پی ٹی آئی کے ایک وفاقی وزیر نے جو پانچ ہزار افراد کے قتل کی معصومانہ خواہش ظاہر کرنے پر ہر خاص و عام سے داد پا چکے ہیں‘ ایوان میں فرمایا کہ ع ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا یعنی دس مہینے میں رلانے اور چیخیں نکلوانے کے عظیم کارنامے کو وہ محض ابتدا قرار دے رہے ہیں۔ دس مہینے میں مہنگائی نے ستر سال کے ریکارڈ اس طرح توڑے کہ عملاً50ہزار ماہانہ کمانے والے کی آمدنی 30ہزار اور ایک لاکھ والے کی ساٹھ ہزار رہ گئی۔ اور صرف مہنگائی ہی نہیں ٹیکس بھی ان دس مہینوں میں اتنے لگے کہ مونگ پھلی کے دانے پر بھی ٹیکس کی گویا مہر لگ گئی ہے اور سنتے ہیں کہ بجٹ کے بعد بھی ٹیکس آلود گھٹا بدستور گاہے گاہے برستی رہے گی۔ دیکھا جائے تو موصوف کی پانچ ہزار والی فہرست کچھ معنے ہی نہیں رکھتے یہاں تو کروڑوں نشانے پر ہیں۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں قوم ٹیکس دے۔ یقین دلاتا ہوں کہ حاصل ہونے والی رقم ساری کی ساری قوم پر ہی خرچ ہو گی۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے جنون میں مبتلا حکومت کیا یہ پتہ نہیں کہ قوم پہلے ہی اتنے ٹیکس دے رہی ہے کہ دنیا میں کوئی اور قوم اس کے پاسنگ بھی نہیں۔چلئے اسے چھوڑیے‘ یہ سوال بھی ہے کہ وزیر اعظم کو بار بار یقین دلاتا ہوں کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔کیا ان کے خیال میں قوم ان کی بات پر (یا باتوں پر) یقین نہیں کر رہی؟ ٭٭٭٭٭ بجٹ پر بجٹ کے دوران حکمران جماعت کے لوگ یہ کہتے پائے گئے کہ ہم سے صرف دس مہینے بعد ہی حساب کیوں مانگا جا رہا ہے۔ بات کارکردگی کے حساب کی ہے تو وہ کوئی مانگ ہی کہاں رہا ہے۔ البتہ لوگ اپنی جیبوں کا حساب مانگ رہے ہیں جو دس مہینے میں خالی ہو گئی ہیں۔ چلیے جناب حساب نہ دیں اتنا بتا دیں کہ جیبوں کو خالی کس نے کیا؟ پچھلے دس برس میں لئے گئے 24ارب ڈالر قرضوں کا بہت شہرہ ہے۔ حکومت کہتی ہے سابق حکمران یہ ساری رقم کھا گئے۔ چلیے یہ بھی مان لیتے ہیں24کے 24ارب ڈالر کھا گئے جو سڑکیں بنیں۔ کارخانے لگے۔ توانائی کے منصوبے چلے وہ سب آپ ہی آپ کوئی خرچہ کئے بغیر بن گئے لیکن یہ بتا دیں کہ آپ نے دس ماہ میں کتنے قرضے لئے؟ چند روز پہلے وزارت خزانہ کے ذرائع کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ دس مہینے میں ساڑھے نو ارب ڈالر کے قرضے لئے گئے۔ رائونڈ ابائوٹ دس ارب کہہ لیجیے گویا۔ پانچ برسوں میں کشکول کی کارکردگی اسی طرح سے جاری رہی تو کل ساٹھ ارب کا قرضہ ہو جائے گا۔ دس سال میں 24ارب پانچ برس میں 60ارب کون سی رقم بڑی ہے؟ ظاہر ہے چوبیس ارب والی رقم ہی بڑی ہے‘ محض دس برس میں 24ارب استغفراللہ پورے پانچ سال میں محض صرف 60ارب ڈالر سبحان اللہ! ٭٭٭٭٭ لیکن یہ گنتی چند روز پہلے کی ہے منگل کو بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں یہ رقم زیادہ بتائی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ دس مہینوں میں قطری قرضے یا امداد سمیت 15.8ارب ڈالر قرضہ لیا گیا ہے اس کے مطابق چین سے 4.6ارب، سعودی عرب سے 3ارب کیش3.2ارب ڈالر کی موخر ادائیگیوں کی شکل میں لئے گئے۔ اسی طرح امارات سے بھی قرضہ لیا گیا جبکہ یہ قطری قرضہ الگ ہے۔ ملا کر قریب 6ارب ڈالر قرضہ ان دس مہینوں میں لیا گیا۔ ان میں وہ قرضہ شامل نہیں جو جو مختلف قومی اداروں سے لیا گیا اس کی مالیت 6ارب ڈالر ہے جبکہ آئی ایف ایم سے 6ارب ڈالر کا قرضہ لیا جانے والا ہے۔ ملا کر کتنی رقم بن گئی؟ ہوش کو چھ سات بار اڑانے کے لئے کافی ہے اور ہوش اڑانے کا ایک اضافی ماجرا الگ ہے۔ یعنی سود کی شرح چین سے قرضہ 5.5فیصد کی شرح پر لیا گیا۔ سعودی عرب اور امارات کو بھی 3.2فیصد سے زائد سود ادا کرنا ہو گا۔ یعنی جب یہ قرضہ واپس کرنے کی نوبت آئے گی تو رقم اور بھی زیادہ ،کہیں زیادہ ہو گی۔ ڈالر کے نرخ، قرضے کی مالیت روپے میں پچاس فیصد اور بڑھ جائے گی۔ اب حساب لگائیے کتنی بارہوش اڑے اور ابھی تو دس ماہ ہوئے ہیں۔ باون مہینے باقی ہیں اور حکمران جماعت ہمیں بتا رہی ہے کہ ابھی تو ع ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا ٭٭٭٭٭ فردوس عاشق صاحبہ‘ وفاقی مشیرہ فرماتی ہیں کہ عمران خان کو سلیکٹڈ کہنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ بجا فرمایا یہ بھی فرما دیں کہ یہ کہنا کیسا تھا کہ میں پارلیمنٹ پر ایک لاکھ مرتبہ لعنت بھیجتا ہوں۔ ایک کروڑ مرتبہ لعنت بھیجتا ہوں؟ بہرحال بھلا ہو ڈپٹی سپیکر کا انہوں نے ’’سلیکٹڈ‘‘ کے ’’ڈومیسٹک ایشو‘‘ کو بین الاقوامی بنا دیا۔ گلف نیوزاور نیو یارک ٹائمز وغیرہ نے مزے لے لے کر شہ سرخیوں کے ساتھ یہ سٹوری چھاپی، چار دانگ عالم میں ڈنکے بج رہے ہیں۔ اگلے مارچ میں قاسم سوری صاحب کے لئے کوئی نہ کوئی تمغہ پکا سمجھئے ٭٭٭٭٭ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کو مصر نہیں بننے دیں گے۔ عرض ہے کہ ع کھول آنکھ زمیں دیکھ ملک ’’دیکھ‘‘ فضا دیکھ ’’مغرب ‘‘ سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ محترمہ پاکستان معاشی اعتبار سے پہلے ہی مصر کی منزل پھلانگ چکا ہے یعنی مصر پلس ہو چکا ہے سیاسی پہلو ابھی رہنے دیجیے۔