پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی بلکہ خطرناک حد تک جنگی صورتحال میں سال 2004ء یاد آ گیا سفما یعنی ساؤتھ ایشیاء فرینڈشپ سوسائٹی کے لاہور دفتر سے فون آیااگلے ہفتے ہندوستان جانا ہے نہ تو کوئی حیرت ہوئی اور نہ بہت زیادہ تجسس کہ 90 ء کی دہائی میں کوئی دس بار سے اوپر ہندوستان آنا جانا لگا رہا، ایک تو سبب اپنی جائے پیدائش بریلی تھی اور دوسرے سسرال بدایوں میں۔ بریلی بدایوں کو گھر آنگن کہا جاتا ہے، اب اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا ۔ ہندوستان جانے کے ساتھ ساتھ جب یہ بھی پیغام ملا کہ امرتسر کے راستے پہلا پڑاؤ جموں پھر سری نگر اور آخری منزل دلی ہوگی تو کانوں کو یقین نہیں آیا۔ یوں تو پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کبھی بھی اتنے خوشگوار نہیں رہے کہ وہاں جانا آسان ہو مگر ایک تو صحافتی تعلق سے پھر دوسرے صدر پرویز مشرف کی دوستانہ سفارتکاری کے سبب سن2000ء کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ٹریک ٹو پالیسی کا آغاز ہوا تو صحافیوں ادیبوں دانشوروں اور سابقہ سفارتکاروں کی آمد ورفت میں بڑی تیزی آنی شروع ہو گئی تھی مگر اس وقت بھی بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں جانے کا تصور بھی نہیں لایا جا سکتا تھا، اس سے پہلے کہ اس طرف کے سفرِکشمیرکی تفصیل میں جاؤں یہ بتاتا چلوں کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے پالیسی کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان اس خونی تنازع کو حل کرنے کے سلسلے میں ابتدائی تیاریاں شروع کر دی تھیں یقینا اس کا ایک سبب واشنگٹن بھی تھا جو9/11کے بعد ہمارے ریجن میں ہر طرح کی مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالنے کی پالیسی پر گامزن تھا اور شاید نہیں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف واشنگٹن کی آشیرباد سے ایسی فضا تیار کر رہے تھے کہ جس سے دونوں روایتی دشمن ملکوں کے درمیان نا صرف کشیدگی کم ہو بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تین بڑی جنگوں کا سبب بننے والا مسئلہ کشمیر بھی خوش اسلوبی سے حل ہو، اس زمانے میں ہم ایک نجی چینل سے وابستہ تھے اور ان دنوں نجی چینل کے اینکروں کی بازاری زبان میں بڑی ’’ٹور‘‘ تھی، سابق صدر پرویز مشرف مہینے میں کم از کم دو یا تین بار درجن بھر اینکروں اور کالمسٹوں کو بڑے اہتمام سے اسلام آباد مدعوکیا کرتے تھے، اور ان کا موضوع گفتگو تنازعہ کشمیر ہی ہوتا تھا اور ایک بار تو ہماری آنکھیں کھلی بلکہ پھٹی رہ گئیںجب ہمارے ہاتھ میں ایک نقشہ تھمایا گیا، اور جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ کس طرح دونوں جانب کے کشمیریوں کو مطمئن کرنے کے لیے کس طرح ممکنہ تقسیم کا فارمولہ طے ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ کچھ ہی دیر بعد یہ نقشہ ہم سے واپس لے لیا گیا اس زمانے میں موبائل فون تو آچکے تھے مگر ابھی وہ اتنا جدید سیٹ نہیں آیا تھا کہ ہم اسے چوری چھپے محفوظ کر لیتے، اور پھر غالبا سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی بیک ڈور پالیسی کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ پاکستان سے صحافیوں کے ایک وفد کو برصغیر پاک و ہند ہی تاریخ میں پہلی بار اس بات کا موقع دیا گیا کہ وہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کر سکیں، اسی طرح ہمارے بعد ہندوستان کے صحافیوں کو بھی یہی سہولت فراہم کی گئی کے وہ ہمارے آزاد کشمیر کا دور بھی کر سکیں اور یہاں کی قیادت سے بھی گھل مل سکیں ، پاکستانیوں کے لیے بھارت کا اور ہندوستانیوں کے لیے پاکستان کا خاص طور پر منقسم خاندانوں کے لیے جن کی تعداد 50لاکھ کے لگ بھگ ہے ویزے کا حصول ہمیشہ ہی سے مشکل رہا ہے ، مگر اس زمانے میں صحافیوں کے لیے یہ سہولت نسبتاً آسان تھی مگر بہر حال مقبوضہ کشمیر کا سفر کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا یوں جب سفما سے یہ دعوت ملی تو یقینا اس حوالے سے اسلام آباد دلی سرکار ہی نہیں بلکہ دونوں جانب کی عسکری قیادت کی خاموش سرپرستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔سفما کی دعوت ملنے کے اگلے ہی دن ہمارا پاسپورٹ اسلام آباد پنہچ چکا تھا اور پھر جس وقت ہم لاہور پہنچے تو واہگہ بارڈر پر سارے ہندوستان کے سفر کے لیے بغیر پولیس رپورٹنگ 3 ماہ ویزے کے ساتھ ہمارے پاسپورٹ ہاتھ میں تھے، نصرت جاوید، طلعت حسین، مریانہ بابر، ریحانہ حکیم، منیزے جہانگیر، اعجاز حیدر اور مرحوم ممتاز صحافی افضل خان کے نام یادداشت میں ابھی تک محفوظ ہیں، واہگہ سے امرتسر داخلے تک بھی پروٹوکول VVIPتھا۔ ہمارے ہندوستانی میزبان پھولوں کے ہار لیے دمکتے چمکتے چہروں کے ساتھ ہمارے منتظر تھے، امرتسر کو دیکھنے کہ خواہش ایک عرصے سے تھی خاص طور پر سکھوں کے مقدس تاریخی گولڈن ٹیمپل کو کہ جس پر چڑھائی کرنے کے سبب ہندوستانی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کو ایک المناک انجام سے گذرنا پڑا، ہمارے ہندوستانی صحافی دوست اور ان کے ساتھ سفید پوش سکیورٹی والے اس بات سے آگاہ تھے کہ ہماری امرتسر میں داخل ہوتے ہوئے پہلی خواہش کھانے سے زیادہ گولڈن ٹیمپل کی ہوگی، مگر اپنی روایتی مکاری تو نہیں کہوںگا چالاکی سے کام لیتے ہوئے انہیں نے ہمیں ایک آرام دہ کوسٹر میں بٹھاتے ہی یہ خبر دی کہ جموں میں ہمارا بڑی بے چینی سے انتظار ہو رہا ہے اس لیے فوری طور پر جموں چلتے ہیں ہاں واپسی میں ضرور آپکو اس کا موقع ملے گا کہ گولڈن ٹیمپل دیکھ سکیں ، ہم میں سے ایک دو نے اصرار بھی کیا کہ امرتسر سے جموں تک کا کوئی سات آٹھ گھنٹے کا سفر ہے جموں پہنچتے پہنچتے رات تو ہو ہی جائے گی تو اگر گھنٹے دو گھنٹے امرتسر میں گذار لیں تب بھی جموں کے میزبانوں سے تو اگلی صبح ہی ملاقات ممکن ہوگی، مگر کیوں کہ ہمارے میزبانوں کا اصرار بھی تھا اور پھر ہماری مہمان نوازی کا تقاضا بھی کہ ان کے آگے ہتھیار ڈال دیے جائیں، ہتھیار ڈالنے سے کوئی غلط معنی نہیں لیجیے گا کہ بہر حال آپ جس ملک میں جایئں چاہے وہ آپ کا کتنا ہی دوست کیوں نہ ہو ۔پروگرام تو اس کی مرضی و منشا کا ہی ہوتا ہے اور یہاں معاملہ یوں بھی ہندوستان کا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بہر حال غیر محفوظ ہونے کا احساس تو غالب تھا ہی گو کہ ہمارے ہندوستانی صحافی دوستوں کی پوری کوشش تھی کہ ہمیں اس بات کا احساس نہ ہونے دیں ، امرتسر سے جموں کا سفر بڑا خوشگوار تھا ، راستے میں ایک ڈھابے میں رات کے کھانے نے بھی بڑا لطف دیا اور آنکھیں یقین نہیں کر رہیں تھیں کہ جب ہم رات کے آخری پہر میں جموں پہنچے تو لگتا تھا سارا شہر ہمارے استقبال کے لیے امڈ پڑا ہے۔ (جاری ہے)