24 دسمبر 2018ء سے زیادہ تکلیف دہ دن میں نے اپنی بقائمی ہوش و حواس والی تقریباً ساٹھ سالہ زندگی میں نہیں دیکھا۔ پاکستان کی سیاست پر قابض دو سیاسی خاندانوں کی بددیانتی، کرپشن، لوٹ مار کی داستانیں اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی تھیں۔ صبح آصف زرداری اور بھٹو خاندان کی کرپشن کی ہوشربا کہانی منظر عام پر آئی اور شام ہونے سے پہلے پہلے نوازشریف کو ایک ایسی فیکٹری کے مالک ہونے کی وجہ سے سزا سنا دی گئی جس کے بارے میں وہ عدالت کو ایک لفظ بھی نہ بتا سکے کہ اس فیکٹری کو بنانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا۔ عدالتیں روز فیصلے کرتی ہیں، جے آئی ٹی بننا تو اب رواج سا ہو چکا ہے، نہ بھی ہو تو ایف آئی اے، اینٹی کرپشن یا نیب لاتعداد کرپشن اور لوٹ مار کے معاملات میں تحقیقات کرکے چالان مکمل کرتی ہیں۔ مجرم پکڑے جاتے ہیں، عدالتوں کے روبرو پیش ہوتے ہیں، سزا پاتے ہیں، جیل کاٹتے ہیں، لوہا ہو جاتے ہیں لیکن اگر اسی طرح یہ سب کچھ ہوتا رہے تو بات تکلیف دہ نہیں۔ اذیت اور تکلیف کا مرحلہ تو اس وقت شروع ہوا جب ان دونوں سیاسی خاندانوں کے حاشیہ نشینوں نے اس کرپشن اور لوٹ مار کی کالک کو روشنی اور اس جرم کی ذلت و رسوائی کو عزت و توقیر بخشنے کا عمل شروع کیا۔ ڈھٹائی اور بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ سیدالانبیاء ﷺ کا ارشاد یاد آ گیا، فرمایا ’’جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو۔ (بخاری، مسلم)۔ تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈھٹائی کا یہ بازار صرف اور صرف سیاست دان ہی اپنے ساتھی سیاست دانوں کے لیے سجاتے ہیں۔ اگر کسی چیف سیکرٹری، انسپکٹر جنرل پولیس، کلکٹر کسٹمز، کمشنر انکم ٹیکس یا ایسے ہی کسی اور آفیسر کی جدہ میں کوئی سٹیل مل پکڑی جاتی، اس سے سوال ہو تاکہ یہ تم نے کہاں سے بنائی اور اس کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا، نوازشریف کی طرح چپ سادھ لیتا یا آئیں بائیں شائیں مارنے لگتا، تو پھر ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ اس کے ساتھی یاکو لیگ میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر اسے ڈھٹائی کے ساتھ انتقام، زیادتی اور تعصب کا شاخسانہ قرار دے کر اپنے ساتھی کوعظیم ترین مقاصد کے لیے قربان گاہ پر چڑھنے والا ثابت کرتے۔ ایک دفعہ کرپشن اور بددیانتی کا مقدمہ کسی کے خلاف شروع ہو جائے تو پاکستان کے ہرشعبے میں ابھی تک اتنی حیاء اور شرم باقی ہے کہ وہ کھل کر اس کا دفاع نہیں کرتے لیکن دیدہ تو سیاست دانوں اوران کے حواریوں کا سفید ہوگیا ہے، آنکھوں کا پانی تو یہاں مر گیا ہے۔ رات گئے تک جمہوریت کی تاریخ بتائی جاتی رہی، لاتعداد کیسوں کا حوالہ دیا جاتا رہا جو بنائے تو گئے لیکن سزا نہ دلوا سکے۔ کیسے کیسے ’’نمک حلال‘‘ دانشور تھے، تجزیہ نگار تھے جو اسے جمہوریت اور ملکی سلامتی پر ضرب کاری بتاتے رہے۔ کیا کوئی کبھی سچ بولے گا یا شاید اس ملک میں سچ کی موت واقع ہو چکی ہے۔ میرا جی بہت بڑے شاعر تھے، ان کی سچ کے بارے میں ایک نظم یاد آتی ہے: سچ تو اک پیر خمیدہ ہے جو دروازے پہ تنہا سوچتے سوچتے سو جاتا ہے جانے کیا سوچ کے سو جاتا ہے پاکستان کی سیاست میں تو سچ ایک پیر خمیدہ یعنی کبڑا بوڑھا بھی نہیں ہے، کہ اسے ڈھونڈ نکالتے، اس کی کمر سیدھی کرتے، اس سے لاٹھی چھین کراسے اپنے پیروں پر کھڑا کرتے اور لوگوں کے سامنے لے آتے۔ پاکستان کی سیاست اور سیاسی تجزیہ نگاری میں سچ کی موت واقع ہو چکی ہے اور اس کی بے گوروکفن لاش کو گدھ نوچ نوچ کر کھاتے ہیں اور جمہوریت کی بقا، ملکی استحکام کو خطرہ اور سیاست دانوں کی کردارکشی کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں۔ ان کے دوغلے پن اور منافقت کا یہ عالم ہے کہ جب یہ اپنے ذاتی مخصوص اور محدود حلقے میں بیٹھے ہوتے ہیں تو اپنے لیڈروں پر لگنے والے ایک ایک الزام کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ ذاتی علم کے مطابق چند قصے خود بھی سنا دیتے ہیں لیکن کیمرہ سامنے آ جائے، کسی جلسے میں خطاب کرنا ہو، کسی جلوس میں بینر پکڑ کر نکلنا ہو یا کوئی سیاسی بیان دینا ہو تو سب کے سب ایک ایسے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں جس پر شاید ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا، وہ اپنے اندر ہی شرمندہ نہیں ہوتے۔ یہ صرف چند لوگ ہیں جنہوں نے میرے ملک کی سیاست اور سیاسی تجزیے کو یرغمال بنایا ہوا ہے ورنہ بائیس کروڑ عوام خوب جانتے ہیں، ان کا تو ان سیاست دانوں سے روز کا واسطہ ہوتا ہے۔ کیا لوگ نہیں جانتے کہ نوکریاں کہاں بکتی ہیں، ٹھیکے کیسے ملتے ہیں، کیسے جھوٹے مقدمات بنوائے جاتے ہیں، کسی کی سفارش پر چوروں، ڈاکوئوں، رسہ گیروں، قاتلوں، منشیات فروشوں، بددیانتوں کو چھڑوایا جاتا ہے۔ عوام کو نہیں پتہ کہ کون ان کے مشیر ہیں، ناجائز قبضے کرواتا ہے، کس کے ڈیرے پر ایسے بدمعاش ٹھکانہ بنائے ہوئے ہیں جو بیوائوں، یتیموں، مسکینوں اور ملک سے باہر رہنے و الے افراد کے پلاٹوں پر قبضہ کر تے ہیں۔ جب یہ سیاسی تجزیہ نگار اور سچ بولنے کی طاقت سے محروم سیاست دان ان مجرموں کا دفاع کرتے ہیں تو عوام حیرت سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جو جانتے ہیں اور قریب سے جانتے ہیں، وہ چیخ اٹھتے ہیں، بول پڑتے ہیں کہ کیا وہ ٹانگ پر بم باندھنے کا قصہ درست نہیں، کیا سرے محل خواب تھا، کیا سوئٹزرلینڈ میں رقم جمع کروانے والی فرم کو ٹیکناکو کسٹم کے دفاتر میں کام سے جانے والے نہیں جانتے تھے۔ لوگوں کو سب معلوم ہے۔ وہ ایک ایک سیاسی رہنما کے قصوں سے واقف ہیں، یہاں تک کہ وہ مذہبی سیاسی رہنمائوں کی داستانیں بھی سناتے ہیں۔ پاکستان کا یہ طبقہ جو روز دفاتر جاتا ہے، اپنے کام نکلوانے کے لیے کمیشن اور رشوت دیتا ہے اسے زبان نہیں ملتی، وہ خوفزدہ ہے کہ اگر وہ زبان کھولے گا تو اس کا کام رک جائے گا۔ چپراسی سے لے کر وزیر تک بددیانتی کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ کیا لوگوں کو نوازشریف کی وزارت اعلیٰ پنجاب کے دور میں ساتھ والے کمرے میں براجمان شہبازشریف کے افعال کا نہیں علم۔ کیا انہیں ’’نوازے‘‘ جانے کا علم نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بیوروکریٹس، پولیس والے، ڈاکٹر، صحافی یا کوئی اور کرپشن میں پکڑا جائے تو کوئی ان کا مقدمہ لڑنے نہیں نکلتا لیکن سیاست دانوں کے مقدمہ میں جتنا جھوٹ روز بولا جاتا ہے وہ اس طرح کی شہرت رکھنے والے کو کوئی گھر میں چوکیدار، دفتر میں اکائونٹنٹ نہ رکھے۔ اولاد کا رشتہ کرنے جائیں تو صرف خلق خدا سے یہ سن لیں کہ فلاں بددیانت ہے تو رشتے سے دور بھاگ جائیں۔ وہاں اس ملک کی قسمت ان کے ہاتھ میں دے دی جائے جو ایسی شہرت رکھتے ہوں۔ دلیل دی جاتی ہے کہ ان پر کون سا عدالت میں مقدمہ ثابت ہو گیا ہے۔ کیا آپ ایسا سوال چوکیدار، اکائونٹنٹ یا منیجر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ بس ایک فقرہ کافی ہے اس کی شہرت خراب ہے اور فقرہ کسی کو نوکری نہ دینے یا رشتے سے انکار کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن برا ہو اس جمہوریت کا کہ اس میں سب حلال اور محترم ہے۔ شورش کاشمیری یہ شعر عموماً پڑھتے تھے: میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں