بہار اپنے جوبن پر ہے۔ پیڑ اور پودے اپنے پیرہن بدل چکے۔ لش پش کرتے پات اور دھوپ میں بڑھتی ہوئی خوشگوار حدت۔ بسنت اور بسنتی رنگ کا خیال یقینا ایک ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ یہ بو قلمونی اور رنگا رنگی قدرت کی صناعی ہی تو ہے۔ گلاب اور خواب کتنے ہم معنی لگتے ہیں۔ روشوں پر کھلے ہوئے پھول‘ ملول لمحوں کو بھی سنہرا کر دیتے ہیں۔ آنکھوں روشنی بھرتی سونے جیسی سرسوں‘ پائوں پڑتے ہوئے شام کے سرمئی سائے‘ ہائے ۔ یادوں کے کھلتے ہوئے در اور خواہشوں کو لگتے ہوئے پر۔ گزری ہوئی سنہری ساعتیں بھی پتلیوں پر جھلملانے لگتی ہیں: یہ بہار کا زمانہ یہ حسین گلوں کے سائے مجھے ڈر ہے باغباں کو کہیں نیند آ نہ جائے فراز نے غلط نہیں کہا تھا کہ’’کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘‘ یہ موسم گل باہر ہی نہیں اندر سے بھی پھوٹتا ہے۔ جذبے مچلتے ہیں‘ گریباں چاک ہوتے ہیں اور دامن اشکوں سے دھل کر پاک ہوتے ہیں۔ چلیے مطلب کی طرف آتے ہیں وگرنہ پھر کوئی کہہ دے گا کہ آپ تو باتوں سے شاعری بناتے ہیں حالانکہ بنائی نہیں جاتی بلکہ جیسے روڈن نے چٹان سے اضافی پتھر ہٹایا تھا کہ مجسمہ اس کے اندر موجود تھا۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں سے کچھ بھی ہٹانا نہیں پڑتا۔ اس تمہید کے باطن میں اس لطف کا لمس ہے جو پون کی ہوا میں ہوتا ہے۔ میں ذکر کرنا چاہتا ہوں محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت پنجاب کی طرف سے 29 تا یکم اپریل 2019ء ہونے والے چراغ میلہ کا جس کی مناسبت صوفی شاعر شاہ حسین سے ہے۔ اس میگا پراجیکٹ کی روح رواں پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف تھیں۔ اس میں صوفی پرفارمنس سے لے کر گائیکی کلام شاہ حسین تک اور محفل سماع سے لے کر مشاعرہ تک بہت کچھ تھا مگر میں مشاعرہ تک محدود رہوں گا کہ مجھے اسی مناسبت سے اس میں شرکت کرنا تھی۔ پلاک کی عمارت کو یوں سجایا گیا تھا کہ رات کو دن کا سماں نظر آ رہا تھا۔ لوگوں کا ہجوم تو اپنی جگہ کہ لوگ خوشی اور مسرت کے لمحوں کو ترسے ہوئے ہیں وہاں کھانے پینے کے سٹالز نے بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ ڈاکٹر اختر شمار ‘ باقی احمد پوری اور میں تقریباً آٹھ بجے پہنچے کہ یہ مشاعرہ کے آغاز کا وقت تھا مگر وہاں تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ پرفارمنس چل رہی تھیں۔ ہمیں سیٹیں مہیا کر دی گئیں۔ سامنے محترمہ آمنہ الفت اور سعدیہ سہیل تشریف فرما تھیں۔ کچھ تسلی ہوئی کہ اپنے اپنے سے لوگ بھی ہیں اتنے میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود بھی تشریف لے آئے اور ڈاکٹر صغریٰ صدف میزبان کے طور پر۔ اس سیشن کی میزبانی حافظ ممتاز ملک نے کی۔ دھوم دھڑکا اور ہلا گلہ اتنا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ یہاں وہی سن سکتا تھا جو کسی کی نہیں سنتا۔ میرا مطلب ہے جذبوں سے لبریز نوجوان۔ سب اپنے موج میلے میں تھے۔ ڈیک کی آواز بہت بلند بلکہ بالا تھی۔ جب وہ دل کی بیٹ سے ہم آہنگ ہوتی تو دھڑکن تیز ہو جاتی۔ مجھے اپنا دوست یونس بٹ یاد آ گیا کہ بچپن میں اسے کمزور ہونے کے باعث ایک حکیم نے ورزش بتائی تھی کہ دو پہلوانوں کی کشتیاں دیکھا کرے۔ بہرحال ہم اس امتحان سے گزرے۔ سجاد بری کی دھمال بھی سنی‘ اور یہ کہ ’’چمٹا تاں وجدا‘‘ اس کے بعد ہمارا مشاعرہ تھا۔ تاہم مہمان اعزاز شفقت محمود کو خطاب کرنا تھا مگر وہ بہت سمجھدار نکلے اور کرائوڈ سے کہنے لگے کہ انہیں پتہ ہے کہ وہ تقریر سننے کے موڈ میں نہیں۔ ظاہر ہے لوگوں کو تو ہر رکاوٹ زہر لگتی ہے شفقت محمود نے ڈاکٹر صغریٰ صدف اور خاقان حیدری اور ان کی ٹیم کی بہت تعریف کی۔ ایک فرمائش پر ہمیں اپنے بزرگ شاعر‘ رئوف شیخ بھی یاد آئے کہ ان کا لکھا گیت’’سانوں نہر والے پل تے بلا کے‘ خور ماہی کتھے رہ گیا‘‘ سنوایا گیا۔ نہ جانے میرے ذہن میں عمران خاں کیوں آیا؟ بتائوں گا تو بات لمبی ہو جائے گی کہ مہنگے پٹرول کا ذکر بھی آ جائے گا۔ مشاعرہ شروع ہوا تو ہمیں بھی اس میلے کا حصہ بننا پڑا کہ سٹیج وہی تھا اور ہم اوپن ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ بابا نجمی کی صدارت تھی اور ویر سپاہی کی نظامت۔ وہ صحیح عوامی شاعر ہے اور عوام کو قابو کرنا جانتا ہے۔ آدھا مشاعرہ تو اسی کا تھا کہ ہر شاعر کے بعد وہ اپنا کلام ضرور سناتا تھا۔ خواتین میں بینا گوندی اور طاہرہ سرا سٹیج پر تھیں۔ پہلے چند اشعار دیکھ لیں: سجناں کولوں وکھ نہیں رہنا وکھرے ہوئے ککھ نہیں رہنا (ڈاکٹر صغریٰ صدف) دکھ وی جادو گر ہوندے نیں لگدے نئیں ایہہ پر ہونے نیں بندہ توڑ کے رکھ دیندے نیں اینے طاقتور ہوندے نیں (خاقان حیدر غازی) کوئی کھوج کھرا نہیں لبھدا قاتل کاری گر لگدا اے (ارشد منظور) پہلی گل اے ساری غلطی میری نہیں جے کر میری وی اے‘ کہہ میں تیری نہیں (طاہرہ سرا) ڈاکٹر صغریٰ صدف مجھے بتا رہی تھی کہ وہ پلاک کو نہایت کفایت شعاری سے چلا رہی ہیں کہ ان کو کیا‘ اس مرتبہ کسی کو بھی گرانٹ نہیں ملی صرف تنخواہیں اور دفتری اخراجات ملے ہیں۔ وہ اپنے ہال کو ہی کرایہ پر دے کر کچھ کماتے ہیں۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ اتنے زیادہ فنکاروں اور شاعروں کو ایک تعلق خاطر ہی سے بلا لیا گیا۔ پتہ چلا کہ کچھ کے ساتھ تو ادھار کیا گیا ہے۔ جو بھی ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی حکمت عملی سے اسے ثقافت کی پروموشن کا مرکز بنا دیا ہے۔ آپ کہتے ہونگے کہ مشاعرے کا تذکرہ درمیان میں چھوڑ دیا۔ آپ شاعروں کے ناموں پر ہی اکتفا کریں۔ شاعروں میں نیلما ناہید درانی‘ عائشہ اسلم‘ احسان رانا‘ پروین وفا‘ زبیدہ حیدر زیبی‘ روبینہ راجپوت‘ سلیم طاہر‘ ہارون عدیم‘ سرفراز صفی‘ مرلی چوہان‘ نبیل انجم‘ ڈاکٹر اختر شمار‘ سعداللہ شاہ‘ باقی احمد پوری اور حفیظ طاہر تھے۔ رات بڑھتے بڑھتے خوشگوار ہوتی جا رہی تھی اور تاریخ بدل چکی تھی۔ لوگ رات گئے بھی ترو تازہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اختر شمار کا خوبصورت شعر: میلے وچ گواچ کے یار کاہدا میلہ تلیا میں اب آخر میں ایک نظم کے ساتھ اجازت کہ جس کی مجھے وہاں فرمائش کی گئی ترے نال محبتاں کاہدیاں‘ ترے نال اے کاہدی جنگ سانوں باہر کسے نہ چھیڑیا ساڈے اندر وجے ڈنگ ساڈا پہلا پہلا تکنا‘ اوہدی پہلی سنگ اسماناں توں چھم چھم کرتے نیلے پیلے رنگ دھرتی انج ہلارے کھاوے ٹٹی دل دی ونگ اکھاں دے وچ جذبے چمکے کپڑے ہو گئے تنگ ایدھر دل پیا پیلاں پاوے جویں مست ملنگ اوہدر اوہدا لوں لوں بولے میں رانجھے دی منگ