ناموربھارتی ادیب، صحافی خوشونت سنگھ کی تہلکہ خیز کتاب کی تلخیص

تحریر :خوشونت سنگھ 

ترجمہ وتلخیص :محمد اختر

آنجہانی خوشونت سنگھ بھارت کے مشہور ادیب اور کالم نگار تھے۔وہ کئی اخبارات کے بانی اور ایڈیٹر رہے۔وہ ’’ٹرین ٹو پاکستان ‘‘،’’آئی شیل ناٹ ہیئر دی نائٹ اینگیل ‘‘ اور ’’دلی ‘‘ جیسی کلاسک کتابوں کے مصنف ہیں۔انہوں نے اپنا آخری ناول ’’دی سن سیٹ کلب ‘‘ پچانوے سال کی عمر میں لکھا جسے پینگوئن بکس نے شائع کیا۔ان کی نان فکشن کی کتابوں میں دو جلدوں پر مشتمل ’’اے ہسٹری آف سکھ ‘‘ کے علاوہ سکھ مذہب ، ثقافت ، دہلی،فطرت،حالات حاضرہ اور اردو شاعری پر متعدد ترجمے شامل ہیں۔ دوہزار دو میں پینگوئن بکس نے ان کی سوانح عمری ’’ٹرتھ ، لو اینڈ اے لٹل میلائس ‘‘بھی شائع کررکھی ہے جس کا اردو ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔

خوشونت سنگھ 1980سے 1986 کی مدت کے دوران بھارتی پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔1974میں انہیں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا تاہم1984میں امرتسر میں گولڈ ن ٹیمپل پر بھارتی فوج کے دھاوے کے خلاف بطور احتجاج انہوں نے یہ ایوارڈ واپس کردیا۔2007میں انہیں پدم وبھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا جو کہ بھارت کا دوسرا سب سے بڑاایوارڈ ہے۔انہیں اس کے علاوہ بھی متعدد ایوارڈ ز مل چکے ہیں۔

ذیل میں خوشونت سنگھ کی کتاب ’’دی لیسنز آف مائی لائف ‘‘(میری زندگی کے سبق)کی انگریزی سے اردو میں ترجمہ و تلخیص پیش کی جارہی ہے اورامید کی جاتی ہے کہ اخبار 92کے قارئین کو یہ کاوش پسند آئے گی۔

تمہید 

میں اس وقت روایتی ہندو عقیدے کے مطابق زندگی کے چوتھے اور آخری مرحلے یعنی سنیاس میں ہوں۔مجھے اس وقت تنہائی ا ور مراقبے میں غرق ہونا چاہیے ۔مجھے دنیاوی زندگی کے تمام تعلقوں اوردلچسپیوں کو ترک کردینا چاہیے تھا۔ گرونانک کے مطابق جو انسان اپنی زندگی کی نوے کی دہائی میں داخل ہوجاتاہے وہ بہت کمزوری محسوس کرتا ہے ۔ وہ اپنی کمزور ی کی وجوہات کو سمجھ نہیں پاتا اورہر وقت لیٹا رہتا ہے۔میں ابھی تک اپنی زندگی کے ان دونوں مرحلوں میں نہیں پہنچا ۔

میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اٹھانوے سال کی عمر میں میں ہر روز شام سات بجےمشروب پیتا ہوں ۔اپنی پسند کی خوراکیں کھاتا ہوں اور تازہ ترین گوسپ یعنی گپ بازی کی خبروں اور سکینڈلز کی تلاش میں رہتا ہوں۔جولوگ مجھ سے ملنے آتے ہیں میں ان کو کہتا ہوں ،’’اگر آپ کے پاس کسی کے بارے میں کہنے کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہے تو آئیں اور میرے ساتھ بیٹھیں۔‘‘مجھے اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں بڑا تجسس ہے۔میں خوبصورت عورتوں کی محفل سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔میں شاعری اور ادب سے اور فطرت سے لطف اٹھاتا ہوں۔

اور میری عمر کے لوگوں کے بارے میں گرونانک نے جو کچھ کہا ہے ، اس کے برعکس میں لیٹ کر زیادہ وقت نہیں گذارتا۔میں صبح چار بجے جاگتا ہوں اور اس کے بعد زیادہ وقت اپنی کرسی پر گذارتا ہوں ۔پڑھتا اور لکھتا ہوں۔میں نے اپنی ساری زندگی بہت محنت کی ہے ۔ ایک نظم وضبط کی حامل زندگی گذاری ہے۔ان چیزو ں نے مجھے اس عمر میں بھی اچھی حالت میں رکھا ہوا ہے۔

لیکن گذشتہ سال کے دوران میں قابل ذکر حد تک سست رفتار ہوچکا ہوں۔میں اب آسانی سے تھک جاتا ہوں اورخاصا بہرا بھی ہوچکا ہوں۔ان دنوں میں اکثر اپنے قوت سماعت کے آلے کو کان سے نکال لیتا ہوںکیونکہ ٹی وی کاشور اور ملاقاتیوں کا غل مجھے تھکا دیتا ہے۔میں بہرے پن سے ملنے والی خاموشی کو پسند کرتا ہوں۔میں جب خاموشی اور تنہائی میں بیٹھا ہوتا ہوںتو اکثر پیچھے مڑکر اپنی زندگی کی طرف دیکھتا ہوں۔میں سوچتا ہوں کہ کون سی چیزوں نے مجھے انرچ یعنی دولت مند کیا ۔میرے لیے کیا اور کون اہم ہے۔میں نے کون سی غلطیاں کیںاور کون سے پچھتاووں نے مجھے دکھ دیے۔میں اس قیمتی وقت کے بارے میں سوچتاہوں جو میں نے فضول کاموں اور سماجی سرگرمیوں میں ضائع کیا ۔میں اپنے ان سالوں کے بارے میں سوچتا ہوں جو میں نے لکھنے کو اپنی سرگرمی بنانے سے پہلے بطور قانون دان اور سفارت کار کے گذارے۔میں روز مرہ زندگی میں مہربانی کی اہمیت کے بارے میں سوچتا ہوں۔اور یہ کہ ہنسی اور قہقہے میں کتنی طاقت ہے بالخصوص جب انسان اپنے اوپر ہنستا ہواور یہ کہ اس میں کس قدر دیانت کی ضرورت ہوتی ہے۔

میری زندگی میں بہت سے اتار چڑھائو آئے لیکن میں نے بھرپور زندگی گذاری اور میرا خیال ہے کہ میں نے اس سے سبق بھی سیکھے۔

 

 

منفرد لیمپ 

میری ہمسائی ریٹا دیوی ورما نے مجھے ایک فٹ اونچا لیمپ دیا ہے جس کے چارو ں طرف شیشہ لگا ہوا ہے ۔لیمپ کے اندر ایک موم کا دیا لگا ہے۔چونکہ یہ لیمپ چاروں طرف سے بند ہے ، اس لیے اس کادیا شاز وناذرہی پھڑپھڑاتا ہے۔بعض اوقات یہ ہلکاسا لہراتا ہے اور پھر ساکت ہوجاتا ہے۔میں شام کو جب تنہا ہوتا ہوں تو گھنٹوں اس کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھتا ہوں ۔یہ چیز مجھے سکون اور اطمینان دیتی ہے مجھے کہاجاتا ہے کہ یہ مراقبے کی ایک شکل ہے ۔تاہم میرا ذہن بالکل بھی ساکت نہیں ہوتا ۔ اس کے بجائے یہ بہت متحرک ہوتا ہے۔سپر ایکٹو ہوتا ہے۔

میں اٹھانوے سال کا ہوچکا ہوں اس لیے مستقبل یعنی آگے دیکھنے کے لیے میرا پاس بہت کم وقت ہے لیکن ماضی میں دیکھنے کے لیے وقت کی کوئی کمی نہیں۔میں اپنی کامیابیوں اورناکامیوں کی بیلنس شیٹ بناتا ہوں۔زندگی کے مثبت پہلوئوں کو دیکھوں تو میرے کریڈٹ پر لگ بھگ اسی کتابیں ہیں جن میںناول ، افسانے ، سوانح عمریاں ، تاریخ ، پنجابی اور اردو سے ترجمہ کی کتابیں اور بہت سے مضامین میری تخلیقات ہیں۔منفی پہلوئوں کی بات کروں تو یہ میرا کردار ہے۔اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں میں نے اپنی بہت سی شامیں برائیوں کا تعاقب کرتے گذاریں۔اپنی ائیرگن سے میں نے درجنوں چڑیاں ماریں جنہوں نے میرا کچھ نہ بگاڑا تھا۔میںنے ایک فاختہ کو مارا جو انڈوں پر بیٹھی تھی۔فاختہ نے اڑنے کی کوشش کی لیکن پھر وہ گرپڑی۔جب میں اپنے ایک انکل کے ساتھ میاں چنوں میں مقیم تھاا ور جن دنوں ان کی روئی کی فیکٹری لگ بھگ ایک ماہ بند رہی تو میںروزانہ شام کے وقت آوارہ گردی کرتا اوراس دوران میں نے متعدد جنگلی کبوتروں کوشکار کیا ۔جنگلی کبوتر نیچے گرپڑتے اور بچے ان کو اٹھاکر لے جاتے تاکہ زبح کرکے کھائیں۔میں نے کئی شکارپارٹیو ں میں شرکت کی اور معصوم پرندوں کا شکار کیا ۔بھارت پور میں ایک منظم شکار پارٹی کے دوران میں نے دو گھنٹے میں لگ بھگ درجن بھر بطخوں کا شکار کیا۔مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ یہ غلط ہے اوریہ ایک ایسا گناہ ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔میں اپنے اعمال کی سزا بھگت رہا ہوں کیونکہ ان معصوم پرندوں کی روحیں آج بھی ہر شام مجھے ڈراتی ہیں۔

ان یادوں سے میں اس افسوس ناک نتیجے پرپہنچا ہوا کہ میں ہمیشہ سے ایک لیچڑ، ایک نہایت شرارتی انسان بھی ہوں ۔چار سال کی اوائل عمری سے لیکر اٹھانوے سال کی موجودہ عمر تک میں یہی سمجھتا ہوں کہ میں ایک لیچڑ ہوں ۔ ایک ا یسا شخص جس کے ذہن میں ہر وقت کوئی نہ کوئی شرارت چھپی رہتی ہے۔میںنے کبھی خود کوایک مثالی مرد کے طورپر پیش نہیں کیا جو دوسری عورتوں کو اپنی ماں ، بہن یا بیٹی سمجھتا ہے ۔ عورت کی عمر چاہے کچھ بھی ہو، میرے لیے وہ شہوت کی چیز ہیں اور تھیں۔

دوسال قبل کی بات ہے کہ میں نے فیصلہ کیاکہ میں کچھ چیزوں سے دست بردارہوجائوں ۔ کچھ لوگ اسے ریٹائرمنٹ کہیں گے لیکن میںنے  اس کے لیے ایک کھوکھلے انڈین لفظ سنیاس کاانتخاب کیا۔لیکن یہ ایک ایساسنیاس نہیں تھا جوکہ عام طورپر سمجھا جاتا ہے یعنی دنیا سے مکمل طورپر دستبرداری۔میں اپنے پرآسائش گھر میں رہناچاہتاتھا ۔لذیذ کھانوں سے لطف اندوزہوناچاہتاتھا۔روزانہ بادہ نوشی چاہتا تھااور اپنی پسندیدہ موسیقی سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا اور اپنی تمام حسیات کو استعمال کرناچاہتاتھا چاہے وہ کتنی بھی رہ گئی تھیں۔اس کے بجائے میں نے جزوی دست برداری سے ابتداء کی ۔میں نے ٹی وی یا ریڈیوپر آنے سے انکارکردیا۔ دوسر اقدم میں نے یہ اٹھایا کہ اپنے گھر آنے والے ملاقاتیوں کی تعداد کو بالکل کم کردیا۔یہاں پرمجھے کامیابی نہیں ملی کیونکہ میں ماضی میں ملاقاتیوں کی تعداد کواس سے زیادہ کم کرچکا تھا۔بہرحال ملاقاتی آتے رہے۔میں نے ان لوگوں کو خوش آمدید کہاجن کو میں اچھی طرح جانتا تھا تاہم ساتھ ہی ان سے کہا کہ وہ دوستوں کو لے کرمت آئیں۔ان کاخیال تھاکہ میری گردن میں سریا آگیا تھا یا میں مغرورہوگیا ہوں۔ یہ سچ نہیں ۔اصل میں اب میں اجنبیوں سے مکالمہ نہیں کرناچاہتاتھا۔میں اخبارات اوررسالوں کو انٹرویو نہیں دیتاتھا۔تاہم کچھ لوگ ہماری گفتگو کو انٹرویومیں ڈھال لیتے تھے۔

میں نے جان لیا تھا کہ جب وہ آخرمیں مجھ سے پوچھتے ، ’’کیا آپ کوزندگی میں کوئی پچھتاوا ہے ؟‘‘یہ عام طورپر آخری سوال ہوتاتھا۔

مکالمے کو انٹرویو میںڈھالنے پر غصہ میں آنے کے بجائے میں سوچ میں پڑجاتا۔کیامجھے واقعی کوئی پچھتاوا تھا۔یقینا مجھے کئی پچھتاوے تھے۔میں نے اپنی تعلیم اورقانون کی تعلیم جس سے مجھے نفرت تھی ، پر کئی سال ضائع کردیے تھے۔میں نے حکومت کے لیے خدمات سرانجام دینے پر جتنے سال لگائے تھے اس پربھی مجھے افسوس تھا۔یونیسکو پیرس میں جو سال لگائے تھے اس پر بھی افسوس تھا۔اگرچہ میں نے کئی مقامات کی سیر کی اور زندگی کا لطف اٹھایا اور پھر لکھنے کابھی آغاز کیا۔تاہم میں بہت کچھ اس سے بہتر کرسکتا تھا۔میں اپنا لکھنے کاکیرئیر بہت پہلے شروع کرسکتا تھا۔

چونکہ اب میں ان بیتے سالوں کے حوالے سے کچھ نہیں کرسکتا، اس لیے ان کوبھولناہی بہترہے یعنی اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔انسان جوں جوں بوڑھا ہوتاہے ،اس کی پانچ حسیات میں سے چارحسیات وقت کے ساتھ زوال پذیرہوجاتی ہیں ۔صرف ایک حس ہے جوسب سے آخر میں جاتی ہے اوروہ ہے زائقے کی حس ۔مجھے بذات خود اس کاتجربہ ہورہا ہے۔جوں جوں میں بوڑھا ہورہا ہوں توں توں میں سوچنے لگا ہوںکہ مجھے ناشتے میں،دوپہراور رات کے کھانے میں کیاکیا کھاناچاہیے۔

جہاں تک تین میں سے پہلے دو کھانوں کی بات ہے تویہ برائے نام ہوتے ہیں ۔ یعنی صبح کے ناشتے میں زیادہ سے زیادہ ایک مکھن والا توس اورچائے کا مگ جبکہ دوپہر کے کھانے میں یخنی کا پیالہ اوردہی ہوتا ہے لیکن جب ڈنر کاوقت ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ یہ بہت شاندارہونا چاہیے۔اس میںسلاد کے ساتھ مین ڈش ایک ہی ہوتی ہے مگر آخر میں پڈنگ اور آئس کریم ہوتی ہے۔

میں نے یہ بھی دریافت کیا کہ اس کھانے سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مجھے بھوک لگی ہو اور میرا پیٹ خالی ہو۔ کھانا کھانے کا سب سے زیادہ مزا تب آتا ہے جب آپ تنہا ہوں اور مکمل خاموشی ہو۔ہمارے ہندوآباو اجدادرات کاکھانا ایسے ہی کھاتے تھے۔ان کے لیے ایسا کرنے کی بہت اچھی وجوہات ہوا کرتی تھیں اور یوں میں بھی ان کی مثال پر عمل کرتا ہوں ۔لوگوںکی صحبت میں یا اپنے خاندان کے ارکان کے ساتھ کھانا کھانے سے تعلق تو شاید مضبوط ہوتاہے تاہم اس سے مزیدار کھانے کا مزا اکارت ہوجاتا ہے۔ 

کھاتے ہوئے باتیں کرنے سے بہت سی ہوابھی غذا کے ساتھ ہمارے معدے میں چلی جاتی ہے ۔پینے اور کھانے کے حوالے سے میں اپنے رول ماڈل مرزا اسد اللہ خان غالب کی پیروی بھی کرتا ہوں۔اپنی بوتل کھولنے سے پہلے مرزا غالب روزانہ شام کو نہایاکرتے اور صاف کپڑے پہنا کرتے تھے ۔پھر وہ اپنے جام میں مے انڈیلتے اور اس میں صراحی کا خوشبودار پانی شامل کرتے اور مکمل خاموشی میں بادہ نوشی کرتے ہوئے اپنے لافانی اشعار تخلیق کرتے جن میں وہ شراب اور عورت کی مدح کرتے۔وہ اس بات کازیادہ خیال نہیں رکھتے تھے کہ انہوں نے ڈنر میں کیاکھایا تھا۔

جب میں لوگوں کی صحبت میں کھانا کھاتا ہوں تو میں جو کھانا اپنے منہ میں چبارہاہوتا ہوں ،اس کے ذائقے کو بمشکل ہی محسوس کرپاتا ہوں۔اس کے مقابلے میںتنہائی میں کھاتے ہوئے میں اپنی آنکھوں کو بند کرلیتا ہوں اور اپنی اندر کی آنکھ سے اس کھانے کو دیکھتا ہوں جو میں چبارہا ہوتا ہوں۔اس وقت مجھے واضح طورپر محسوس ہوتاہے کہ میں کھانے کے ساتھ انصاف کررہا ہوں۔بالکل اس طرح جس طرح خوراک میرے ساتھ انصاف کرتی ہے ۔کھاتے ہوئے کبھی جلدی جلدی کھانا ختم کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ تھوڑا وقت لگائیں اور کھانے کامزا اٹھائیں۔

میں ایک گوشت خور تھا اور اب بھی ہوں۔میں سمجھتا ہوںکہ سبزی خوری فطرت کے نظام کے خلاف ہے کیونکہ تمام جاندار کسی نہ کسی شکل میں گوشت خوری کرتے ہیں۔میں مختلف النوع غذائیں پسند کرتا ہوں۔چندن پچاس سال سے میرا باورچی ہے ۔اب وہ کافی بوڑھا ہوچکاہے اور کھانے کی نئی ترکیبوں پرکام نہیں کرپاتا۔اس مسئلے کاحل میں نے یہ نکالا ہے کہ میںنے مختلف ہوٹلوں اورریسٹورینٹس کے مینو اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جو کہ کھانا گھرپرفراہم کرتے ہیں۔میں باری باری ان کھانوں کو آزماتا ہوں جن میں چائنیز، تھائی ، فرنچ ، اٹالین اورسائوتھ انڈین اور دیگر کھانے شامل ہیں۔میرے پا س ایسی خواتین کے نمبر بھی ہیں جو اپنے گھروں پر مختلف نوعیت کے کھانے بنانے میں مہارت رکھتی ہیں اور آرڈر پر کھانا فراہم بھی کرتی ہیں۔

مس ارشی دھوپیا بہت اچھے میٹھے اورنمکین سموسے اور چاکلیٹ کیک بناتی ہیں۔اس طرح کلیردت ہروہ چیز بناسکتی ہیں جو مجھے پسند ہے۔فرانسیسی طباخ بریلاٹ ساوا رن تو یہاں تک کہتا ہے کہ آپ مجھے بتائیں کہ آپ کیا کھاتے ہیں ، میں آپ کو آپ کی شخصیت کے بارے میں بتادوں گا۔میں اگر اسے اپنی متفرق خوراکوں کے بارے میں بتادوں تو وہ شاید مجھے سور قرار دے دے۔لیکن ایسی بات نہیں ہے۔میری خوراک سور جیسی نہیں ہے۔میں بہت نپی تلی مقدار میں کھانا کھاتاہوں۔میں بریلاٹ ساوارن کے دعووں کی تائید کرتا ہوں۔ایک مردکی خوشی کے لیے ایک نئی خوراک کی دریافت ایسے ہی ہے جیسے کوئی نیا ستارہ دریافت کرلیا جائے۔لارڈ بائرن کی طرح میں رات کے کھانے کا انتظار اس طرح کرتا ہوں جیسے جوانی کے دنوں میں اپنی محبوبہ کاانتظارکرتاتھا۔

اب آخر میں ایک احتیاط بھی بتادوں ۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ضرورت سے زیادہ نہ کھالیں ۔خراب پیٹ اور بدہضمی ایک مزیدارکھانے کا سارا لطف رائیگاں کردیتے ہیں۔

ریٹائرہرٹ ہونے کی ضرورت نہیں

عمر کے وسط کو پہنچنے والے ان حضرات کے ذہنوں میں اس وقت کیاچل رہا ہوتاہے جب وہ اپنے دن بھر کاکام کرلیتے ہیں اور ان کے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں ہوتا؟خود بینی کی بنیاد پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ تین چیزوں، جن کا تناسب وقت گذرنے کے ساتھ تبدیل ہوتارہتا ہے ، کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیںاس کا تعلق بقاء کی بنیادی ضرورت سے ہوتاہے۔اس کے بعد افزائش نسل ہے جبکہ تیسرے نمبرپر ماضی کی یاد اور مستقبل کی بے یقینی ہے۔

اگر وہ اب بھی کام کررہے ہیں تو پہلے وہ سوچتے ہیں کہ ان کا کام کیسے آگے بڑھ رہا ہے اور کون سا کام ہونا باقی ہے۔انہیں اپنی روزی روٹی کی فکر ہوتی ہے یعنی بقاء کی جبلت ۔اس کے بعد وہ جنسی تعلقات کے بارے میں سوچتے ہیں جو وہ رکھتے ہیںیا رکھنے کی خواہش کرتے ہیں۔ آخر میں وہ اپنے ماضی کی طرف چلے جاتے ہیں۔آخر میں وہ ماضی کی طرف چلے جاتے ہیں۔وہ اپنے دوستوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو ماضی میں ہو اکرتے تھے۔اسکے بعد غلط فہمیاں یاموت کے بارے میں جو تمام تعلقات کو ختم کردیتی ہے اور یہ کہ مستقبل میں ان کے لیے کیا ہے۔

مغل دربار کے شاعر مرزامحمد رفیع سودا بھی انہی سطورپر سوچتےتھے:

فکر معاش ،  عشق بتاں  ، یاد رفتگاں

اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کرے

مرزا اسد اللہ خان غالب بھی یہی کہہ رہے ہیں ماسوائے یہ کہ ان پر لٹکتی ہوئی موت کی تلوار غالب آئی ہوئی تھی۔وہ زندگی کی ہنگامہ خیزی سے فرصت کی حسرت کرتے ہیں اور روز ی روٹی کی جدوجہد کے دنوں کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن 

بیٹھے   رہیں   تصور  جاناں  کیے  ہوئے

 زندگی کے آخر کے دنوں میں انسان اپنی روزی روٹی کے بارے میں اتنا فکرمند نہیں ہوتا۔ان دنوں میں وہ محبوب کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں سوچتا ہے اورہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے دوستوں کے بارے میں سوچتا ہے۔وہ انجانے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوتا ہے۔میں حیران ہوتا ہوں کہ قدرت نے انسانوں کو ایک طے شدہ وقت کیوں نہیں دیا تاکہ وہ اپنی زندگی سے بھرپور طورپر لطف اندوزہوسکیں۔

اکثر لوگ ساٹھ سال کی عمر تک ٹھیک حالت میں رہتے ہیں ۔ اس کے بعد جسم خرابیاں دکھانے لگتا ہے اور زندگی نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔عورتیں چالیس کی دہائی میں تبدیلیوں سے گذرنے لگتی ہیں۔سن یاس کا مسئلہ ، چڑچڑاپن ، جنسی افعال میں دلچسپی کاختم ہونا اور وزن بڑھ جانا ، عورتوں کے اندر عمر کے ساتھ آنے والی اہم تبدیلیاں ہیں۔

اس طرح مردانہ سن یاس بھی ہوتا ہے جس میں مردوں میں ٹیسٹوسٹیرون اور لبیڈو (جنسی خواہش)کی سطح کم ہوجاتی ہے اور یہ عام طورپر مردوں کی عمر کی پچاسویں دہائی میں ہوتا ہے۔یہ بہت مختصر دورانیہ ہوتا ہے اس لیے زیادہ ڈرامائی بھی ہوتا ہے اور اگر انسان اس کے لیے پیشگی طورپر تیار نہ ہوتو یہ بعدکی زندگی میں بہت خراب اثرات کاحامل ہوسکتا ہے۔

ایک ایسے آدمی کا تصور کریں جو سرکاری یا پرائیویٹ نوکری کرتا ہے۔اس کا کام وقت کا پابند ہوتا ہے۔وہ ایک مخصوص وقت پر جاگتا ہے۔کام کی جگہ پر مخصوص وقت گذارتا ہے اور اس کے بعد شام کو گھر آجاتا ہے۔لگ بھگ چالیس سال تک اس کا یہی معمول رہتا ہے۔ریٹائرمنٹ پر اس کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جاتی ہے ، اس کے اعزاز میں تقاریر کی جاتی ہیں جن میں اسے خراج تحسین پیش کیاجاتا ہے۔اس موقع پر اس کا باس اسے گھڑی کا تحفہ پیش کرتا ہے اور خدحافظ کہتاہے۔

شام کو وہ اپنے معمول سے ہٹ کر کچھ دیرسے گھر پہنچتا ہے۔صبح وہ معمول کے مطابق جاگتا ہے لیکن اس نے کہیں جانا نہیں ہوتااور کچھ کرنا نہیں ہوتا کیونکہ وہ ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔اس کی صحت اب بھی اچھی ہے۔وہ سارا دن کیا کرے گا؟اس کے پاس جو وقت ہے وہ اس کو کیسے اور کہاں صرف کرے گا؟

اگر آپ فوجی سروس میں ہیںتو ریٹائرمنٹ کا دن اور بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔اگر فوجی کو ترقیاں نہ ملی ہوں تو وہ اپنی بھری جوانی میں ریٹائرڈ ہوجاتا ہے اوراسے جو پنشن دی جاتی ہے وہ بہت قلیل ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس میں گذارا کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔چنانچہ ریٹائرمنٹ کے بعد اسے ایک اور نوکری کی ضرورت پڑتی ہے یا دوسرے لفظوں میں ایک اور متبادل روز گار تلاش کرنا پڑتا ہے۔

کام کرنے والے انسان کی زندگی میں ریٹائرمنٹ ایک مشکل مرحلہ ہوتاہے اور نازک وقت ہوتا ہے ۔جو لوگ اس بات کی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کرتے کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کرنا ہے ، ان پر یہ وقت اور بھی کڑا گذرتا ہے۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ ریٹائرمنٹ کے حوالے سے پیشگی منصوبہ بندی کی جائے۔اس سلسلے میں دو چیزیں ہیں جنہیں مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ، اول صحت اور دوئم معاشی استحکام۔عقل مندی کاتقاضایہ ہے کہ ریٹائرمنٹ آنے سے پہلے اس کی اچھی منصوبہ بندی کرلی جائے تاکہ ریٹائرمنٹ کا وقت اچھے انداز میں گذر سکے۔بجائے اس کے ریٹائرمنٹ کا وقت فکرمندی اورپچھتاووں کے احساس کے ساتھ گذارا جائے ، وقت کو اچھے انداز میں استعمال کرکے اس سے بچاجائے۔

بہت سے مندروں اورگردواروں میں اجتماعی عبادات میں شریک ہوتے ہیں اور دل کاسکون او راطمینان حاصل کرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ دوستوں اوررشتہ داروں کے ساتھ گپوں میں وقت صرف کرتے ہیں۔یہ لوگ وقت کو بری طرح سے ضائع کرتے ہیں جبکہ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔

ریٹائرڈ لوگوں کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں آپشنز موجود ہوتے ہیں۔اگر ان کے پاس پیسے کی کمی ہے تو وہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرسکتے ہیں جس میں انہیں منافع ملتا رہے۔اگر وہ پیسوں کے معاملے میں خوش حال ہیں تو وہ کوئی مشغلہ یا دلچسپی اختیار کرسکتے ہیں۔مثال کے طورپر وہ باغبانی کرسکتے ہیں ،کوئی نئی زبان سیکھ سکتے ہیں یا آرٹ کورس وغیرہ میں داخلہ لے سکتے ہیں۔یا معاشرے اور سماج کی خدمت کے لیے خود کو مصروف کرسکتے ہیں جیسے غریب لوگوں کے بچوں کو پڑھانا ، لاوارث جانوروں کی دیکھ بھال کرنا ، بوڑھے اور بیمار لوگوں کی رضاکارانہ خدمت کرنا ۔ کچھ نہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ خود کو بے کار اور ناکارہ بنارہے ہیںاور یوں اپنے خاتمے کو جلد ازجلد قریب لارہے ہیں۔

نئی دلی والا

میں بچپن سے ایک دلی والا ہوں۔یہ شہرمیری شخصیت کا اٹوٹ انگ بن چکا ہے۔آج کل میں اکثر سوچتا ہوں کہ دلی شہر کس طرح پھلا پھولا اور تبدیل ہوا۔میں یہ جان کر حیران ہوں کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران لوگوں کی دلی شہر کے ساتھ دلچسپی میں بہت اضافہ ہوا ہے بمقابلہ اس وقت کے ، جب 1947میں ملک کی تقسیم ہوئی تھی۔میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ آبادی کی فطر ت میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلی ہے ۔

جس وقت ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی تو دہلی کی چالیس فیصد آبادی مسلمان تھی۔تقسیم ہوئی تو دہلی کی تیس فیصد مسلم آبادی پاکستان چلی گئی۔لیکن ان کی جگہ اس سے بھی زیادہ غیرمسلم یعنی ہندو اور سکھ لوگ جن کاتعلق پنجاب ، این ڈبلیو ایف پی اور سندھ سے تھا ،وہ دہلی میں آن بسے ۔ان نئے مہاجروں کی دہلی کے ساتھ کوئی جذباتی وابستگی نہیں تھی ۔ان کا تمام تر ناسٹلجیا ان شہروں ا ور قصبو ں سے وابستہ تھا جہاں سے انہیں نکالا گیا تھا۔دہلی شہر ان کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ تھا اور ان کا خیال تھا کہ وہ جلد ان علاقوں کی طرف واپس لوٹ جائیں گے جہاں سے وہ آئے تھے۔

اس کے مقابلے میں ان کے بچوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ایسا نہ تھا۔انہوںنے تو شہر کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی تھی۔یہ ایک ایسی وابستگی تھی جس کو سکول اورکالج مزید پختہ بناتے تھے جو گاہے بگاہے اپنے طلباء کو شہر کے تاریخی مقامات کی سیر کراتے رہتے تھے۔حالیہ سالوں کے دوران دہلی شہرپر کئی ایسی خوبصورت کتابیں شائع ہوچکی ہیں جو شہر کی دیدہ زیب تصاویر سے مزین ہیں۔ دولت مشترکہ کھیلوں کے موقع پر کئی اشاعتی اداروں نے دہلی پر کتابیں اور دیگر مواد شائع کیا۔ان سے شہر کے بارے میں بھرپور آگاہی پیدا ہوتی ہے۔

اس وقت شہر کی جو صورت ہے ، وہ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ میں ہوں۔جب میں پہلی بار دہلی آیا تو بمشکل پانچ سال کاتھا اور اس وقت نئی دہلی کا کوئی نام ونشان نہ تھا۔مجھے یاد ہے کہ جو علاقے آج سندر نگر ، کالندی کالونی اور مہارانی باغ کہلاتے ہیں ، وہاں ہرنوں ، نیل گائے اور جنگلی سوروں کے جھنڈ کے جھنڈ گھوما کرتے تھے۔میں نے نئے شہرکو اپنی آنکھوں سے درجہ بدرجہ ابھرتے دیکھا کیونکہ سائوتھ بلاک ، انڈیا گیٹ اور ایسی بہت سی جگہوں کی تعمیر کے ٹھیکے میرے والد سوبھا سنگھ کو ملاکرتے تھے۔زیادہ تر ٹھیکیدار سکھ ہوا کرتے تھے جو جنتر منتر روڈ پر رہتے تھے۔سنساد مارگ کے ساتھ ایک ریلوے لائن بچھی ہوئی تھی جو امپیریل دہلی ریلوے کہلاتی تھی۔یہ بدر پور جو کہ اب کناٹ سرکس کہلاتا ہے ، سے پتھر اورریت لاتی تھی۔ہم اس ریل پر اکثر مفت میں جھولے لیا کرتے تھے۔

نئی دہلی کی تعمیر کے حوالے سے میرے والد بڑی دلچسپ کہانیاں سنایا کرتے تھے۔1911جس وقت شاہ جارج پنجم اورکوئن میری انڈیا آئے تو انہوں نے انڈیا کا دارالحکومت کلکتہ کے بجائے دہلی کو بنانے کے فیصلے کااعلان کیا۔انہوں نے کنگز وے کیمپ کے علاقے میں اس کاسنگ بنیاد بھی رکھا جہاں آج دہلی یونیورسٹی واقع ہے۔

پہلی جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد لندن سے ماہرین کی ایک ٹیم علاقے کا دورہ کرنے آئی اور انہوںنے اس کا معائنہ کیا۔ان کا خیال تھا کہ کنگز وے نیا شہر بسانے کے لیے مناسب جگہ نہیں ہے۔انہوں نے کئی دنوں تک علاقے کا تفصیلی دور ہ کیا اور رائے سینا ہل کے علاقے کو وائسرائے پیلس ، سیکریٹریٹ اورپارلیمنٹ ہائوس کی تعمیر کے لیے بہترین قرار دیا ۔

دہلی کا نیا شہر بسانے کے لیے کئی لوگوں نے کام کیا۔اول ، حکمرانوں نے اس کے لیے زمین فراہم کی اورنقشہ نویس کا انتخاب کیا۔نقشہ نویس نے حکمرانوں کی بصیرت کے مطابق کاغذ پر اس کی نقشہ نویسی کی ، ٹھیکیداروں نے تعمیراتی سامان اکٹھا کیا اور راج اور مزدور وغیرہ جمع کیے۔کام کی نگرانی انجینئرز نے کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ کام نقشہ نویس کے خیال کے مطابق اچھے طریقے سے ہو۔نئی دہلی دنیا کے بہترین دارالحکومتوں میں شمار ہوتا ہے جس کی سڑکیں بہت چوڑی اور ہریالی بہت زیادہ ہے۔  (جاری ہے)