ہمارے عسکری صاحب نے کہیں فراق گورکھپوری کا ایک قول نقل کر رکھا ہے کہ جس شخص کو سولہ سال کی عمر سے پہلے اکبر الہ آبادی کے شعر پسند آنے لگیں اس میں ضرور کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ بدقسمتی سے میرا شمار ایسے ہی خراب قسمت لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ میں اکبر آلہ آبادی کے شعر سولہ سال کی عمر سے پہلے پسند کرنے لگا تھا بلکہ ایسی ساری’’ خرافات ‘‘مجھے عزیز تھیں نہیں۔ اس سِن میں قطعات قریب پھٹکنے نہیں دینا چاہیے۔ پارسائی کے گنبد میں بند ایک پوری نسل ہے جو اس طرح پروان چڑھی ہے۔ اقبال نے تو یہ کہہ رکھا ہے کہ اکبر الہ آبادی کا کوئی ثانی پورے ایشیائی ادب میں موجود نہیں ہے۔ مگر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب کھیلنے کودنے کے دن ہوں تو بچوں کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچے شہہ پا کر ایک طرح کی روحانیت اوڑھ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو انقلاب کے خواب دیکھنے والے بھی انقلاب میں ایک رومان تلاش کرتے ہیں۔ پھر ساری عمر اس رومان ہی کے سہارے جوان ہوتے ہیں۔ جانے مجھے ان باتوں کا خیال کیوں کر آیا۔ شاید اس لئے کہ اس قوم نے انقلاب کے بہت خواب دیکھے ہیں۔ یہ خواب بڑے رومانی تھے۔ ساری عمر اسی رومان کو وہ انقلاب یا تبدیلی سمجھتے رہے۔ جب ذرا آنکھ کھلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو سنا وہ افسانہ تھا۔ حقیقت کی دنیا کچھ اور ہے ۔ ہماری کئی نسلیں اس رومانس میں جوان ہوئیں۔ بوڑھی ہوئی اور مرکھپ گئیں۔ مگر انقلاب نہ آیا‘ تبدیلی نہ آئی۔ یہ تبدیلی کا شوق بلکہ نشہ آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔یہ وہ خواب ہیں جو میں یوں کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ انہیں سولہ سال سے پہلے کی عمر میں دیکھنے کو شرف سمجھا جاتا ہے۔ کسی اکبر الہ آبادی سے گریز اور ایسے خوابوں میں جینا جو انی کی امنگوں کا آئینہ دار ہوں‘ بچپنے میں تو اچھا لگتا ہو گا‘ مگر خرابی اس میں یہ ہے کہ آدمی کو اس کی لت پڑ جائے تو پوری زندگی اس کی عادت نہیں چھوٹتی۔ آپ نے درست سمجھا میں یہ سب سیاسی باتیں کر رہا ہوں۔ اب عسکری صاحب کا ذکر چھڑا ہے تو ان کی ایک بات اور نقل کر دوں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں یہ عسکری صاحب کون تھے‘برادرم عزیز عامر خاکوانی نے ابھی کل پرسوں ہی تو بتایا تھا کہ مجھ جیسوں کے استادوں میں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو کے نزول کے دنوں میں وہ بھٹو کے بڑے مدح خواں ہو گئے تھے۔ وجہ اس کی انہوں نے سلیم احمد سے یہ بتائی تھی کہ پنجاب کے نوجوان اسے چاہتے ہیں اور یہ کوئی معمول بات نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے نوجوانوں کو ان کا فریفتہ بنا دیا تھا اس میں ویسے تو پنجاب کی تحصیص نہیں ہونا چاہیے مگر اس پنجابی نوجوان سے اقبال نے بھی امیدیں باندھ رکھی تھیں۔ بہرحال پوری قوم میں ایک ولولہ تازہ پیدا ہو گیا تھا مگر لگتا ہے یہ وہ جذبہ تھا جو سولہ سال سے پہلے کی عمر کے ان نوجوانوں میں تھا جو اکبر الہ آبادی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ یہاں سولہ سال کا لفظ بھی علامتی ہے اور اکبر الہ آبادی بھی ایک استعارہ ہے۔ ہوا یوں کہ یہ سولہ سال کا نوجوان مدتوں اسی سِن وسال میں رہا۔ اس کے بڑوں نے بھی اس کے لئے ایک ایسی ہی رومانوی انقلابی فن پیدا کر رکھی تھی۔ مثال کے طوور پر فیض کی شاعری دیکھ لیجیے۔ پھر جب اس کی آنکھیں کھلیں تو اسے اکبر الہ آبادی یاد آئے عرض کر چکا ہوں کہ ان لفظوں کو علامت و استعارہ سمجھا جائے۔ ہم سولہ سال کی عمر میں جیتے رہے اور اکبر الہ آبادی گریز کرتے رہے۔ ایسے میں ایک انقلابی روح اور تبدیلی کی تڑپ فطری طور پر ہمارے اندر پیدا ہوئی۔ جونہی اس نوجوان نے سولہ کا سِن پار کیا تو اس کی گویا آنکھیں کھلیں‘ مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ تبدیلی کی خواہش کہیں دل میں دبی رہ گئی۔ایک لمبی عمر اس تبدیلی کے واہمے کے خلاف نبردآزما ہوتے گزری کہ پھر ایک خواب بیچنے والا آن پہنچا۔ پھر ایک خواب تھا۔ پہلے سے بھی زیادہ رومانوی۔ اس خواب میں انقلاب بھی نہ تھا‘ صرف تبدیلی تھی۔ دنیا میں اور جگہوں پر بھی تبدیلی کا یہ خوبصورت خواب بیچا جا رہا تھا۔ امریکہ میں سیاہ فاموں نے اس خواب کو ایوان صدارت تک پہنچا دیا۔ مگر تبدیلی نہ آئی ایسی مایوسی پھیلی کہ امریکہ فسطائیت کے دہانے تک جا پہنچا۔ آپ نے ابھی چند برس پہلے نوجوانوں کو جی ہاں پھر علامتی طور پر کہوں تو پنجاب کے نوجوانوں کو اس خواب کے نشے میں رقص کناں دیکھا۔لگتا تھا کہ یہی وہ خواب ہے جو سولہ سال سے پہلے ہی نہیں دیکھا جاتا‘ اس کے بعد بھی اس کی تعبیر سامنے آتی رہتی ہے۔ مرے خواب بکھرتے جاتے ہیں مجھے شکتی دو۔ افتخار جالب کا کیا خوبصورت مصرعہ ہے۔ یہ خواب مسلسل کرچی کرچی ہو رہا ہے، خواب دکھانے والے نے بتایا تھا کہ وہ قوم کی تقدیر بدل کے رکھ دے گا جب اس نے خود اعتراف کیا کہ میں نے جس تبدیلی کا وعدہ کیا تھا‘ اس کی میری تیاری نہ تھی۔ حالانکہ وہ کہتا رہا تھا کہ وہ آئے گا تو دنیا بدل جائے گی۔ اب اس نے کہا نہیں ایسا نہیں‘ اڑھائی برس گزر گئے ۔اب میں اس کی تیاری کروں گا۔ میں سمجھا تھا کہ قدرت نے مجھے اقتدار دیر سے اس لئے دیا تھا کہ پہلے میں تیار نہ تھا اور اب تو میں ایسا تیار ہوں کہ دنیا بھر میں میری ٹیم تیار بیٹھی ہے کہ وہ آئے اور انقلاب لائے۔ ملک کے مقدر میں تبدیلی لائے اس ملک کو ریاست مدینہ میں بدل دے بھوک اور افلاس کا خاتمہ کرے۔ بے روزگاری کو ختم کرے لوگوں میں خوشیاں عام کرے اب کہتا ہے کہ پھر غلطی ہو گئی‘ مجھے تو ڈیڑھ دو سال تک معلوم نہ ہوا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کوئی خبر نہ تھی کہ امور مملکت کیسے چلائے جاتے ہیں حالانکہ ہمیں خیبر پختونخواہ میں قدرت نے 5سال کا تجربہ بھی فراہم کیا تھا۔ لگتا ہے کہ تبدیلی ہو یا انقلاب ہماری قسمتوں میں یہ بس ایک خواب کا نام ہے جو سولہ سال کی عمر سے پہلے پہلے دیکھا جاتا ہے اور اگر آدمی اس خواب کی رومانوی فضا میں عمر گزار دے تو نوجوانی کی دہلیز کو کبھی پار نہیں کر پاتا۔ کہیں یہی بہتر تو نہیں کہ آدمی اس عمر میں تبدیلی اور انقلاب کے خواب دیکھنے کے بجائے اکبر الہ آبادی کا ہو جائے۔ پنجاب کا نوجوان نہ بنے‘ پنجاب کا اقبال بنے۔ یہ ایک ایسی خرابی ہے جسے برداشت کر لیا جائے تو بہت سی خرابیوں سے نجات مل جاتی ہے ہم انقلاب اور تبدلی کے خوابوں کی ماری ہوئی قوم ہیں۔ ضروری نہیں کہ میں یہاں جھوٹے کا لفظ استعمال کروں۔ ایسے لگتا ہے جب تبدیلی اور انقلاب ٹین ایج کا خواب بن جائے تو ایسے ہی ہوتا ہے ہم اب بھی اس عمر میں جی رہے ہیں خدا ہمیں بڑا کرے۔ اس عمر کے خواب بعد میں عموماً جھوٹے لگتے ہیں چلیے یوں کہہ لیجیے بچوں کا رومانس نکلتے ہیں۔