پاکستان میں ہر آنے والی حکومت جہاں پچھلی حکومت پہ تنقید کرنا نہیں بھولتی وہیں میرٹ کی ڈگڈگی بجا کر نوکریوں کے تماشے کا جھانسا دیتے ہوئے ووٹرز کا ہجوم اکٹھا کرتی ہے. کبھی سوچا ہے میرٹ سسٹم ہے کیا؟ وہ ملک جہاں ہر طرف طبقاتی کشمکش کا راج ہو ہر کلاس کے لیے سکول کالج اور یونیورسٹی کا درجہ الگ ہو وہاں کونسا پیمانہ ایسا ہے جسکی بنا پہ سب کی ڈگریز اور مارکس کو ایک ہی وزن کے تحت ماپا جا سکے؟ وہ ملک جہاں ہر سال تقریباً ساڑھے چار لاکھ گریجویٹس مارکیٹ میں دستیاب ہوتے ہیں جن میں وہ بچے بھی شامل ہوتے جنہوں نے ٹاٹ سکول, بنچ سکول, اردو میڈیم انگریزی سکول اور انگلش میڈیم سکولوں سے اپنے تعلیمی کیریئر کا آغاز کیا ہوتا ہے. سکولوں کے اس فرق کو آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم مزید بڑھا دیتی ہے. ایک بچہ جسکے گھر کا چولھا جلانے کے لیے ماں کسی کے گھر کام کرتی ہے اور باپ اینٹیں ڈھوتا ہے وہ کیسے اس بچے کے برابر ہو سکتا ہے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کے پیدا ہوا ہو؟ وہ طالبعلم جو صبح سکول جاتا ہے پھر ٹیوٹر آجاتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ طلباء جو سکول سے واپسی پہ بھینسوں کا چارہ لاتے یا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے اپنے وجود کا ایندھن جلاتے ہیں وہ کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ ایسے طالبعلم جنکی زندگی فور جی ہے وہ ڈیجیٹل ایج میں جی رہے اسکے برعکس وہ کمزور طبقہ جن کے پاس نہ تو انٹرنیٹ سروس موجود ہے نہ ہی سمارٹ فون کس طرح ہمسر مانے جا سکتے ہیں؟ یہ اور ان جیسے ہزار ہا فرق اس نام نہاد میرٹ سسٹم کا مزاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ہمیں سمجھنا ہو گا کہ غریب کے مجبوری اور امیر کی عیاشی کبھی برابر نہیں ہو سکتے. (مصباح چوہدری پاکپتن )