معزز قارئین!۔ یوں تو عربی زبان کے لفظ ’’ولایت ‘‘ کے معنی ’’بادشاہی ، مُلک ، حکومت اور آباد زمین ‘‘کے ہیں لیکن، تصّوف کی اصطلاح میں ’’ اللہ تعالیٰ سے نزدیکی ، دوستی کی صورت یا کیفیت کو ولایت ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسلام آباد میں مناسب اختیارات کے حامل جناب عارف اُلرحمن علوی صدرِ پاکستان ہیں اور قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی کے منتخب لیڈر جناب عمران خان وزیراعظم لیکن، دراصل ’’اسلام آباد کی ولایت‘‘ سیّد شاہ عبداُللطیف کاظمی ، مشہدی حضرت بری امام ؒ کے پاس ہے ۔ مَیں نے گذشتہ چار دِن حضرت بری امام کی ولایت میں گزارے تو مجھے مشیر خزانہ جناب عبداُلحفیظ شیخ کی ’’ چار دِنوں ‘‘ کی حکومت کے بارے میں غور و فکر کرنا پڑا۔ اِس بارے میں آگے چل کر عرض کروں گا۔ ’’ چار دِن‘‘ میں سب سے پہلے مَیں نے اسلام آباد میں بیاہتا (Settled) اپنی بیٹی عاصمہ معظم ریاض چودھری ، اُس کے شوہر اور آٹھ سالہ بیٹے علی امام کے ساتھ حضرت بری امام ؒ کے دربار میں حاضری دِی اور پھر اپنی مرحومہ بیوی بیگم نجمہ اثر چوہان کی قبر پر فاتحہ خوانی کی ۔ میرے والدین اور بڑی بیگم اختر بانو چوہان حضرت داتا گنج بخش ؒ کی نگری لاہور میں مدفون ہیں ۔ اِس لحاظ سے مَیں سالہا سال سے حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویریؒ اور حضرت بری امام ؒ کی کفالت میں زندگی بسر کر رہا ہُوں ۔ بظاہر میرے پاس بیک وقت لاہوراور اسلام آباد کا ’"Domicile" ہے لیکن ، میں نے 29 نومبر 2000ء کو روزنامہ ’’ پاکستان ‘‘ میں ’’ ڈومیسائل ‘‘کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ اِنسان کا اصل ’’ڈومیسائل ‘‘ تو اُس کی آخری آرام گاہ ہے ‘‘۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ ’’ مجھے قبر کے لئے جگہ لاہور میں ملے گی ، اسلام آباد میں یا کہیں نہیں ملے گی ؟۔ مرزا غالبؔ نے تو، نہ جانے کِس ترنگ میں آ کر کہہ دِیا تھا کہ … ہُوئے مر کے کیوں ،جو رُسوا، ہُوئے کیوں نہ غرقِ دریا؟ نہ کہیں جنازہ اُٹھتا ، نہ کوئی مزار ہوتا؟ مَیں نے چار دِن میں اسلام آباد میں اپنے دو دیرینہ دوستوں ۔ (سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات ) سیّد انور محمود اور (چیئرمین پاکستان کلچرل فورم)برادرِ عزیز ظفر بختاوری کی ’’ دعوت ہائے افطا ر وگفتار‘‘ میں شرکت کی تو، میری اپنے کئی ایسے ’’مصروف ترین ‘‘ دوستوں سے ملاقات ہُوئی جو ، عام طور پر نہیں ہوتی۔ مَیں اپنے دو کالموں میں اپنے چند دوستوں کا تذکرہ بھی کر چکا ہُوں ۔ کاش اُن سے دوسری بار بھی ملاقات ہو جاتی ؟ ۔ سیّد انور محمود صاحب کی ’’ دعوتِ افطار و گفتار‘‘ میں مجھے میری ایک صحافیہ بہن فوزیہ شاہد اور صحافی بھائی ۔سی ۔آر ۔ شمسی نے تو، مجھے اپنے ، اپنے بیٹے کی شادی میں شریک نہ ہونے کا گِلہ کرنے کے بجائے میری صحت یابی پر مجھے مبارک باد دے کر مجھے شرمندہ ہی کردِیا؟ ۔ سیّد انورمحمود ! معزز قارئین!۔ اگرچہ 1992ء سے میرے دوست سیّد انورمحمود اپنی ’’ دعوتِ افطار و گفتار‘‘ میں مجھ سے دو بار جپھّی ڈال چکے تھے لیکن، موصوف دوسرے دِن میرے داماد کے گھر تشریف لائے ، مجھے اپنے ساتھ ’’92 چینل‘‘ کے دفتر میں لے گئے ( ایک سال پہلے بھی مجھے لے جا چکے ہیں ) ۔ مَیں نے کئی گھڑیاں ؔ اُن کے ساتھ گزاریں تو ، مجھے بخیرت گھر واپس چھوڑ گئے ۔ درویش صفت ، سیّد انورمحمود کی صحبت میں مجھے ، ہری گھڑی ؔہندی کے نامور شاعر ۔ گوسوامی تُلسی ؔداس کا یہ شعر یاد آتا رہا کہ … ایک گھڑی ، آدھی گھڑی، آدھی کی بھی آدھ! تُلسی ؔسنگت ، سادھ ؔکی کُوٹ کٹے اَپرادھ ! یعنی۔ ’’سادھ (درویش) کی صحبت میں ایک گھڑی، آدھی گھڑی یا چوتھائی گھڑی بھی رہنا پاپوں ( گُناہوں) کو ختم کردیتا ہے ‘‘۔ سیّد انور محمود اپنے کمرے کی دیوار پر نصب دھیمے سُروں میں تین مختلف نیوز چینلز کے پروگرام بھی دیکھ رہے تھے ،موبائل پر کالز بھی "Attend" کر رہے تھے اور اِس دَوران اُنہوں نے باری باری دو اہلکار وں کو بھی ہدایات دِیں اور میرے ساتھ بھی ہر موضوع پر گفتگو و شنید ؟ ۔ اِس پر مجھے پنجابی کے اُستاد شاعر (مرحوم )امام دین گجراتی یاد آئے۔ اُنہوں نے لاہور میں علاّمہ اقبالؒ سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ … ہم نے بھی دیکھا تھا، لہور میں ، علاّمہ اقبالؒ! حُقّہ بھی پیتا جاتا تھا اور شعر بھی کہتا جاتا تھا، نا ل نال! مرزا محمد سلیم بیگ ! مَیں چیئرمین "P.E.M.R.A" مرزا محمد سلیم بیگ کے دفتر میں پہلی بار گیا ۔ اِس سے پہلے مَیں اُن کے دفتر میں 22 جنوری 2016ء کو گیا تھا جب ، وہ وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارہ ’’ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشنز ‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل تھے ۔ مَیں نے ،میرے دو دوستوں ’’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید اور ’’ چیئرمین پاکستان کلچرل فورم ‘‘ برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے ڈائریکٹوریٹ کی گیلری کو دیکھ کر خُوشی کا اظہار کِیا گیلری نہ صِرف قائداعظم ؒ اور دوسرے اکابرین ِ تحریکِ پاکستان ، بلکہ ’’ شیر میسور‘‘ حضرت ٹیپو سُلطان شہیدؒ کی تصویروں سے’’ جگ مگ ، جگ مگ ‘‘کر رہی تھی۔ اِس پر 25 جنوری 2018ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’جگ مگ ، جگ مگ ، دِیا جلائو!‘‘۔ تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کے بیٹے مرزا محمد سلیم بیگ نے پیمرا کے دفتر میں بھی ’’ جگ مگ ، جگ مگ دِیا جلائو ‘‘ کا ماحول تھا۔ ’’چار پائی والے ، عبداُلحفیظ شیخ ‘‘ معزز قارئین!۔ اب رہی مشیر خزانہ جناب عبداُلحفیظ شیخ کی چار دِن کی حکومت اور چار دِن کے بارے میں مختلف شعراء کے اشعار ۔ ہندوستان کے آخری مُغل (شاعر ) بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے ’’ ایسٹ انڈیا کمپنی ‘‘ سے معزول ہونے کے بعد اپنی ایک غزل میں کہا تھا کہ … عُمرِ دراز ، مانگ کے ، لائے تھے چار دِنؔ! دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں ! …O… حضرت حیدر علی آتش ؔ نے کہا تھا کہ … وصل میں ہجر کا دھڑکا ہے بجا، عاشق کو! چار دِن چاندنی ہے ، چار دِنؔ اندھیاری ہے! جنابِ فیض احمد فیضؔ نے اپنے انداز میں کہا کہ … اِک لذتِ گُناہ ملی، وہ بھی چار دِنؔ! دیکھے ہیں ہم نے حوصلے ،پروردِگار کے! معزز قارئین!۔ اُن دِنوں جناب عبداُلحفیظ شیخ وفاقی وزیر خزانہ تھے ، جب مَیں نے 20 فروری 2013ء کواُن کے بارے میں ’’ نوائے وقت‘‘ میں کالم لکھا ، جس میں عوام کی معلومات میں اضافہ کِیا گیا تھا کہ ’’ عبداُلحفیظ شیخ ، سندھ کے گائوں ’’چار پائی ‘‘ میں پیدا ہُوئے تھے ۔ شیخ صاحب کے گائوں کا نام ’’چار پائی ‘‘ ( کھاٹ) کیوں ہے؟۔ مَیں نہیں جانتا؟‘‘۔ مَیں اب بھی نہیں جانتا؟ لیکن، میرے دوست شاعرِ سیاست نے روز بروز بڑھتی ہُوئی مہنگائی پر تبصرہ کرتے ہُوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ … اِک ہم کہ ، چار پائیؔ سے ،نیچے ہی گر پڑے! اِک وہ ، کہ اپنی ٹانگ پسارے چلے گئے! آغا حامد علی شاہ موسوی ! معزز قارئین!۔ مجھے حضرت بری امام ؒ کی ولایت میں ’’ چار دِن‘‘ کے دورے میں ’’ اتحاد بین اُلمسلمین‘‘ کے علمبردار آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی سے ملاقات کی خواہش تھی ۔ اُن کے نائبین اور میرے برادرانِ عزیز سیّد قمر زیدی ، سیّد عباس کاظمی اور سیّد رضا کاظمی مجھے ، بار بار موبائل پر بتا رہے تھے کہ ’’ آغا جی کی طبیعت ناساز ہے ، جوں ہی صحت بحال ہُوئی تو، آپ سے ضرور ملیں گے لیکن، وہ اب بھی آپ کے اور آپ کے خاندان کے لئے دُعائیں کر رہے ہیں ‘‘۔ مجھے آخر دم تک اطمینان رہا لیکن، ملاقاتوں کا کوٹہ تو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کِیا جاتا ہے ۔ مَیں نے سوچا کہ ’’ آغا جی تو، نجیب اُلطرفین سیّد ہیں ، بھلا اُنہیں کسی ’’اُمتّی ‘‘ کی دُعائوں کی کیا ضرورت؟ لیکن، مَیں نے سوچا کہ ’’ مجھے ’’ حسینی راجپوت‘‘ کا خطاب بھی تو، آغا جی ہی نے دِیا ہے؟۔ چنانچہ مَیں نے اُن کے لئے دُعا کردِی ہے ۔ کسی پنجابی شاعر نے کہا تھا کہ … جیوندے رہے تے ، مِلاں گے لَکھ واری!