جس کتاب کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں اُس کے لئے نام ہی کافی ہے کہ اُس کا نام ہے ’’میرا عشق ہے پاکستان‘‘۔ صحافی دوست اکمل شاہد کنگ کی یہ کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے ، انہوں نے کتاب کا انتساب اپنے والد کے نام کیا ہے ۔یہ کتاب د راصل اُن کے کالموں کامجموعہ ہے ۔ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے بجا لکھا کہ اُردو صحافت میں کالم نویسی کی روایت ایک صدی کے برصغیر کے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے ۔ برصغیر میں کسی بھی زبان کے کالم نگاروں نے معاشرے کی آئینہ داری ایسے نہیں کی جیسے اردو کالم نگاروں کے قلم سے ہوئی ، تحریک قیام پاکستان میں جہاں اکابرین کی کوششیں نظر آئیں وہیں پر کالم نگاروں کی کاوشیں تحریکِ پاکستان کو مسلسل طاقت فراہم کرتی رہیں۔بلاشبہ برصغیر کی اُردو کالم نگاری میں سب سے نمایاں پہلو ’’وطنیت‘‘ رہا جو آج بھی اُردو کالم نگاروں کی وراثت ہے ۔ مولانا ابو الکلام آزاد، چراغ حسن حسرت، مولانا ظفر علی خان اور دیگر نامور کالم نگاروں سے شروع ہونے والا سلسلہ رکا نہیں۔ رتن ناتھ سرشاد، سعادت حسن منٹو، ابن انشاء ، انتظار حسین ، منو بھائی، زیڈ اے سلہری، احمد ندیم قاسمی سے موجودہ دور تک کالم نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنے فکریہ ، طنزیہ اور سنجیدہ کالموں سے تحریک ِ قیام پاکستان کو تحریک تعمیر پاکستان اور پھر تحریک استحکام پاکستان میں بدل دیا ہے۔ اردو کالم نویس اصلاح و تعمیر کے سچے جذبوں سے لیس حقائق کی چھان پھٹک کرتے اور معاملات کا جائزہ لیتے اور تجزیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ میرا عشق ہے پاکستان میں 40کے قریب کالم ہیں جن میں دیگر کے علاوہ وسیب کی تعلیمی پسماندگی ،روہی میلہ اور خواجہ فرید ، کسان میلہ ،کرونا وائرس کا خاتمہ، روہی اور روہیلے ، کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے ،نئی حکومت کا پہلا بجٹ اور سرائیکی وسیب اور اس طرح کے دیگر مضامین میں وسیب کی محرومی کا تذکرہ موجود ہے اور مسائل کے حل کے لئے تجاویز بھی شامل ہیں ۔اکمل شاہد سئیں بنیادی طور پر آباد کار ہیں گھر کی زبان پنجابی ہے مگر اپنے والد کی طرح وسیب سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ۔ آپ 30دسمبر 1969ء کو صادق آباد میں پیدا ہوئے اور گریجویشن کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور اپنے والد کے ا خبار ہفت روزہ ’’اخبار اکبر‘‘ کو آگے بڑھایا۔ اس موقع پر اکمل شاہد کنگ کے والد کی وسیبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے کہ آپ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ محقق، ادیب اور دانشور بھی تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صادق آباد تین تہذیبوں سندھی، بلوچی اور سرائیکی کا سنگم ہے ، اپنی ماں بولی پنجابی کے ساتھ ساتھ وہ ان تینوں زبانوں سے آشنائی رکھتے تھے اور سب سے محبت کرتے تھے ۔ ’’میرا عشق ہے پاکستان‘‘ کے بارے میں بہت سی شخصیات نے اظہارخیال کیا ہے جن میں ڈاکٹر عبد ا لقدیر خان، محمود شام، قاسم علی شاہ، جبار مرزا، فرحین چودھری، پروفیسر محمددین جوہر، ڈاکٹر خضر نوشاہی، رازش لیاقت پوری، اور علامہ عبد الستار عاصم شامل ہیں ۔ڈاکٹر عبد القدیر نے لکھا کہ جناب اکمل شاہد صاحب کا ’’میرا عشق پاکستان‘‘ سادگی سے لکھی گئی پاکستان کی یہ ایک ایسی کہانی جو گزرے برسوں کی سکہ بند تاریخ بن گئی ہے ‘کتاب میں جاذبیت ہے ، شگفتگی ہے‘ سلیقے سے لکھی گئی رودادہے ’ لفظوں کی بنت میں شائستگی ہے ‘ کتاب کا مطالعہ علم میں اضافہ کرتا ہے ‘ یہی مصنف کی کامیابی ہے ‘ کالم نگاروں کے ہجوم میں جناب اکمل شاہد کنگ صاحب کی منفرد شناخت ہے ‘ وہ سچے اور کھرے پاکستانی ہیں۔یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ لوگ نئے اور پرانے پاکستان کی ترکیب استعمال کرتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ وہ نئے پرانے کی بات تو کرتے ہیں مگر انہیں عشق صرف پاکستان سے ہے اور ان کا یہ عشق پاکستان میں بسنے والے ہر مکتبہ فکر ، رنگ و نسل اور زبانوں کے بولنے والوں کے لئے صلح و آتشی کا پیغام ہے ‘ وہ منافرت سے پاک پاکستان کے خواہاں ہیں‘ بلدیاتی نظام سے کسان بھائیوں تک ‘ اور سرائیکی وسیب سے روہی کے میلے تک وہ پکار رہے ہیں کہ ’’امیدیں ٹوٹنے نہ پائیں‘‘ کشمیر کا المیہ بھی ‘ جناب اکمل شاہد کنگ کو بے چین کئے ہوئے ہے ‘ اس لیے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان ان کا عشق۔ نامور صحافی محمود شام صاحب نے کتاب پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ صادق آباد میں رہنے والے سب ہی صادق و امین ہوں، ضروری تو نہیں ہے ۔اکمل شاہد کنگ یقینا صادق وامین ہیں، اسی صدی کی ایک 14اگست کو میرا اکمل شاہد کنگ سے رابطہ ہوا جو الحمد اللہ اب تک جاری ہے ، کیوں کہ وہ پاکستان سے عشق کرتے ہیں ۔ 14اگست کو صادق آباد کے ایک بہت سبزہ زار میں پاکستان کے عشاق کو جمع کرتے ہیں اور پھر اپنے اس عظیم وطن سے محبت، یگانگت اور وابستگی کا کھل کراظہار کرتے ہیں ۔ مجھے صادق آباد کی یہ پُر جوش محفل کبھی نہیں بھولتی ۔ بچے، بوڑھے، نوجوان، خواتین سب کے چہرے عشق وطن سے تمتمارہے تھے۔ مجھے رشک آ رہا تھا ، ان ہم وطنوں پر، چھوٹے شہروں میں یقینا بڑے لوگ رہتے ہیں۔ اکمل شاہد کنگ خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے ایک ایسی کتاب تخلیق کی جس کے ایک ایک سطر سے پاکستان سے محبت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ بھی اُن کی خوش قسمتی ہے کہ ملک کے قومی اخبارات میں اُن کی کتاب پر تبصرے ہو رہے ہیں ، اور اُن کی کاوش کو سراہا جا رہا ہے۔وسیب کی تعلیمی پسماندگی کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ پہلی مرتبہ پنجاب کی پوری کابینہ بہاولپور آئی اور یہاں کئی اچھے کاموں کا فیصلہ کیا ، ان فیصلوں میں پنجاب میں تین نئی یونیورسٹیوں کا قیام بھی شامل ہے ، ایک یونیورسٹی سردار چاکر خان کے نام سے بھی منظور ہوئی ہے جو ڈی جی خان میں بنے گی، اگرچہ اس نام پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا ہے مگر بذات خود یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ اچھا ہے اسی طرح سرائیکی صوبے کے دارالحکومت کا فیصلہ بھی ہو جائے گا اور آنے والے وقتوں میں وسیب کے لوگوں کو خوشیاں حاصل ہوں گی ۔جب بھی کوئی نئی کتاب آتی ہے دل کو خوشی اور راحت نصیب ہوتی ہے کہ قومیں کتاب سے بنتی ہیں میں اپنے بھائی چوہدری اکمل شاہد کنگ کو اُن کی نئی کتاب ’’میرا عشق ہے پاکستان ‘‘ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔