شاعر ِ عوام حبیب جالبؔ یاد آرہے ہیں۔چند مصرعوں میں اتنی بڑی بات کہہ جاتے کہ سینہ بہ سینہ سارے ملک میں پھیل جاتی ۔اُن کی نظمیں ترانے اور نعرے بن جاتے ۔اب نظم ’’دستور‘‘ ہی کو لے لیں: ایسے دستور کو صبح ِ بے نور کو میں نہیں مانتا… میں نہیں جانتا جب پہلی بار لاہور کے موچی دروازے پر پڑھی اور جس پر ایوبی آمریت میںپہلی گرفتاری بھی ہوئی تو ایوب خان کے 1962کے دستور کے خالق ممتاز قانون داں مرحوم میاں منظور قادر نے بھری محفل میں کہا۔’’ایک نوجوان شاعر حبیب جالبؔ نے ہمارے دستور کیخلاف نظم لکھ دی ہے۔جس پر لاہور ی نعرے لگاتے ،تالیاں بجاتے پسینہ پسینہ ہوجاتے ہیں۔جالبؔ کی نظم دستور کے بعد اب ہمارا آئین نہیں چلے گا۔‘‘ اور پھر ایسا ہوا بھی ۔ سقوط ِڈھاکہ کے وقت یہ شعر پڑھا: حسیں آنکھوں ،مدھر گیتوں کے سندر دیش کو کھو کر میں حیراں ہوں ،وہ ذکرِ وادیِ کشمیر کرتے ہیں اورہاں اسی غزل کا پہلا شعرجس کے لئے میں نے اتنی تمہید باندھی: سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ اگر شاعرِ عوام حبیب جالبؔ زندہ ہوتے تو اقوام ِمتحدہ میں وزیر اعظم عمران خان کے پر جوش خطاب پر ضرور داد دیتے۔مگر ہاں،اپنے انداز میں ۔27ستمبر کو وزیر اعظم کا خطاب ہوا۔اور جس پر میڈیا میںجو داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔اُس کی بازگشت ہے،کہ تھمتی نظر نہیں آرہی۔اقوام متحدہ نے ہمارے وزیر اعظم کی لہو گرما دینے والی اس تقریر کے بعد کیا بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کا لہو بہنا بند ہوگیا؟ کیا 56روز سے جاری کرفیو کا خاتمہ ہوگیا؟ کیا اُن کے مصائب و آلام میں کمی آگئی؟ کیا اقوام ِ عالم ،خاص طور پر عالم ِ اسلام کے بیٹھے مندوبین جن میں سے اکثریت نے ہمارے وزیر اعظم کی تقریر پر تالیاں بھی بجائیں، اِ س بات کے لئے تیار ہوئے کہ کم از کم ایک قرار داد کی صورت ہی میں مودی کی کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف قرار داد لاتے؟ معذرت کے ساتھ،الٹا ستم دیکھیں کہ اگلے ہی دن یہ خبر آئی کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے بھارت میں ایک کھرب 66ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جی ہاں۔ ۔ ۔ ایک کھرب روپے سے اوپر! اُس کے مقابلے میں قرضوں کے بوجھ تلے مملکت ِ خدادادِ پاکستان کو سال بھر پہلے کوئی تین ارب ڈالر قسطوں میں ملے تھے۔اور وہ بھی اس ضمانت کے ساتھ کہ یہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے اسٹیٹ بینک کی تحویل میں رہیں گے۔اس سے پہلے کہ وزیر اعظم کے نیو یارک میں ہفتے بھر قیام کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک نہیں ،تین ملاقاتوں اور اُن کے پُر اثر خطاب پر آؤں تو کوئی اور بڑ بولا لکھاری ہوتا تو اس بات پر مبارک بادیں وصول کررہا ہوتا کہ92اخبار میں ہماری یو این میں مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی پر جو ہم نے گذشتہ کالم لکھا تھا ،اُس پر ہی اُن کی’’ چھٹی‘‘ ہوئی۔ صفحہ ٔ اول پر یہ خبر بھی لگتی کہ’’92اخبار کا ایک اور اعزاز :وزیر اعظم نے ’شہرِ ناپرساں میں لکھے جانے والے کالم کا فوری نوٹس لیتے ہوئے محترمہ ملیحہ لودھی کو اُن کے عہدے سے سبکدوش کردیا‘‘ برسہا برس سے قلم کی گھسائی کر رہا ہوں۔اور اس خوش فہمی سے کبھی کا دور ہوچکاہوں کہ اخباروں میں لکھے پر ہمارے حکمراں پالیسی یا فیصلے بناتے اور کرتے ہیں۔گزشتہ پچیس برسوں میں تین حکمرانوں یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف ، جنرل پرویز مشرف اور سال بھر ہی سہی ۔ ۔ ۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کو بھگتانے والی یو این میں ہماری مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو جس طرح رخصت کیاگیا اِسے سرپرائز سے زیادہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی حقیقت پسندی ہی کہا جائے گا۔پہلے بھی تفصیل سے لکھ چکا تھا۔ ۔ ۔ کہ مقبوضہ کشمیر میں 56دن سے جاری کرفیو کے باوجود 46ممالک میں سے16ملکوں کو اقوام ِ متحدہ کے ایک ذیلی انسانی حقوق کے ادارے سے محض ایک قرار داد پر دستخط لینے والے وزارت خارجہ کے بابوؤں ،خاص طور پر واشنگٹن اور یو این میں مستقل نمائندوں کے مزید وہاں رہنے کا کوئی جواز ہے؟ دلچسپ بات یہ دیکھیں کہ ایک معاصر اخبار نے کوئی ہزار سطروں میں ڈاکٹر صاحبہ کی مداح سرائی کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اُن کی واپسی پر اسلام آباد میں کوئی اہم اور بڑی ذمہ داری اُ ن کی منتظر ہے۔گو 92اخبار کے نیویارک کے نمائندہ اس سے مختلف خبر دے رہے ہیں۔مگرماشاء اللہ ہماری ڈاکٹر صاحبہ تین دہائی سے اسٹیبلشمنٹ کی محاورے کی زبان میں ’’ڈارلنگ‘‘ رہی ہیں۔اس لئے اگر کسی دھانسو عہدہ ٔ جلیلہ پر لگ گئیں تو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔اب رہا حالیہ دنوں میں وزیر اعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا Love Affair۔ اس میں ہمارے بھولے بھالے وزیر اعظم کشمیر کے حل کی کنجی چالاک و عیار ٹرمپ کے ہاتھ میں دے کر انہیں ثالثی کی مسند پر بٹھا چکے ہیں۔تو پہلے بھی لکھا تھا ۔ دہرانے میں حرج نہیں کہ اسے بھیڑیوں کے حوالے بھیڑ وں کی رکھوالی کا نام ہی دیا جائے گا۔ثالثی کے لئے ٹرمپ اور مودی جس میز پر بیٹھے ہوں،اُس سے کشمیر کے حوالے سے کوئی خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے؟ 72سالوں سے یہ امریکی بھارت گٹھ جوڑ ہی ہے جس کے سبب تحریک ِ آزادیِ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کا سورج طلوع نہیں ہورہا۔امریکہ کے دامِ وصال میں جو ہم نے 60ء کی دہائی میں سیٹو اورسینٹو معاہدے کئے تھے، اور پھر 80ء کی دہائی میں افغان جنگ کے سبب جوہم ملبہ اٹھا رہے ہیں،اُس پر ذرا تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں۔ مگر کالم آخری دموں پر ہے۔ چلتے چلتے،صرف یہ کہتا چلوں کہ سات دہائی میں امریکہ سے جو ہمیں امداد ملی ،وہ محض 70بلین ڈالر کے قریب ہے۔جبکہ War on Terrorکے دوران یعنی گزشتہ بیس برسوں میں پاکستان 120ارب ڈالر کا بوجھ پڑا۔ساڑھے چھ ہزار فوجی جوانوں سمیت،ساٹھ ہزار سے زیادہ شہری شہید ہوئے۔پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کی صرف اس ایک جھلک سے اندازہ لگائیں کہ امریکی دوستی ہمارے لئے کتنا مہنگا سودا رہا۔اورپھر اُس پر بھی اُسی عطار کے لڑکے سے ہم دوا لینے کے خواہشمند ہیں ۔(جاری ہے)