجاتا۔