میرے مرحوم سُسر(father-in-law) سے میری پہلی ملاقات 1968 ء میں ہوئی تھی جس کے نتیجے میں مجھے ان کا son-in-law بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ شاہ صاحب ماضی بعید میں سیالکوٹ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے مقامی ہائی سکول سے بڑے اعزاز کے ساتھ میٹرک کا امتحان تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ تھرڈ ڈویژن آنے کی وجہ یہ تھی کہ آگے فورتھ ڈویژن نہیں تھی جس کی وجہ سے وُہ تھرڈ ڈویژن سے آگے ترقی نہ کر سکے۔ میٹرک کرنے کے چند ماہ بعد وُہ پولیس میں بھرتی ہوگئے اور کانسٹیبل کے عہدے پر فائز ہو کر چونڈہ (سیالکوٹ) کے تھانے میں بطور محررّ کام کرنے لگے۔ بقول ان کے یہ واقعہ 1928 ء میں پیش آیا تھا۔ پولیس کا محکمہ ان کی طبیعت کے عین مطابق تھا چنانچہ ترقی کرتے کرتے 1946 ء میں انسپکٹر کے عہدے تک پہنچ گئے۔ وہ جدوجہد پر ایمان رکھتے تھے اور اکثر کہا کرتے کہ باہمت انسانوں کے لیے۔۔۔ SKY IS LIMIT وہ انگریزی زبان کے لفظ THE کے سخت مخالف تھے چنانچہ وہ کبھی نہیں کہتے تھے کہ THE SKY IS THE LIMIT وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے انگریزی " ڈریکٹـ" انگریزوں سے سیکھی ہے۔ بقول ان کے بعض اوقات وہ اتنی High انگریزی بول جاتے تھے کہ انگریز بھی سر پیٹ لیتے تھے اور مجبور ہو کر کسی عالم فاضل کی مدد سے ان کی بات کو سمجھتے تھے۔ وہ شاعری کے مخالف اور شاعروں کے دشمن تھے۔ اگر کوئی ان کی بات سے اختلاف کرتا تو وہ اسے "قابلِ دست اندازی پولیس" جرم سمجھتے تھے۔ اس ہونے والے انٹرویو کی ریہرسل مجھے بیگم صاحبہ ( میری ہونے والی ساس) کے ایک خاص معتمد نے کروائی تھی۔ بیگم صاحبہ کا یہ معتمد بھی پولیس میں تھا اور ان کے میاں کے ماتحت تھا۔ بیگم صاحبہ اس سے اپنے خاوند کی حرکات و سکنات کی رپورٹ بھی لیا کرتی تھیں۔ اس نے یہ بات DSP صاحب کو بھی بتا رکھی تھی۔ چنانچہ اس شخص سے DSP اور بیگم صاحبہ دونوں ہی بہت خوش تھے اور دونوں اسے اپنا آدمی سمجھتے تھے۔مجھے انٹرویو کی ریہرسل کروانے والا شخص یعنی وہی بیگم صاحبہ کا معتمد خاص مجھے لے کر DSP صاحب کے دفتر کی طرف چلا۔ وہ سارا رستہ مجھے بتاتا رہا کہ یہ کہنا ہے اور یہ نہیں کہنا۔ جو کہنا ہے وہ کیسے کہنا ہے اور جو نہیں کہنا وہ کیسے نہیں کہنا۔ نیز ان کے سامنے بیٹھ کر بازوئوں اور ٹانگوں کی کیا پوزیشن رکھنی ہے۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بالکل نہیں بیٹھنا۔ زیادہ easy ہو کر نہیں بیٹھنا ۔ تھوڑا Difficult ہونا ہے ۔ شاعری اور سگریٹ نوشی کا اعتراف بالکل نہیں کرنا۔ فنون ِ لطیفہ سے کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں کرنا۔ اگر DSP صاحب سکھوں یا میراثیوں کا کوئی لطیفہ سنائیں تو کھلکھلا کر ہنسنا ہے۔ لیکن ہنسی کی آواز کمرے سے باہر نہ جائے۔ جب DSP صاحب اگلا لطیفہ سنانے کے لئے یا کوئی بات کہنے کے لیے منہ کھولیں تو اس وقت ہنسی روک کر اور ہمہ تن گوش ہوکر ان کی بات سننی ہے۔ اگر وہ بطور پولیس افسر اپنا کوئی کارنامہ بیان کریں تو جی بھر کر اس کی تعریف کرنی ہے۔ ان کی داستان عام طور پر طویل ہو جایا کرتی ہے لیکن تم نے بھول کر بھی یہ تاثر نہیں دینا کہ تم بور ہو رہے ہو یا تم کسی بات کو جھوٹ اور بکواس سمجھ رہے ہو ۔ اس دوران میں تم نے گاہے گاہے سبحان اللہ ، ما شاء اللہ ، خوب ، کمال ہے وغیرہ کہتے رہنا ہے۔ چاہے وہ کتنی لمبی چھوڑ رہے ہوں، تم نے استغفراللہ بالکل نہیں کہنا۔ DSP صاحب باتوں کے دوران انگریزی بولنے کے بہت شوقین ہیں۔ انگریزی تو مجھے بھی نہیں آتی لیکن میجر صاحب کہا کرتے ہیں کہ تمہارا " صاب" انگریزی کی خوب ٹانگ توڑتا ہے۔ " یہ میجر صاب کون ہیں؟" میں نے پوچھا۔ " یہ آپ کے ہونے والے سالے ہیں" جواب ملا۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوے کہا کہ تم چونکہ انگریزی کے پروفیسر ہو اس لئے خدشہ ہے کہ تم ان کی انگریزی ٹھیک کرنے کی کوشش کر وگے۔ خبردار ایسی حرکت نہ کرنا ورنہ وہ قیامت تک تمہیں اپنا داماد نہیں بنائیں گے۔ باتوں باتوں میں ان کی انگریزی کی تعریف کر دینا بلکہ حیران ہو کر پوچھ لینا کہ انھوں نے اتنی زبردست انگریزی کہاں سے سیکھی۔ اس بات کا جو بھی جواب ملے حوصلے سے سن لینا۔شاہ صاحب کے دفتر میں پہنچ کر وہ مجھے باہر رُکنے کا کہہ کر اندر گیا ۔ تھوڑی دیر میں واپس آکر اُس نے مجھے اندر دھکیل دیا۔ شاہ صاحب فون پر کسی کو ڈانٹ رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو اشارے سے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا ۔ فون سے فارغ ہو کر وُہ میری طرف متوجہ ہوئے۔ "برخوردار تم کیا کرتے ہو؟ ـ" " جی میں پڑھاتا ہوں اگر آپ اسے کام سمجھیں تو۔" ـ" کہاں پڑھاتے ہو؟" " گورنمنٹ کالج میں" "ماسٹر ہو؟" " ـجی کہہ سکتے ہیں۔ ویسے میں لیکچرار ہوں" " کیا پڑھاتے ہو؟ ــ" "انگلش " " میٹرک میں ہمارے ماسٹر تو تین چار مضمون پڑھاتے تھے۔" "جی اُس دور کے استاد بہت محنتی ہوتے تھے۔ آجکل ٹیچر کام چور ہو گئے ہیں۔" " اسی لئے " تلیم" کا "میار" گر چکا ہے۔" " آپ کی بات اِس بات کا ثبوت ہے۔" (خدا کا شکر ہے انھیں میری بات کی سمجھ نہیں آئی) " کسی نے مخبری کی ہے کہ تم شایر ہو؟" ـ" جی میں شاعری کرتا ہوں نہ کر سکتا ہوں۔" " ویری از دی گُڈ۔ شیری کرنے والے نکمّے ہوتے ہیں۔ وہ تمہارا شایر ہے نا حبیب جالب، تین دفا تو میں اسے اریسٹ کر چکا ہوں۔ ہم پولیس والے اسے ڈھیٹ جالب کہتے ہیں۔" " جی وہ میرے دوست ہیں۔ سنت نگر میں میرے ہمسائے ہیں۔ ـ" " بر خوردار بندہ صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ تم اس شخص سے دور ہی رہا کرو۔ تم نے سنا ہوگا۔ کرے ہم جنس با ہم جنس پروا، کبوتر با کبوتر باز۔" (فارسی کی اصل ضرب المثل یہ ہے: کُند ہم جِنس، باہم جنس پرواز۔ کبوتر با کبوتر باز بہ باز) ـ" تمہارا اپنا گھر ہے؟" " جی گھر تو ہے۔ مگر میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں۔" " کیوں؟" "ہمارے مکان پر میرے چچا نے نا جائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ دس سال ہوگئے ہیں۔" " کیا کرتا ہے تمہارا چچا؟ " " پولیس میں انسپکٹر ہے۔" یہ سُن کر شاہ صاحب نے فوراً موضوع بدل دیا۔" تنخواہ کتنی ہے تمہاری؟" ـ"پانچ سو روپیہ" " اُوپر سے کوئی آمدنی ہے؟"" یہ پانچ سو بھی اُوپر سے ہی آتے ہیں ۔ اللہ بھیجتا ہے۔" " یار تم بات نہیں سمجھ رہے ہو۔ تنخواہ کے علاوہ بھی کوئی آمدنی کا ذریعہ ہے؟" " جی ہاں۔ پرچے وغیرہ دیکھ لیتا ہوں۔ ایک آدھ ٹیوشن بھی ہے؟" " شادی کے بعد ماں باپ کے پاس رہو گے یا الگ گھر لو گے؟" " میں اب بھی الگ گھر میں رہتا ہوں۔ والدین فوت ہو چکے ہیں۔" " کوئی بھائی بہن وغیرہ ہیں؟" " جی اللہ کے فضل سے کوئی نہیں ۔" " دوست وغیرہ ہیں؟" " جی۔ بہت سے۔" " ان سب کو برات کے ساتھ لائو گے؟ " " جی نہیں۔ صرف اتنے لوگ لائوں گا جتنوں کی آپ SANCTION دیں گے۔" " پندرہ سولہ کافی ہوں گے؟ــ" " جی بہت ہیں" " ٹھیک ہے۔ تُم باقی باتیں ، تاریخ وغیرہ بیگم صاحبہ سے طے کر لواور ہاں تُم سگریٹ تو نہیں پیتے؟" " جی نہیں ۔ میں تو چائے بھی نہیں پیتا۔" " چلو اچھا ہُوا۔ ورنہ میں تمہیں چائے کا پُوچھنے والا تھا۔" " جی شکریہ۔" ـ ـ" ٹھیک ہے۔ برخوردار خُدا حافظ۔ کل بیگم صاحبہ سے مل لینا۔" ـ" رائٹ سر۔ خُدا حافظ۔"