ایک زمانہ تھا ۔ ۔ ۔ اور یہ زمانہ کم و بیش تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔کہ ہماری مہاجر پھر متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی قائد اور سابق میئر ڈاکٹر فاروق ستار اٹھتے بیٹھتے اسکرینوں ا و ر ریلیوں میں یہ شعر پڑھتے نظر آتے کہ : میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب جس کا دوسرا مصرعہ پڑھتے ہوئے ذرا جھجک محسوس کرر ہا ہوں ۔مگر پہلے مصرعے کے ساتھ دوسرا مصرعہ پڑھنا اس لئے ضروری ہے کہ جس حوالے کے ساتھ یہ شعر پڑھا جاتا ہے۔ ۔ ۔ اُس سے ایک مکمل بیانیہ سامنے آجاتا ہے۔بھلے یہ میر تقی میرؔ جیسے اردو کے کلاسیکل شاعر کا شعر ہی کیوں نہ ہو۔ مگر یہ جس طرف جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اُسے لکھنا ہم جیسے روایتی لوگ معیوب ہی سمجھتے ہیں۔ ۔ ۔ مزید تمہید سے پہلے یہ شعر کہ اب تو محاورہ بن گیا ہے: میر ؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں حال ہی میں جو ذکر میر ؔ کے تازہ ایڈیشن کا تفصیلی مطالعہ کیا تو اس ذوق کے سینکڑوں شعر ملے۔ ۔ ۔ جس میں میرؔ صاحب اپنی ذاتی زندگی کے اس پہلو کو بلا جھجک بیان کرتے نظر آتے ہیں۔آپ سوچتے ہوں گے کہ آخر میں اقوام متحدہ کے ہنگامہ خیز اجلاسوں اور تنازعہ کشمیر کے جلتے سلگتے مسئلے کے بیچ یہ میر تقی میرؔ اور پھر اُن کے اس خاص مصرعے کو ہی کیوں پکڑ کر بیٹھ گیا۔یقین کریں ،اِدھر جو تواتر سے اپنے وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اسکرینوں پر شیر و شکر ہوتے دیکھتا ہوں تو محاورے کی ہی زبان میں شعر پاک امریکی تعلقات کی سات دہائی کی تاریخ کو کوزے میں بند کردیتا ہے۔۔ ۔ امریکی تاریخ کے بدترین نسل پرست صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسی طرح بھارتی تاریخ کے بھی اُس سے بھی زیادہ ’’فاشسٹ‘‘ وزیر اعظم نریندر مودی تو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اربوں ڈالر کے معاہدوں کا اعلان کرتے ہوئے جپھیوں پر جپھی ڈال رہے ہیں ۔ ۔ ۔ اور ہمارے وزیر اعظم اور اُن کے وزارت خارجہ کے بابو محض گھنٹے ،ڈیڑھ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ٹرمپ کے ساتھ گپ شپ لگاتے پھولے نہیں سمارہے۔ ۔ ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان ۔ ۔ ۔ اور اُن کے مشیران ِ خاص نے دورہ ٔ امریکہ سے قبل پاک امریکی تعلقات کی ماضی کی تاریخ پر سرسری ہی سہی نظر تودوڑائی ہوگی۔ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی سفارت کاری کے حوالے سے لاکھ اختلافات رکھنے کے باوجود اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں کہ وہ بین الاقوامی تعلقات کی ایک سنجیدہ استاد ہیں ۔اور یقینا امریکہ میں اپنے کم و بیش تین دہائی کے قیام کے دوران جن اہم عہدوں پر وہ فائز رہی ہیں۔اُس سے وہ اچھی طرح واقف ہوں گی کہ قیام پاکستان کے بعد سے ان 72برسوں میں جب بھی ہم پر کڑا اور کٹھن وقت آیا تو ہمارے لئے امریکی کردار ’’بروٹس‘‘ کا ہی رہا۔۔۔ 1965ء کی جنگ ہو یا پھر 1971ء میں سقوط ِ ڈھاکہ اور پھر تین دہائیوں پر طول طویل افغان جنگ۔ ۔ ۔ جس سے ہمارا ابھی تک پیچھا نہیں چھوٹا۔ امریکی پالیسی ساز اداروں اور اُن کے سربراہوں نے نیک نیتی سے بھی یہ نہیں چاہا کہ پاکستان معاشی اور دفاعی میدان میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔اور جب جب بھارت حملہ آور ہوا اُس کا پلڑا ہندوستان کے حق میں ہی رہا ۔ ۔ ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ خود ہمارے سویلین فوجی حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات میں امریکی دوستی میں پاکستان کو ایسا نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا کہ ہم آج دنیاکے186ممالک میں زندگی کے ہر شعبے میں نچلی ترین سطح پر نظرآتے ہیں۔امریکہ سے نام نہاد دوستی کے نتیجے میں ہم کولڈ وار کے دنوں میں سوویت بلاک کی دشمنی کا باعث تو بنے ہی۔ ۔ ۔ مگر افغان جنگ کی تین دہائی پر پھیلی طویل تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو واقعی ’’اسٹون ایج‘‘ میں جانے کی ہی کسر رہ گئی تھی۔ پاک امریکی تعلقات کی تاریخ میں اس وقت جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اور ان کے کھلاڑی، ٹرمپ دوستی کی مغلوبیت میں ماضی کی وہ ساری تاریخ بھلا بیٹھے ہیں ۔ ۔ ۔ جس کے سبب آج مملکت خداد اد پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی و سیاسی بحران سے گذر رہا ہے۔ یقینا اس موقع پر برادر ملک چین کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جسے دوستی کہتے ہیں،اُس کا حق کسی دوسرے نے نہیں نبھایا۔ ۔۔ سوال یہ ہے کہ جب نکسن ،کینیڈی،بُش ،کلنٹن،بارک اوبامہ جیسے ایک حد تک معتدل ،متوازن سربراہان مملکت کے ادوار میں امریکی دوستی سے’’ معاشی شعبہ ہو یا دفاعی ‘‘ میں مونگ پھلی جتنی ہی مدد ملی۔اور اگر افغان جنگ کے دوران امریکہ کی ڈالروں اور میزائلوں کی صورت میں ہم پر مہربانیاں ہوئیں بھی تو اس بدقسمت ملک اور عوام پر ایسا ملبہ گرا کہ جس کے تلے آج تک ہماری چیخیں نکلی ہوئی ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں یہودی نژاد امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا وہ بیان ایک بار پھر ریکارڈ پر لانا چاہتاہوں کہ۔ ۔ ۔ امریکنوں نے ہمارے ایٹمی قوت بننے پر آج تک معاف نہیں کیا۔ ۔ ۔ذوالفقا ر علی بھٹو جیسے طاقتور حکمران کو جب ڈاکٹر ہنری کسنجر۔ ۔ ۔ ہماری ہی سرزمین پر یہ دھمکی دے سکتا ہے کہ وہ ۔ ۔ ۔ اُنہیں بدترین مثال بنا دے گا۔۔ ۔ اور پھر امریکنوں نے یہ کر کے بھی دکھایا۔ ۔ ۔ تو پھر امریکہ سے۔ ۔ ۔ ا ور وہ بھی ٹرمپ کے امریکہ سے۔ ۔ ۔ یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ۔ ۔ ۔ معاشی اوردفاعی محاذ پر مضبوط اور مستحکم دیکھ سکے۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ کشمیر کا مسئلہ صرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ حل کرسکتے ہیں۔ ۔ ۔ ’’ہتھیار‘‘ ڈالنے کے مترادف ہے کہ امریکی تاریخ بد عہدیوں بلکہ دشمنیوں سے بھری ہے۔