5اگست 2019ء سے کشمیرمیں جاری لاک ڈائون کی کوریج کرنے والے تین کشمیری صحافیوں کو5مئی 2020ء میںامریکہ میںپلٹرز ایوارڈسے نوازاگیا۔ کشمیرکے جرنلسٹوںکے ایوارڈپربھارت جس طرح چیں بجبیں ہوا ۔مودی اینڈکمپنی کی اس حوالے سے حیرانی ،پریشانی،اضطراب و بے چینی بھارتی میڈیاپردیکھی جاسکتی ہے ۔بولتی تصویروں کی گویائی میں کوئی طوالت ،تکلف اور تصنع نہیں ہوتا۔صورتحال جیسی ہوتی ہے تصاویراسی کی ہوبہو عکس بندی کرتی ہیں۔ تصویرکسی مصیبت زدہ انسانی آبادی کے رنج و غم کوسامنے لانے کایہ ایک سائینٹفک اسلوب ہوتاہے کہ جس پرکسی ردوقدح اورمباحثوںکی ضرورت نہیںہوتی ہے اور نہ ہی منظرعام پرلانے والوں پربودے الزامات و دشنام طرازی کی جاسکتی ہے ۔ صورتحال کوجاننے اورسمجھنے کے لئے اس کا ہرپہلو زودآگہی فصیح وبلیغ ہونے کے ساتھ ساتھ فکرانگیزہوتاہے۔ تصویر چونکہ واقعات اورسانحات کا ہوبہوعکس ہوتی ہے اس لئے اس میں غضب کا توازن ہوتاہے اور یہ کسی فرد،افراد،معاشرے یاریاست کی صورتحال کوواضح طورپر پیش کرنے کایہ نہایت دلنشین اور شگفتہ اندازہوتی ہے۔گویایہ کوئی طلسم ہوش ربانہیں بلکہ من وعن کیفیت کانام ہوتا ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلامیان کشمیر پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تصاویر اس قدرزہرگدازہیں کہ جن کے تصورسے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ واضح رہے کہ بلاضرورت تصویربناناشرعی طورپرممنوع ہے لیکن بعض مجبوریوں میں اجتہاداََ اسکی اجازت دے دی گئی ہے ۔ کشمیر کے تین فوٹو جرنلسٹوں نے تصاویرکے ذریعے جہاں کشمیرمیںبھارتی بربریت کوطشت ازبام کیاہے وہیں اس سے یہ بھی پتاچلتاہے کہ تحریک آزادی کوجاری وساری رکھنے کے حوالے سے اسلامیان کشمیرکے قوی مضحمل نہیںہوئے بلکہ بے شمار زخموں پرخون میں تربتر لباس اوڑھے وہ پیکراستقامت کھڑے ہیں۔ بلاشبہ کشمیرکے فوٹوجرنلسٹوں کی محنت شاقہ سے بنائی گئی کشمیر کی تصاویرنے بھارت کے اس جھوٹ پرجھاڑوں پھیردیاجووہ کشمیرسے متعلق بول بول کردنیاکی رائے عامہ کوگمراہ کرتارہاہے۔ تصاویر دورجدیدکی صحافت کا، اثر آفریں اندازہوہے ۔کیفیات اورصورتحال کایہ آسان وسیلہ اظہار ہوتاہے۔مظلومین کاسینہ چھلنی، چھت چھلنی ہوتاہے ۔تواس پرتصویربولتی ہے ۔ان کا دل غموں سے کس قدر خوںریز ہوتاہے ۔ انکی زندگیاں غم وآلام سے کس قدر نبرد آزمائی میں کٹ جاتی ہیں۔غموں کے اژدھام میں وہ کس قدربجھ چکے ہوتے ہیںاوروہ شعور وخردکے سہارے جوانمردی سے ان کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں ۔تصویربولتی ہیں ۔ رنج کا خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں کشمیر میں 5اگست2019ء کے بعد حالات وواقعات کو جبر اور بے خبری کے پردوں کے پیچھے چھپانے کی جو رسم شروع ہوئی ہے، تین صاف گو اور جراتِ اظہار کے حامل جرنلسٹوںنے منظرکشی کرکے اسے طشت ازبام کردیا۔ اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم دنیا کو دکھانے والے تینوںکشمیری فوٹوگرافرزبلاشبہ صحافت کے اعلیٰ ترین ایوارڈ کے مستحق تھے۔جنہوں نے بھارت کی نام نہاد جمہوریت کے چہرے سے نقاب سرکایااوراس کا فاشسٹ چہرہ بے نقاب کردیا۔ سرعام اپنامنہ برہنہ ہونے کی خجالت سے بھارت کو اپنی ہیچ ظرفی کا احساس کچھ اس طریقے سے چاٹنے لگا ہے کہ اس کی قوت سماعت ہی ختم ہوچکی ہے اور سچائی و حقیقت بیانی کے علمبردار اسے ایسے دشمن دکھائی دینے لگتے ہیں جن کی کھال ادھیڑ کر ہی بھارت اپنی شیطانی انا کو تسکین کا سامان ڈھونڈتا ہے۔ بہرحال کشمیرکے تینوں فوٹوگرافرز کو مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو تصاویر کی شکل میں دنیا کے سامنے لانے پر مذکورہ ایوارڈ سے نوازا گیا۔پلٹزر ایوارڈ امریکا کا اعلی ترین و معتبر صحافتی ایوارڈہے، جو ہر سال صحافت کی متعدد کیٹیگریز میں دیا جاتا ہے۔ تینوں کشمیری فوٹوگرافرز کو صحافت کے شعبے کی فیچر فوٹوگرافی کیٹیگری میں ایوارڈ دیا گیا۔تینوں فوٹوگرافرز کو مجموعی طور پر ایک ہی ایوارڈ دیا گیا۔پلٹزر ایوارڈ کی تقریب آن لائن منعقد کی گئی تھی اور جیتنے والوں ورچوئل انعامات سے نوازا گیا، تاہم ادارہ جیتنے والے تمام افراد کو ایوارڈز اور رقم پہنچا دے گا۔ انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی نہتے کشمیری پر مظالم کی کوریج کی، کشمیریوں کے گھروں میں چھاپوں اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی تصاویر بنا کر دنیا کو بھارت کا حقیقی چہرہ دکھایا۔ ڈار یاسین، مختار خان اور چنی آنند کا کہنا ہے کہ بھارتی مظالم اور وادی میں پابندیوں نے دنیا تک سچ پہنچانے کی ان کی جستجو کو مزید بڑھایا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایوارڈ ہنگرین نژاد امریکی صحافی جوزف پولٹزر کے نام سے 1917ء میں جاری کیا گیا تھا اور عملی صحافت اور فن و ادب میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو اس ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ شعبہ صحافت کے معبتر ترین اعزازات میں شمار ہوتا ہے۔